ممبئی سے متصل بھیونڈی نظام پور میونسپل کارپوریشن کے انتخابی نتائج کے اعلان کے دوسرے روز وہاں کے بی جے پی کے موجودہ رکن پارلیمان کپل پاٹل کا یہ بیان کہ ’’ میئر ہمارا ہوگا یعنی بی جے پی کا ہوگا‘‘ ،مہاراشٹر ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کو حیرت زدہ کرگیا۔ ۹۰؍ نشستوں والی کارپوریشن میں کانگریس ۴۷؍ نشستیں جیت لیں اور واضح اکثریت کے ساتھ بڑی پارٹی کے طوراُبھرگئی ہے جب کہ بی جے پی کو صرف ۱۹؍ نشستیں ہی مل سکیں۔اگرچہ شیو سینا اس انتخاب میں اس کی اتحادی پارٹی نہیں تھی اور نہ ہے لیکن اس کی۱۲؍ نشستوں کوبھی بی جے پی اپنا سمجھ کر یہ دعویٰ کرے تو بھی مشکل ہی لگتا ہے ۔سوال یہ پید ہوتا ہے کہ میئر کے لئے درکار باقی ۱۵؍ نشستوں کی بھرپائی وہ کہاں سے کرے گی؟اس کے لئے دماغ پر بہت زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک عام فہم رکھنے والا انسان بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اگر ایسا ممکن ہو سکا کہ بھیونڈی میں میئر بی جے پی کا منتخب ہو جائے تو یہ کھیل تمام تر ہارس ٹریڈنگ کا ہوگا۔انتخابات میں جو روپے بے دریغ خرچ ہوئے وہ تو الگ ہیں ،انتخابات کے نتائج کے بعد اپنی حکومت(میئر) بنانے کے لئے پھر سے جو روپے بہائے جائیں گے ،ظاہر ہے کہ وہ بے حساب ہوں گے۔کانگریس کے ۱۵-۲۰؍ کارپوریٹروں کو توڑنے کے لئے نہ جانے کتنے کروڑ روپے خرچ کرنے پڑیں گے مگر بی جے پی یہاں بھی یہ کہے کہ ’’وکاس‘‘ کے لئے کانگریس کے کارپوریٹرز بی جے پی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں تو اس کی سادہ لوحی پر رشک کرنے کو جی چاہے گا۔اگرچہ بھولے عوام تو صبر کر لیں گے اور مان بھی جائیں گے اور میڈیا تو پہلے ہی سے مان چکا ہے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے ’’وکاس‘ ‘کے لئے ہی ہو رہا ہے جس میں اس کا بھی ’’وکاس‘‘ شامل ہے۔
بھلا بتائیے!یہ کھلی دھاندلی ہے کہ نہیں ؟در اصل شیر کے منہ کو اب خون لگ گیا ہے۔گوا اور منی پور کا ذائقہ اسے مزید شکار کرنے پر آمادہ کر رہا ہے۔بھیونڈی کا یہ جو ڈیولپمنٹ ہے ،ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی کے قومی صدر امیت شااور وزیر اعظم نریندر مودی کو معلوم نہ ہو۔یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں کی شہ پر یہ کھیل کھیلا جا رہا ہو۔ابھی کچھ دن قبل ہی مرکزی حکومت کے نارد مُنی ارون جیٹلی نے کہا کہ’ ’بدعنوانی ہمیں وراثت میں ملی ہے،اسی کی اصلاح ہم لوگ تین برسوں سے کر رہے ہیں ‘‘ لیکن بھیونڈی کے معاملے میں ارون جیٹلی کچھ نہیں کہیں گے بلکہ وہ کانگریس کی نا اہلی ہی کو مورد الزام ٹھہرائیں گے کہ کانگریس میں وہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ اپنے گروہ کو یکجا اور متحدرکھ سکے۔عجیب معاملہ ہے ،جو پکڑا گیا وہ چور ورنہ کوئی بات نہیں ۔ مودی غالباً یہ بیان دے چکے ہیں ۔اس لئے کہنے کو اب کوئی بات نہیں رہ جاتی۔بدعنوانی اور بے اصولی کی جو تعریف بی جے پی نے متعین کی ہے ،وہ بڑی ہی نرالی ہے ۔اسی لئے بابری مسجد کی شہادت سے متعلق مقدمے میں سی بی آئی کے ذریعے چارج شیٹ داخل ہونے کے بعد بھی اوما بھارتی ابھی تک مرکزی وزارت سے چپکی ہوئی ہیں ۔اس تعلق سے بی جے پی کے کسی سینئرلیڈر نے بھیکوئی بیان دینے کی جرأت نہیں کی کہ اوما بھارتی استعفیٰ دیں اور نہ ہی وزیر اعظم نے اب تک کچھ کہا ہے۔لگتا ہے کہ اس مقدمے کا انجام اس نہج پر لا کر چھوڑ دیا جائے گا کہ ملزم کوکبھی مجرم قرار ہی نہیں دیا جا سکے گا اور جرم کی نوعیت یکسر بدل جائے گی ۔فی الحال لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کو اسی مقدمے کی بدولت صدرِ ہند کی دوڑ سے روک دیا گیا ہے لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ اسی مقدمے کی بنا پر اوما بھارتی اپنا استعفیٰ پیش نہیں کرتیں ۔یا وہ بات اور بیان یاد کریں اور سامنے رکھیں جو وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے اپنے وزیروں کے استعفیٰ کے تعلق سے گزشتہ برسوں کہا تھا کہ ’’ہمارے وزیر یو پی اے کے تھوڑے ہی ہیں جو استعفیٰ پیش کرتے رہیں !‘‘
جموں کشمیر کی ۸۷؍ نشستوں والی اسمبلی میں بی جے پی کے ۲۵؍ رکن ہیں ،محبوبہ مفتی کے پی ڈی پی(پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی)کے ارکان سے صرف ۳؍ کم۔اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے کے لئے ۴۴؍ ارکان کی ضرورت ہے یعنی کہ بی جے پی ۱۹؍ نشستیں پیچھے ہے۔کانگریس اور عمر عبد اللہ کی نیشنل کانفرنس کو چھوڑ کر آزاد ارکان اسمبلی سمیت اس کے پالے میں ۶؍ رکن اوربھی آسکتے ہیں۔یعنی صرف ۱۳؍ اراکین اسمبلی کی ضرورت اسے باقی رہتی ہے ۔آج کے حالات میں ایک شخص یہ سوچ سکتا ہے کہ بی جے پی کے لئے ۱۳؍ اراکین اسمبلی جُٹانا کیوں کر مشکل ہے؟ایسے میں سوچا جا سکتا ہے کہ اس نے کشمیر کو ابھی تک کیوں بخش رکھا ہے؟پی ڈی پی سے ۱۳؍ اراکین کو اپنا ’’حامی‘ ‘بنا لینا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ کام کرکے یہ خود کا وزیر اعلیٰ بھی بٹھا سکتی ہے جو ظاہر ہے کہ کوئی مسلم نہیں ہوگا ۔ممکن ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کا یہ خواب بھی ہو کیونکہ اس دفعہ اپنا سالانہ اجلاس آر ایس ایس جموں میں کر رہا ہے اور ہمت یوں ہی بڑھتی رہی تو آئندہ برس کا اجلاس بی جے پی یا آر ایس ایس سرینگر میں بھی کر سکتے ہیں۔پہلی بات یہ ہے کہ اجلاس کرنے سے انہیں کوئی روک نہیں سکتا لیکن اس کے اثرات کیا مرتب ہوں گے ،کچھ کہا نہیں جا سکتا؟ریاست کے خراب حالات کی ایک بڑی وجہ وہاں بی جے پی کااقتدار میں شامل ہونا ہے،ایسے میں یہ بات صرف محسوس کی جا سکتی ہے کہ اگر وہاں بی جے پی تنہا اقتدار میں ہو تو وادی کی صورتحال کیا ہوگی؟کشمیری شاید ہی یہ برداشت کر سکیں گے کہ وہاں وزارت اعلیٰ کی کرسی پر مسلم کے علاوہ کوئی اور متمکن ہو۔
خیر!بات ہورہی تھی انحراف ،دل بدلی یا پھر ہارس ٹریدنگ کی یعنی کہ پی ڈی پی کے ۱۳؍ لوگ اگر منحرف ہو جائیں تو جموں کشمیر میں بی جے پی اپنے بل بوتے پرحکومت تشکیل دے سکتی ہے،اس صورت میں اس پر پی ڈی پی کا کائی دباؤ نہیں ہوگا۔یا عمر عبدللہ یعنی نیشنل کانفرنس کے ۱۵؍ ایم ایل ایز اگر باہر سے حمایت دے دیں تو بھی بات بن جاتی ہے۔عمر یا فاروق عبداللہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ وہ نہیں چاہیں گے کہ اُن کا حال بھی پی ڈی پی کی طرح ہو جائے اور ایسا کرنا ان کے لئے سیاسی خود کشی کے مترادف ہوگا۔ رہ جاتی ہے پی ڈی پی پارٹی کو توڑنے کی بات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو بی جے پی کے پاس تمام تر وسائل ہونے کے باوجود بھی جموں کشمیر میں وہ ایسا نہیں کر سکتی۔ایسا کیوں؟سابق وزیر اعلیٰ شیخ عبداللہ نے ۱۹۷۹ء میں جموں کشمیر اسمبلی میں ۲۴؍ گھنٹے کے اندر ایک ایسا قانون پاس کروایا جس کی رُو سے وہاں کسی بھی صورت میںدل بدلی ہو ہی نہیں سکتی۔اگرچہ تمام سیاسی پارٹیوں نے اس قانون کی حمایت کی تھی لیکن چند ایک نے شیخ کے اس قدم کو اقتدار پر ’’وراثتی قبضہ‘ ‘ قرار دیا تھا۔وراثتی سیاست تو ہندوستان کا مقدرہے لیکن اس کے علاوہ اِس قانون نے جموں کشمیر کو جو وقار اور استحکام بخشا ہے ،اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔اس زاویہ ٔ نگاہ سے دیکھیں تو شیخ عبداللہ کو اس معاملے میںایک دور بین شخص کہا جا سکتا ہے جب کہ پورے ملک میں دل بدلی قانون(Anti-Defection Law) رائج ہے اس کا سیدھا فائدہ روپوں سے مضبوط پارٹی اٹھاتی ہے کیونکہ کسی پارٹی کے ایک تہائی اراکین الگ پارٹی بنا کر کسی کی بھی حمایت کر سکتے ہیں یا کسی پارٹی میں ضم ہو سکتے ہیں اور اسپیکر انہیں نا اہل قرار نہیں دے سکتا جب کہ ایسا جموں کشمیر میں نہیں ہو سکتا۔
وقت کی ضرورت ہے کہ جموں کشمیر کی طرح اِس قانون کو ملک کی تمام ریاستوں نیز مرکز میں بھی نافذ کیا جائے تاکہ روپوں اور عہدوں کے لئے منتخب اراکین ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں جانے سے احتراز ہی نہ کریں بلکہ جا ہی نہ سکیں اور بھیونڈی ،گوا ، منی پور ،اروناچل پردیش وغیرہ ریاستوں اور بلدیوں میں جو نا جائز طریقے اپنائے جارہے ہیں ،اس کو روکا جا سکے۔کیا بی جے پی اس کے لئے تیار ہے؟۔