مرکز ی زیر انتظام جموں و کشمیر نے2021کے اوائل میں’ فلڈ فورکاسٹنگ ‘یعنی سیلاب کی پیش گوئی کے ایک باہمی تعاون کے منصوبے کیلئے برطانیہ میں قائم خلائی ایجنسی کے ساتھ ہاتھ ملایاتھا۔ اس منصوبے سے مرکزی علاقے میں سیلاب کی پیش گوئی میں مدد ملنے کی امید جتائی گئی تھی ۔12 فروری2021 کو اس ضمن میں باضابطہ معاہدہ طے پایاتھا۔حکومت کے مطابق لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ کا یہ ایک بڑا قدم تھا جو سیلاب سے ہونے والے متوقع نقصانات، لوگوں کو زخمی ہونے، عمارتوں کو نقصانات پہنچنے اور معاشی نقصان کم کرنے میں مدد فراہم کرتا۔گوکہ جب سے اب تک اڑھائی برس بیت چکے ہیں لیکن تاحال اُس معاہدہ پر عملدرآمد نہیں ہوپایا ہے کیونکہ جموںوکشمیر میں کہیں بھی ایسا نظام قائم نہیں کیاگیا ہے۔آج بھی جموں وکشمیر میں فلڈ فورکاسٹنگ( سیلاب کی پیشگوئی) کا کوئی ایسا میکانزم یاطریقہ کار موجود نہیں ہے۔
بین الاقوامی تعاون ماضی کے سیلاب کے واقعات کا تجزیہ کرنے اور پیش گوئی شدہ سیلاب اور ان کے اثرات کے مابین تعلقات کی نشاندہی کرنے میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے ۔یہ میکانیزم لوگوں، ان کے مکانات، فصلوں، مویشیوں اور نقل و حمل کے راستوں پر پڑنے والے اثرات کی پیش گوئی کرسکتا ہے۔ اس طرح سیلاب کے دوران لوگوں کو درپیش کئی چیلنجوں کو کم کیا جاسکے گا اور سب سے بڑی بات یہ کہ یوٹی انتظامیہ کو اس منصوبے پر کوئی اخراجات برداشت نہیں کرنا ہوں گے ۔جب بھی کشمیر میں سیلاب کے بارے میں بات ہوتی ہے تو یہ ستمبر 2014 کے سیلاب کے پس منظر میں ہمیشہ رہتی ہے۔ ایسا ہونا لازمی ہے ، کیونکہ کشمیر نے اتنے بڑے پیمانے پر تباہی کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ایسے میں سیلاب کی پیش گوئی کے لئے برطانیہ میں قائم خلائی ایجنسی کے پروگرام کے ساتھ معاہدہ کرنے کی خبریں ایک عام آدمی تک پہنچیں تو فوری طور پر2014 ستمبر کے سیلاب اور اس سے ہونے والی تباہ کاریاں ذہن میں آئیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس خوفناک سیلاب سے پہلے بہت سی آوازیں آئیں جنہوں نے اس مسئلے کو اٹھایاتھا۔ کشمیر عظمیٰ نے کئی بار تحقیقی رپورٹوں کی روشنی میں اُس تباہی کی تفصیل بیان کی تھی جو سیلاب سے ہوسکتی ہے ،اگر وہ سرینگر اور اس کے مضافات کو اپنی لپیٹ میںلے سکتا ہے،لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی نے بھی توجہ نہیں دی اور اس کا خمیازہ ہم سب کو بعد میں بھگتنا پڑا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم واقعی ناگہانی آفات کی تیاریوں کے بارے میں سنجیدہ ہوجائیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کسی بھی ناگہانی آفت کی آمد کے بعد اس کے منفی اثرات سے نمٹنے کی بجائے اس آفت سے نمٹنے کیلئے تیاری کرنا ہی بہتر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سارے عوامل جو سیلاب میں مدد دیتے ہیں ان کی نقشہ سازی کی ضرورت ہے ، اور پھر ایک ایک کرکے اُن کو ایڈرس بھی کرنا ہے۔ ہمارے معاملے میں کچھ عوامل ایسے بھی ہیں جنہیں قطعی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ہے بلکہ اُن کو ترجیحی بنیادوںپر لینے کی ضرورت ہے۔ در حقیقت 2014 کے سیلاب کے بعد ہمیں اس بارے میں زیادہ محتاط رہنا چاہئے تھا ، لیکن معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ جس طرح سے ہم رہائشی اور تجارتی دونوں طرح کے ڈھانچے مسلسل تعمیر کررہے ہیں، اُس سے یہ مسئلہ بھی مسلسل سنگین ہوتا جارہا ہے۔ جس طرح سے ہماری آبی پناہ گاہیں یا آب گاہیں سکڑ رہی ہیں وہ تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ ہم بارش کو آنے سے نہیں روک سکتے۔ ہم یہ کرسکتے ہیں کہ ہم اپنی آب گاہوں میں زیادہ سے زیادہ پانی سمونے کی صلاحیت بڑھاسکتے ہیں۔ لیکن ہمارے آبی ذخائر کی حالت اور ہمارے بازاروں اور رہائشی علاقوں کا انداز اس معاملے میں اصل مقصد کو ہی فوت کردیتا ہے۔اب جبکہ ہم نے کسی بھی ناگہانی آفت سے نمٹنے میں اپنے آپ کو خود کفیل بنانے کیلئے عالمی ایجنسیوںکے ساتھ معاہدہ بھی کیاتھاتاہم وہ بھی عملی شکل نہ لے سکا۔وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ماضی کے تجربات سے کوئی سیکھ لیں۔محض سیلاب کی پیشگوئی اُس وقت تک مدد گار ثابت نہیں ہوسکتی جب تک سیلاب کے امکانی خطرات سے نمٹنے کیلئے جامع منصوبہ مرتب کیاجائے۔بے ہنگم تعمیرات کا سلسلہ فوری طور بند کیاجانا چاہئے ۔منظم اور منصوبہ بند رہائشی منصوبے شروع کئے جانے چاہئیں۔تجارتی کمپلیکسوں کی دھڑلے سے تعمیر کا سلسلہ فوری طور روک دینا چاہئے ۔ہمیں فوری طور پورے جموںوکشمیر کی میپنگ کرکے ایسے علاقوں کی نشاندہی کرلینی چاہئے جو نشیبی ہیں اور سیلاب کے خطرات سے دوچار ہیں۔کوشش کی جانی چاہئے کہ ایسے علاقوں میں مزید تعمیرات کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے ۔اس کے علاوہ ہنگامی بنیادوںپر جہلم توی ریکوری پروجیکٹ کے تحت جہلم ،توی اور کشمیر کی دیگر آب گاہوںکی کھدائی کا جو عمل شروع ہوا تھا،اس کو بنا کسی تاخیر کے مکمل کیاجانا چاہئے تاکہ ہماری آب گاہوںکی گہرائی میں اضافہ ہو اور بوقت ضرورت وہ زیادہ سے زیادہ پانی کو اپنے اندر سموسکیںجس سے سیلاب کا خطرہ ٹل سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔