براعظم افریقہ کے شمال مشرق میں واقع سوڈان کو اسلامی علم و ادب کا ایک اہم مرکز مانے جانے کے علاوہ اس کا دارالحکومت خرطوم اپنے کثیر الثقافتی مزاج کی بنیاد پر دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔ تاہم گزشتہ تقریباً دو سالوں پہلے سوڈان میں عمر البشیر کی آمرانہ قیادت کا تختہ پلٹنے کے بعد سے سوڈان میں نیم جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا تھا، جو کہ عرب بہار کے زیر اثر ممکن ہوسکا تھا۔2019میں عمرالبشیر کی تیس سالہ حکومت ختم ہونے کے بعد سوڈان میں ایک نئی خود مختار کاؤنسل یا Sovereign Council کا قیام عمل میں آیا تھا جس میں کہ فوج اور عوامی نمائندوں کی شمولیت تھی اور وزیر اعظم کی قیادت میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی تھی۔تاہم گزشتہ سال 25اکتوبر کو فوج نے عبداللہ حمدوک کی عبوری حکومت کو ہٹاکر حکومت پر اپنا قبضہ کرلیا۔ جنرل عبدالفتح البرہان کی قیادت میں ہونے والے اس فوجی بغاوت کو عوام نے یکسر مسترد کیا اور اکتوبر سے اب تک فوج کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں60سوڈانی شہری جاں بحق ہوچکے ہیں۔درحقیقت سوڈان میں جس طریقے کی اسلامی آمیزش والی آمرانہ حکومت عمرالبشیر کی زیرِ قیادت تیس سالوں تک قائم رہی اس کے خلاف عوامی تحریک شروع ہونے کی وجہ کچھ حد تک عرب بہار سے بھی متاثر رہی ہے۔ بشیر حکومت کے خلاف تحریک میں (SPA) Sudanese Professional Association اور Resistance Committeesکی کل جماعتی تنظیم Forces for the Declaration of Freedom and Change نے ایک کلیدی کردار ادا کیا۔ اور انھیں تنظیموں نے فوجی حکام کے ساتھ مل کر عبوری حکومت کے قیام میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا جو کہ 2020میں قائم ہوئی تھی۔ ان سماجی و جمہوری تنظیموں اور فوج کے درمیان ہونے والے معاہدے کے مطابق جولائی 2023میں ہونے والے انتخابات تک ملک میں ایک عبوری حکومت قائم ہونا تھی جو کہ Sovereign Council کے ساتھ اشتراک میں ملک پر حکومت کرتی۔ حمدوک کے مطابق انھوں نے عبوری وزیر اعظم بننا اس لیے قبول کیا تاکہ ملک میں جمہوری اداروں اور طریقہ کار کو تقویت بخشی جاسکے اور انھیں مستحکم کرنے کے بعد، انتخابات کے ذریعہ ایک جمہوری حکومت سوڈان میں قائم کی جاسکے۔اکتوبر 2021میں حمدوک حکومت کو بر طرف کرنے کے بعد فوجی بغاوت کے لیڈر جنرل برہان نے جو کہ Sovereign Councilکے چیئرمین بھی ہیں انھوں نے دعویٰ کیا تھاکہ فوجی حکومت جولائی 2023تک زیر اقتدار رہی گی اور پھر عام انتخابات کے بعد جو بھی سیاسی جماعت فاتح ہوگی، وہ حکومت قائم کرے گی۔ فوج نے حمدوک کے علاوہ دیگر اور کئی اہم سیاسی اور سماجی رہنماؤں کو بھی حراست میں لے لیا تھا۔جنرل برہان کی ان غیر جمہوری کارروائیوں کو مغربی، عرب اور افریقی تمام ممالک نے مسترد کیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ فوراً سول حکومت کا دوبارہ قیام عمل میں لائیں۔ امریکہ نے دباؤ بڑھانے کے لیے اعلان کیا کہ وہ اپنی 700کروڑ ڈالر کی امداد کو فوری طور پر روک رہا ہے۔ اس عالمی دباؤ کی بدولت جنرل برہان نے حمدوک کو اگلے دن رہا کردیا اور آخر کار دونوں گروپوں کے درمیان مذاکرات کے بعد نومبر میں حمدوک کو دوبارہ وزیر اعظم نامزد کیا گیا لیکن ان کے سیاسی اور سماجی و جمہوریت حامی ساتھیوں کو نئی انتظامیہ میں بالکل نظر انداز کیا گیا۔
فوجی حکام نے اپنے قبضے کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ حمدوک کو دوبارہ ان کے عہدے پر فائز کرکے وہ ملک میں استحکام کا ماحول قائم کرنا چاہتے ہیں، جبکہ حمدوک کا کہنا تھا کہ انھوں نے ملک میں خوں ریزی ختم کرانے اور جمہوریت کے راستے کو مستحکم کرنے کی غرض سے فوجی حکام کے ساتھ ملک کر کام کرنے کا فیصلہ لیا، تاہم عالمی برادری نے اس بدلاؤ کو کافی احتیاط کے ساتھ قبول کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ فوجی بغاوت سے پہلے والے سیاسی نظام کی دوبارہ بحالی ہونی چاہیے۔سوڈانی عوام میں نے بھی ان نئی پیش رفت کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور اب احتجاج نا صرف فوج بلکہ حمدوک کے خلاف بھی مرکوز ہوگئے ہیں۔ ادھر حمدوک فوجی حکام اور جمہوری عناصر کے درمیان ہم آہنگی قائم کرانے میں بھی اور ساتھ ہی وہ کوئی نئی کابینہ تشکیل دینے میں بھی ناکام نظر آرہے ہیں۔
اب کیا ہوسکتا ہے؟
جمہوریت حامی عوامی تحریک کے نمائندوں اور عوام کا مطالبہ ہے کہ حکومت کو فوراً کسی سول حکومت کو منتقل کیا جائے، جبکہ جنرل برہان کا کہنا ہے کہ وہ کسی منتخبہ حکومت کو ہی اقتدار منتقل کریں گے، یعنی کہ تعطل برقرار ہے اور سوڈان معاشی اور داخلی دونوں طور پر مشکلات میں گھرتا چلا جارہا ہے۔سوڈان کے لیے اقوامِ متحدہ کے سفیر و لکر پرتھس کا کہنا ہے کہ موجودہ بحران ختم کرنے کے لیے عوامی نمائندوں کو بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے جس کے لیے اقوامِ متحدہ ثالثی کے لیے تیار ہے۔ امریکی وزارت خارجہ نے بھی سوڈانی رہنماؤں کو مشورہ دیا ہے کہ انھیں اپنے اختلافات بھلا کر باہمی بات چیت کے ذریعے اتفاقِ رائے قائم کرکے اس عمل کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کس طرح ملک میں ایک سولین حکومت قائم کی جاسکے۔ ساتھ ہی 2019کے آئینی اعلامیہ کے مطابق اگلے وزیر اعظم اور کابینہ مقرر کی جانی چاہیے جو کہ عوام کے لیے آزادی، امن اور انصاف کو یقینی بناسکے۔اپنے استعفیٰ کے بعد دی جانے والی تقریر میں حمدوک نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعہ ایک ایسا روڈ میپ تیار کیا جائے جو کہ جمہوریت کی جانب راستے کو بالکل صاف طور پر متعین کرسکے اور ساتھ ہی وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بجائے کئی دوسرا شخص اس تبدیلی کو برابر کراسکے۔ انھوں نے کہا کہ اگر سیاسی خلفشار اسی طرح جاری رہے گا تو یہ ایک بہت بڑے الیمے میں تبدیل ہوسکتا ہے جو کہ سوڈانی معیشت کو بری طرح متاثر کرسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سوڈان اپنی تاریخ میں اور موجودہ دور کے ایک بہت نازک موڑ پر پہنچ چکا ہے اور اگر صحیح فیصلے نہیں لیے جاتے ہیں تو وہ سوڈان کے وجود کو بھی متاثر کرسکتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے ہیں کہ ملک میں کوئی خانہ جنگی شروع ہوجائے۔
دوسری جانب امریکہ، ناروے، برطانیہ اور یوروپی یونین نے سوڈانی فوج کو متنبہ کیا ہے کہ مغربی ممالک کسی بھی نئے وزیرِ اعظم کو اور اس کی کابینہ کو اس وقت تک اپنی حمایت نہیں دیں گے جب تک کہ اس میں عوامی نمائندوں کی اکثریت نہ ہو۔ ٹرائیکا کا کہنا تھا کہ ایک معتبر حکومت اور پارلیمان سوڈان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے اہم اور کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں اور اسی کے ساتھ سوڈان کی معاشی امداد بھی جڑ جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر سوڈان جمہوری راستے پر گامزن نہیں ہوتا ہے تو وہ سوڈان کو دی جانے والی معاشی امداد پر بھی روک لگا سکتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ سوڈانی عوام نے اپنی پُرزور آواز میں ایک مرتبہ پھر مطالبہ کیا ہے جیسا کہ انھوں نے 2019میں کیا تھا کہ وہ آمرانہ حکومت اور آمریت کو مسترد کرکے ملک میں ایک جمہوری نظام قائم کرنا چاہتے ہیں اور سوڈانی رہنماؤں کو ان کے مطالبے کو غور سے سن کر اس پر عمل بھی کرنا ہوگا۔
مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ استعماری طاقتوں نے جب ایشیا، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ سے الوداع کہا اور نئے ملکوں کا قیام عمل میں آیا تب بھی انھوں نے ان نئے ملکوں کو پوری طریقے سے جمہوریت کے راستے پر چلنے میں عملی طور پر کوئی مدد نہیں کی بلکہ صرف لفاظی کی۔ درحقیقت انھوں نے ان ملکوں میں ایسی آمرانہ حکومتیں قائم کرانے کی کوششیں کیں جو کہ ہر طریقے سے ان مغربی طاقتوں کے مفادات کی نگرانی کرسکیں اور ساتھ ہی یہ یقینی بناسکیں کہ ان ملکوں کے عوام عملی طور پر نہیں صرف زبانی طور پر جمہوریت کے لیے لڑتے رہیں۔ لیکن اب حالات بدلتے نظر آرہے ہیں اور مغربی طاقتیں خود اپنے کھیل میں پھنستی نظر آرہی ہیں کیونکہ اب زیادہ تر ملکوں میں عوام نے ان کے اور آمرانہ طاقتوں کے کھیل کو سمجھ لیا ہے اور وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ان کے ملک میں بھی کوئی مستحکم جمہوری حکومت قائم ہوسکے جو کہ ان مغربی طاقتوں کے جمہوریت کے تئیں دیے گئے درس پر ہی گامزن رہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
www.asad-mirza.blogspot.com