مسعود محبوب خان
ابومحمد الجولانی (اصل نام: احمد حسین الشرع) ایک شامی باغی رہنما ہیں جو ’جبهة النصرة‘‘ (النصرہ فرنٹ) کے بانی اور سربراہ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ جبهة النصرة شام کی خانہ جنگی کے دوران القاعدہ سے وابستہ ایک جہادی تنظیم کے طور پر سامنے آئی تھی جو بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑ رہی تھی۔ الجولانی شامؔ کے شہر درعاؔمیں 1980ء کی دہائی میں پیدا ہوئے۔انہوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد عراق میں القاعدہ سے وابستگی اختیار کی اور وہاں القاعدہ کے سربراہ ابو مصعب الزرقاوی کے ماتحت رہ کرامریکی افواج کے خلاف عسکری کاروائیوں میں شامل رہے۔2011ء میں شام کی خانہ جنگی کے آغاز پر الجولانی واپس شام آئے اور 2012ء میں جبهة النصرة کی بنیاد رکھی،جو جلد ہی شام کی سب سے مؤثر باغی تنظیموں میں شامل ہو گئی اور القاعدہ کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے اسے عالمی سطح پر دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا۔2016ء میں الجولانی نے جبهة النصرة کا نام تبدیل کر کے ’’فتح الشام‘‘رکھا اور بعد میں ’’ہیئة تحرير الشام‘‘ (HTS) کے قیام کا اعلان کیا، جس کا مقصد القاعدہ سے علیحدگی ظاہر کرنا تھا۔ الجولانی نے شام کے ادلب صوبے میں اپنی تنظیم کو مضبوط کیا اور ایک مضبوط گڑھ قائم کرکے کئی گروہوں کو متحد کرنے کی کوشش کی، مگر ان پر مخالف تنظیموں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے سخت تنقید بھی کی گئی۔امریکہ، اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں نے اس کی تنظیم کو دہشت گرد قرار دیا،اوراُن کی گرفتاری پر بڑی انعامی رقم مقرر کی گئی۔ الجولانی اب بھی شام کے شمال مغربی علاقے ادلب میں سرگرم ہیں، اور ’’ہیئة تحرير الشام‘‘ غالب طاقت کے طور پر موجود ہے۔الجولانی خود کو ایک قومی
رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر ان کے ماضی اور تنظیم کی پالیسیوں کی وجہ سے ان پر تنقید جاری ہے۔ شام کی خانہ جنگی اور مشرق وسطیٰ کی سیاست میںاُن کا کردار انتہائی متنازع رہا، وہ کچھ لوگوں کے لیے ایک باغی رہنمااور کچھ کے لیے ایک شدّت پسند دہشت گرد ہیں۔شام کی خانہ جنگی میں باغی گروہ سیاسی، نظریاتی اور عسکری لحاظ سے مختلف رہے ہیں اور ان کے درمیان اتحاد کے ساتھ ساتھ شدّید اختلافات بھی دیکھے گئے۔ ان باغی گروہوں کو تین بڑی کیٹیگریز میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ معتدل گروہ، جہادی تنظیمیںاور کرد گروہ۔
ؐ�معتدل گروہ زیادہ تر سیکولر یا معتدل اسلامی نظریات کے حامل تھے اور شام میں جمہوری تبدیلی کے لیے لڑ رہے تھے۔ 2011میںآزاد شامی فوج (Free Syrian Army – FSA) بڑا ابتدائی باغی گروہ تھا، جس میں حکومت کے منحرف فوجیوں نے حصّہ لیا۔ بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ اور جمہوری نظام کا قیام اس کا مقصد تھا۔ امریکہ، ترکی، قطر اور دیگر مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی۔ 2014ء کے بعد داخلی تقسیم اور طاقتور جہادی گروہوں کے اُبھرنے سے کمزور ہو گیا۔شامی قومی اتحاد (Syrian National Coalition) ایک سیاسی گروپ جو FSA کے عسکری ونگ کے ساتھ کام کرتا تھا۔ عالمی سطح پر اپوزیشن کی نمائندگی اور اسد حکومت کے خلاف حمایت حاصل کرنا ان کا مقصد تھا۔
�جہادی تنظیمیں ، یہ گروہ سخت گیر اسلامی نظریات پر مبنی تھے اور ’’شریعت ‘‘کے نفاذ کو اپنی ترجیح سمجھتے تھے۔ جبهة النصرة (النصرہ فرنٹ)2012میں اسلامی ریاست کے قیام اور بشار الاسد کی حکومت کے خاتمہ کے لئے ابومحمد الجولانی کی رہنمائی میں منظرِ عام پر آئی۔ 2016ء میں ’’ہیئة تحرير الشام ‘‘کے نام سے دوبارہ منظم ہوئی اور القاعدہ سے علیحدگی کا اعلان کیا، ادلب اس کا مضبوط گڑھ رہا۔ داعش (ISIS) کاابوبکر البغدادی کی قیادت میں 2014ء میں عراق سے شام تک اثر و رسوخ رہا۔ ’’خلافت ‘‘کے قیام کے ذریعے عالمی اسلامی حکومت کا نفاذ مقصد تھا۔ شام کے مشرقی حصوں میں زیادہ مضبوط تھی، خاص طور پر رقہ اور دیر الزور میں 2019ء میں شکست کے بعد پسپائی میں محدود گروہوں کے ذریعے سرگرم رہی۔ احرار الشام 2011ء میں قائم ہونے والی سخت گیر سلفی تنظیم جس کا مقصد ایک اسلامی ریاست کا قیام تھا کو قطر اور ترکی کی حمایت حاصل رہی۔ 2017ء کے بعد داخلی اختلافات اور HTS کے مقابلے میں کمزور ہو گئی۔
�کرد گروہ۔ شمالی شام میں فعال تھے اور خود مختاری کے لیے لڑ رہے تھے۔ وائی پی جی (YPG – People’s Protection Units) 2011ء میں قائم ہونے والا کُرد اکثریتی گروپ جو PKK (کردستان ورکرز پارٹی) سے متاثر ہے،کا مقصد شمالی شام میں کرد خودمختاری کا قیام رہا۔اُسے امریکہ اور دیگر مغربی اتحادی (داعش کے خلاف جنگ میں)کی حمایت حاصل رہی۔ شمالی شام میں رقہ کوبانی اور الحسکہ پر اثر و رسوخ رہا۔ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (SDF) 2015میں YPG کی قیادت میں مختلف کُرد، عرب اور دیگر اقلیتوں پر مشتمل اتحاد اُبھرا۔ جس کا مقصد داعش کے خلاف لڑنا اور ایک سیکولر اور خود مختار خطہ قائم کرنا تھا، جسے امریکہ کی حمایت حاصل رہی۔
�دیگر علاقائی اور فرقہ وارانہ گروہ : فیلق الشام رکی کی حمایت یافتہ گروپ جو شمالی شام میں سرگرم ہے، کا مقصد اسد حکومت کے خلاف لڑائی اور ترکی کے مفادات کا تحفّظ کرنا تھا۔ جیش الاسلام (2013ء)سلفی نظریات رکھنے والا گروپ دمشق کے قریب سرگرم تھا،کا مقصد بشار الاسد کا خاتمہ اور اسلامی حکومت کا قیام تھا۔ نورالدین زنکی تحریک (2011ء)FSA کا ایک دھڑا۔ 2018ء کے بعد HTS کے ساتھ تصادم کے باعث تحلیل ہو گیا۔
نظریاتی اختلافات (معتدل، سلفی اور جہادی گروہوں کے درمیان) وسائل اور بین الاقوامی حمایت کے لیے تنازعات، علاقائی کنٹرول پر قبضے کی جنگ خاص طور پر ادلب، حلب اور دیگر اہم شہروں میں، باغی گروہوں کا کردار نہایت پیچیدہ اور گوناگوں رہا ہے۔ معتدل گروہ ابتداء میں مضبوط تھے، لیکن جہادی تنظیموں اور علاقائی مفادات نے انہیں پسپاکردیا۔ کرد گروہ نے شمالی علاقوں میں اپنی جگہ بنائی، جب کہ خارجی طاقتوں کی حمایت نے باغی گروہوں کے درمیان اختلافات کو مزید بڑھا دیا۔ شام کی خانہ جنگی ایک متنوع محاذ رہی، جہاں ہر گروہ کے اپنے مفادات اور اہداف کار فرما ہیں۔
بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ عالم اسلام کے لئے مختلف سطحوں پردیکھا جاسکتاہے۔ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ممکن ہے کہ مختلف مذہبی اور نسلی گروہوں کے درمیان ہم آہنگی کی فضا قائم ہوسکتی ہو،جس سے مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کی بحالی کے امکانات بڑھ سکتے۔ بشار الاسد کی حکومت روس کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتی تھی ، جس کے نتیجے میں مغربی ممالک کے لئے شام ایک اہم جغرافیائی اور سیاسی چیلنج بن چکا ہے۔ اس حکومت کے خاتمے سے مغربی طاقتوں کی شام میں مداخلت کم ہو سکتی ہے۔اسد کی حکومت کے خاتمے سے شامی پناہ گزینوں کے اپنے وطن واپس جانے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے ۔ اگرچہ اس سب کا حقیقی اثر شام کی داخلی صورت حال عالمی برادری کے اقدامات اور خطے کے دیگر مسائل پر منحصر ہوگا، لیکن اس کے ممکنہ فوائد عالم اسلام کے لئے اہم اور دور رس ہو سکتے ہیں۔بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ شام کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ہے جو نہ صرف خطے بلکہ عالمی سیاست کے لئے نئے امکانات اور چیلنجز لے کر آیا ہے۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ شام اور خطے کے دوسرے ممالک اس تبدیلی کا کس طرح سامنا کرتے ہیں اور اسے اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ شام کے عوام کے لئےیہ ایک نئی ذمّہ داری ہے کہ وہ ایک مضبوط اور مستحکم مستقبل کی بنیاد رکھیں۔ شامی عوام کے لئے یہ موقع ایک نئے سیاسی، سماجی اور اقتصادی دور کا آغاز بن سکتا ہے، تاہم یہ انحصار کرے گا کہ نئی حکومت کس حد تک عوام کے مسائل کو حل کرنے اور ایک جامع نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ اگر یہ تبدیلی موثر سیاسی قیادت اور عوامی شمولیت کے ساتھ آگے بڑھی تو شام خانہ جنگی کے زخموں کو مندمل کر سکے گااور مشرقِ وسطیٰ میں ایک مثبت مثال بن سکتا ہے۔
رابطہ۔09422724040
[email protected]