حق نوائی
عاشق حسّین وانی(عاشقؔ)
جب کسی آدمی کے جسم کے کسی حصے پر گہری چوٹ لگ جاتی ہے اور اس حصے کے اندر فاسد خون جمع ہو جاتا ہے، تو اس خون کو باہر نکالنے کے لئے کچھ لوگ حکیم کے پاس جاتے ہیں۔ وہ ایک بھورے رنگ کا کیڑا جو ٹھہرے ہوئے پانی میں پیدا ہوتا ہے، جس کو جونک کہتے ہیں، ا س چوٹ کی جگہ ڈال دیتا ہے اور یہ کیڑا اس چوٹ کی جگہ سے سارا گندا خون چوس کر زخم کو صاف بنا دیتا ہے اور اس طرح سے یہ چوٹ جلدی بھر جاتا ہے ۔ بالکل اسی طرح سچ بولنے والا شخص سچائی کی بدولت اپنے نیک اعمال کے خزانے میں سے جھوٹ، برائی و بد اخلاقی کا زہر یلا مّادہ چوس کر انھیں صاف و خالص بنا دیتا ہے اور دوسری طرف یہ شخص اپنے نیک اعمال کے خزانے میں سچ بول کر نیکی کا ایک اور بیش بہا و قیمتی جوہر اکھٹا کرتا ہے۔
سچائی کے تصور اور اس کے پسِ منظر میں مو جو د نیکیوں کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ سچائی دراصل وہ پاکیزہ اورفائدہ مند عمل ہے جو تمام نیکیوں کی مرکز ہے اور اس پر عمل کرنے پر اس کا نیک اثر براہ ِ راست دوسرے تمام برے اعمال پر پڑ جاتا ہے اور یہ وہ نیک عمل ہے، جس کو اگر دوسری خو بیوں و نیکیوں سے فرق کیا جائے تو اس کا وزن ہر ہمیشہ بھاری نکلے گا ۔
وہ فرد جو ہر فعل میں سچائی اور نیک نیتی اپناتا ہے اور سچائی کے تمام ضابطوں کا تہہ دل سے عمل و احترام کرتا ہے تو یقیناً اس فرد کا قلب اطمنان و خوش حالی کے جذبے سے سرشا ر ہو تا اور اطمنان زندگی کی وہ خوشی ہے جو انسان کو حق کی بخوبی ادائیگی سے نصیب ہو تی ہے ۔ وہ فرد جس کی زبان و دل میں سچائی ہو اور اپنے روز مرہ زندگی کے بول و چال میں ، کام و کاج میں، خیر و حق میں ، عدل و انصاف میں سچائی کو ہر حال محفوظ رکھتا ہو، در اصل وہ اس عمل سے اپنے آپ کو فکر و غم سے محفوظ رکھتا ہے اورپھر وہ اس سچائی کی بدولت سو سائیٹی میں صادق کے نام سے مقبول ہو جاتا ہے، لوگوں میں اس کا اعتماد بڑ جاتا ہے اور پھر معاشرہ ایسے افراد کو ان کاموں پر معمور کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا ہے جن کا تعلق خاص کر ان شعبوں سے ہو،جہاں سچائی اور ایمانداری کو اہم ضرورت سمجھا جاتا ہے۔
سچائی و صداقت انسانیت کا سب سے بڑ ا کمال ہے ۔وہ اشخاص جو سچائی میں اندونی طور داخل ہوتے ہیں، وہ اپنی اس سچائی کی بدولت دوسرے لوگوں کو بھی بے حد متاثر کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ سچائی میں شامل ہوتے ہیں اور رفتہ رفتہ ایسے افراد ہر معاملے میں صادق دکھائی دیتے ہیں اور سماج کا کوئی بھی غلط فرد اپنی غیر اخلاقی مقصد کی تعمیل و تکمیل کے لئے ان کے سامنے اظہار کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی ایسی امداد، جو حق و صداقت کے متضاد ہو، طلب کر سکتا ہے۔ کیو ں کہ وہ جانتا ہے کہ سچ بولنا والا یہ شخص سماج میں رہ کر اپنے فرائض بغیر کسی خوف و ڈر کے انجام دیتا ہے۔ اس کے بر عکس وہ فرد جو سچائی سے انحراف کر تا ہے اور جھوٹ و فریب کو اپنا دین بناتا ہے ا ور سچائی سے دور رہ کر ذاتی مفاد اور وحشیانہ نفسی خواہشات کو حاصل کرنے کے لئے فریب و مکاری سے کام لیتا ہے تو ایسا فرد جلد ہی سماج میں رُسوا ہو جاتا ہے اورذلت اس کی مقدر بن جاتی ہے، پھر ایک وقت آ جاتا ہے کہ اس میں سچائی کا احساس پیدا تو ہو جاتا ہے لیکن اس وقت اس کی زندگی میں وہ طاقت موجود نہیں ہو تی ہے کہ وہ ا س پر عمل کر سکے۔ سچائی رُسو ت کی طرح ایک کڑوی دوائی ہے لیکن اس کے پینے والے ہر ہمیشہ شہد کا مزا پاتے ہیں اور دل میں فرحت و ٹھنڈک محسوس کرتے ہیں ۔
اس سے پہلے کہ سچائی عیاں ہو جائے انسان کو سچ بولنا چاہے کیونکہ سچائی سورج کی روشنی کی مانند ایک ایسی حقیقت ہے جس کو کوئی چھپا نہیں سکتا ہے اور نہ ہی بناوٹی باتوں یا منصو بوں سے اس پر کوئی فریب کاری کی کھال چڑھا سکتا ہے۔ ایک جھوٹا فرد اگر کسی دوسرے فرد ،جو سچائی پر قائم ہو کے خلاف ایک جھوٹی بات بتا کر اس کو بے عزت و رُسوا کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہو جاتا ہے لیکن غلط بیانات و غلط گواہی سے سچ کو جھوٹ بو لنے والا یہ شخص وقت آنے پر ایک ایسے جال میں پھنس جاتا ہے ،جہاں سے اس کے لئے خود کو باہر نکلنا بہت مشکل بن جاتا ہے۔
ہر فرد کو چاہئے کہ جو کچھ اس نے دیکھا یاسُنا ہو، وہی خبر یا معلو مات دوسروں تک پہنچا ئے اور اگر اس نے بیچ میں ایک ایسی بات کا اضافہ کیا جو حقیقت کے عین برعکس ہو تو یقینا ًاس بات میں وہ سچائی باقی نہیں رہ جاتی ہے اور ایسی خبریں جو پبلک کے سامنے توڑ مروڑ کر پیش کی جاتی ہیں، انتشا کی فضا پیدا کر کے سماج کے پُر امن ماحول کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ اس لخاظ سے ہر فرد چاہے وہ صحافی یا ادیب ہو ، منصف یا وکیل ہو ، درخواست دہندگان یا اس درخواست پر کاروائی کرنے والا ہو، کو چاہئے کہ وہ سچائی اور حقیقت کو ہر وقت سامنے ر کھ کے فیصلہ سنائے۔
سچائی سے انحراف یا چشم پوشی کرنا ، دوسروں کے جذبات اور احساسات کا احترام نہیں کرنا ہے۔وہ بات جو صداقت پر مبنی ہو ،کو ہو بہو بیان کرنا ایک عظیم عبادت ہے کیوں کہ اس میں خدمتِ خلق موجود ہے ۔کسی سے کئے گئے عہد و پیماں کا وفا نہ کرنا یا جھوٹ بولنا انسان کے دل کو کافی صدمہ پہنچا دیتا ہے، اس سے انسانوں کے درمیا ن آپسی اعتبار کو ٹھیس پہنچتا ہے ،جس کے نتیجے میں لوگوں کے درمیان بجائے باہمی محبت کے نفرت پیدا ہو جاتی ہے اور آپسی رشتوں کے درمیان فاصلہ بڑ جاتا ہے۔ جس سے تلخیاں جنم لیتی ہیں۔ کبھی کبھار سچائی ظاہر کر نے پر انسان کچھ وقت تک نا راضگی کا اظہار کرتا ہے لیکن وہ ناراضگی ،جو جھوٹ کے سبب حاصل ہوئی ہو، وہ نا قابل فراموش بات بن
جاتی ہے۔ کیوں کہ اس میں اعتبارٹوٹ جاتا ہے او ر ایسی ناراضگی وقت کے ساتھ کبھی بھی ختم نہیں ہوتی ہے۔
دنیا میں سب سے قابلِ رحم انسان وہ ہوتا ہے، جس کا دل جھوٹ کی سبب گھائل ہوا ہو اور یہ زخم اس کو اس انسان نے دیا ہو، جس پر اس نے سچائی کی امید رکھی ہو لیکن وہی جھوٹا نکلا ہو ۔ سب سے زیادہ تجربہ کار شخص وہ ہے جو مکار اور فریب لوگوں کی چالاکیوں کا سب سے زیادہ تجربہ رکھتا ہے ۔
وہ فرد جو گناہوں ، غلطیوں اور برے کاموں سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہو اور اپنی زندگی اس دنیا میں نیک ، صالح و پُر اخلاق گزارنے کا مطمئن ہو، اس کو چاہئے کہ سچائی کا راستہ اختیار کرے ۔سچائی محض سچ بولنا ہی نہیں ہے بلکہ سچائی میں اپنی تمام زندگی کا ظاہر و باطن شامل کرنا ہے۔ سچائی وہ راستہ ہے جس پر چل کر انسان باقی تمام گناہوں سے نجات حاصل کر تاہے اور دنیاوی مصا یب سے راحت پا سکتا ہے۔ لہٰذا سچائی ،جو ایمان کا متبرک حصہ ہے، تمام نیکیوں کا محور ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ ہر وقت سچ بولے اور سچائی پر سختی سے عمل کرے۔
(مصنف مضمون نگار اور شاعرہے )
[email protected]
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)