محمد تحسین رضا نوری
ماہ ربیع الاول وہ بابرکت، معظم و مکرم مہینہ ہے جو اپنے دامن میں بے شمار فضائل و کمالات اور فیوض و برکات سمیٹے ہوئے ہے۔ انہی خوبیوں کی وجہ سے یہ مبارک و مسعود مہینہ جملہ مہینوں سے افضل اور بزرگ و برتر ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس مہینہ میں خاتم النبیین، رحمت العالمین، نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم محسن انسانیت بن کر دنیا میں تشریف لے آئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت سے پہلے زمانے نے وہ منظر بھی دیکھا تھا کہ جب چہار جانب اندھیرا ہی اندھیرا پھیلا ہوا تھا، بیٹیوں کو منحوس و مکروہ سمجھا جاتا تھا، بیواؤں پر ظلم و ستم کیا جاتا اُن کو بھی اُن کے شوہروں کے ساتھ نذرِ آتش کر دیا جاتا تھا، باپ اپنی بیٹی کو اپنے ہی ہاتھوں سے زمین میں زندہ دفن کر دیتا تھا، احساس انسانیت اپنا دم توڑ چکا تھا، شرک و کفر، ظلم و زیادتی،بے حیائی، شراب نوشی، زنا کاری عام تھی۔ لیکن نظام قدرت یہی ہے کہ اندھیرا ہمیشہ نہیں رہتا، اُجالا نمودار ہوتا ہے، پھر ایک ایسی صبح نمودار ہوئی جس نے نظام کائنات بدل کر اور ظلم و ستم کے بادل کو چھانٹ کر رکھ دیا، بے کسوں کا کس، بے چاروں کا چارہ، بے سہاروں کا سہارا بن کر وہ ذات تشریف لائی جس کی وجہ سے بزم کائنات سجائی گئی، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کیا ہوئی پوری دنیا میں انقلاب آ گیا، پتّھر دل موم کی طرح نرم ہو گئے، چہار جانب توحید کے نغمے گونجنے لگے، آسمان سے نور برسا تو زمین سرسبز و شاداب ہو گئی۔
اللہ رب العالمین نے اپنے بندوں کو بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں، لیکن کسی بھی نعمت پر احسان نہیں جتایا، لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے احسان جتا کر پوری دنیا کو یہ پیغام دے دیا کہ یہ آنے والا کوئی عام نہیں بلکہ میرا پیارا محبوب ہے اور اس عظیم نعمت پر احسان کیوں نے جتایا جائے، اللہ تبارک وتعالی نے اپنے پیارے محبوب ؐکو ہم میں بھیجا اور قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: لقد من اللہ على المومنین اذ بعث فیهم رسولا من انفسهم۔ (164)ترجمہ: ’’بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مفسرین فرماتے ہیں: عربی میں ’’منت‘‘ عظیم نعمت کو کہتے ہیں۔ مراد یہ کہ اللہ تعالی نے عظیم احسان فرمایا کہ انہیں اپنا سب سے عظیم رسول عطا فرمایا۔جنہوں نے اپنی ولادت مبارکہ سے لے کر وصال مبارک تک اور اس کے بعد کے تمام زمانہ میں اپنی امت پر مسلسل رحمت و شفقت کے دریا بہا رہے ہیں بلکہ ہمارا تو وجود بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ سے ہے ۔ پیدائش مبارکہ کے وقت ہی آپ نے ہم امتیوں کو یاد فرمایا، شب معراج بھی رب العالمین کی بارگاہ میں یاد فرمایا، وصال شریف کے بعد قبر انور میں اُتارتے ہوئے بھی دیکھا گیا تو حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کے لب ہائے مبارکہ پر اُمت کی نجات و بخشش کی دعائیں تھیں۔ آرام دہ راتوں میں جب سارا جہاں محو استراحت ہوتا تو پیارے آقا حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم اپنا بستر مبارک چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہم گناہگاروں کے لئے دعائیں فرمایا کرتے ہیں۔
قیامت کے دن سخت گرمی کے عالم میں شدید پیاس کے وقت ربّ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں ہمارے لئے سر سجدہ میں رکھیں گے اور امت کی بخشش کی درخواست کریں گے۔ (ماخوذ: تفسیر صراط الجنان)
حضرت عمرو بن قتیبہؓ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا جو کہ بہت بڑے عالم تھے، فرماتے ہیں: حضرت آمنہؓ کے یہاں جب ولادت با سعادت کا وقت قریب آیا، تو اللہ تعالی نے فرشتوں سے فرمایا کہ تمام آسمانوں اور جنتوں کے دروازے کھول دو، اُس روز سورج کو عظیم نور پہنایا گیا اور اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کی عورتوں کے لیے یہ مقدر کر دیا کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برکت سے لڑکے جنیں۔(الخصائص الکبریٰ، جلد 01)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت کے پربہار موقع پر خوشیاں منانا یہ اہل ایمان کی نشانی ہے، جو کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے، اس مبارک مہینہ کے آتے ہی عاشقان مصطفیٰ ؐ سیرتی مجالس سجاتے ہیں جو کہ کارِ ثواب اور مستحسن ہے۔ اس دور جدید میں ہم ایک نازک موڑ سے گزر رہے ہیں، دنیا میں ہر طرف مسلمانوں کو ستایا جا رہا ہے،
دین اسلام کو مٹانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں، روز بروز دشمنان اسلام طرح طرح کے حربہ استعمال کرتے ہیں، کہیں حضورؐ کی شان میں گستاخی، تو کہیں قرآن کریم کی بے حرمتی، اس مصائب و آلام کے سمندر سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے ،وہ یہ ہے کہ اُمت مسلمہ پوری طریقہ سے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سینے سے لگا لےاور ساتھ ساتھ سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عام کیا جائے۔ سیرت پر آسان چھوٹی چھوٹی کتابیں عوام الناس میں تقسیم کی جائیں، اسکولز، کالج اور مدارس اسلامیہ میں سیرت النبی ؐ اور سیرت خلفائے راشدینؓ اور اسلامی تعلیمات کے متعلق نصاب تیار کیا جائے۔ صوم و صلوٰۃ کی پابندی کرائی جائے، اسلامی کلچر اپنانے پر زور دیا جائے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت کی خوشی منانے کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو عام کیا جائے تو زندگی سکون کا گہوارہ بن جائے گی اور اِن شاء اللہ العزیز بہت جلد اُمت کو تمام الجھنوں اور پریشانیوں سے نجات مل جائے گی۔الغرض زندگی کے ہر شعبہ میں اور ہر پہلو کے اعتبار سے تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی اور سیرت میں ایک کامل نمونہ موجود ہے، لہٰذا ہر ایک کو اور بطور خاص مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اقوال میں، افعال میں، اخلاق میں اور اپنے دیگر احوال میں سید المرسلین ؐ کی مبارک سیرت پر عمل پیرا ہوں۔ اگر ہمارا جینا، مرنا، سونا، جاگنا حضور اقدسؐ کے نقش ِقدم پر ہو جائے تو ہمارے سب کام عبادت بن جائیں گے۔دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اپنے حبیبؐ کی کامل طریقے سے پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین