ملک میں سرکاری ملازمین سے متعلق 2004ء کی پینشن سکیم پہلے دن سے ہی متنازعہ رہی ہے۔ 2004 کے بعد سرکاری نوکریوں میں بھرتی ہونے والے ملازمین اس نئی پینشن سکیم کے دائرہ میں لائے گئے ہیں اور ان ملازمین کو بادل ناخواستہ اسی نئی سکیم کے تحت نوکری میں شامل ہونا پڑا۔ ان ملازمین کے اندر ہی اندر اس پینشن سکیم کے خلاف ایک بھر پور لاواپک رہا تھا۔ جہاں جہاں موقعہ ملا اٹھ کھڑا ہوئے اور ارباب اقتدار تک اپنی ناراضگی پہنچائی۔ مثبت نتائج تب نکلنے شروع ہوئے، جب راجستھان کی حکومت نے اپنے ملازمین کی پینشن سکیم سے متعلق مطالبہ تسلیم کیا اور 2004 والی پینشن سکیم کو منسوخ کرکے سارے ملازمین کو پرانی والی پینشن سکیم کے ہی دائرہ میں لایا۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں ملازموں کی متنازعہ پینشن سکیم ایک بڑے الیکشن مدعا کے طور ابھر کر سامنے آئی۔ ریاست کی ایک بڑی سیاسی پارٹی’’ سماج وادی پارٹی‘‘ نے برسراقتدار آنے کی صورت میں اس نئی پینشن سکیم کو منسوخ کرکے ریاست کے سبھی ملازمین کو پرانی ہی پینشن سکیم کے دائرہ میں لانے کا وعدہ کیا تھا۔ لگتا ہے کہ الیکشن میں ملازمین کی خاصی تعداد نے سماج وادی پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالے۔اگرچہ اس کے باوجود بھی یہ پارٹی اقتدار میں نہ آسکی۔ پھر بھی اتر پردیش کی اسمبلی میں ایک مظبوط اپوزیشن کے طور ابھر کے سامنے آگئ۔ اب ملک کی دیگر ریاستوں سے بھی سرکاری کرمچاری اس مطالبہ کو پورے شدومد کے ساتھ آگے لارہے ہیں۔ اور ان حکومتوں پر دباؤ ڈالنا شروع ہوا ہے۔ کہ راجستھان کی طرح اس متنازعہ نئی پینشن سکیم کو منسوخ کرکے پرانی پینشن سکیم کو ہی سب سرکاری ملازمین پر یکساں طور لاگو کیا جائے۔ اب گجرات اور جموں وکشمیر کے چناو بھی مستقبل قریب میں ہونے والے ہیں۔ یہاں کے سرکاری کرمچاریوں کوبھی ایک اچھا موقعہ مل رہا ہے کہ وہ غیر مقبول نئ پینشن سکیم سے متعلق اپنے خدشات ان ریاستوں کی سیاسی جماعتوں کی نوٹس میں لاکر مستقبل میں حکومت سازی کے بعد اس کو منسوخ کرکے تمام ملازمین کو یکساں طور پرانی سکیم کے ہی دائرے میں لائے جانے کی یقین دہانی حاصل کرسکیں۔
ایک ریٹائرڈ ملازم کی حیثیت سے ہمارا بھی یہی ماننا ہے کہ 2004 سے لاگو کی گئ پینشن سکیم سرکاری ملازمین کے لئے نقصان دہ ہے جبکہ پرانی پینشن سکیم ہی ان کے لئے فائدہ مند اور قابل انحصار ہے۔ ایک عام شہری اپنی زندگی کے قریبا" بیس پچیس سال حصول تعلیم میں صرف کرکے انتہائی مشکل ریکریوٹمنٹ پراسس سے گزر کر کسی سرکاری عہدہ پر تعینات ہوتا ہے۔اس کے بعد عہدہ کی مناسبت سے اپنی زندگی کے بہترین حصہ کو عوامی خدمت میں صرف کرتا ہے۔ عمر کی ایک خاص حد کو پہنچ کر قاعدہ کے مطابق اس کو ملازمت سے فارغ کیا جاتا ہے۔ سبکدوش ہونے والے ملازم کے لئے یہ عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے جسمیں اس کی جسمانی اور ذہنی توانائی کمزور ہوچکی ہوتی ہے۔اور اب اسکی زندگی کا آخری پڑاؤ شروع ہوتا ہےاوراس کے لئے سرکاری کام کاج کو بہ احسن و خوبی نبھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لئے نوکری سے سبکدوش کیا جاتا ہے تاکہ دوسرے تازہ دم شخص کو اس کی جگہ اس کام کے لئے مامور کیا جاسکے۔ سبکدوش شدہ ملازم کی کئی گھریلو اور سماجی ذمہ داریاں ہنوز باقی پڑی ہوئی ہوتی ہیں، جنہیں پورا کرنے کے لئے اس کو وسائل کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ موجودہ زمانہ میں دیر سے شادی کر پانا اور پھر اس کے نتیجہ میں ڈھلتی عمر میں بچوں کا پیدا ہونا، ان کے پالن پوسن اور تعلیم وتربیت کے اخراجات ، ان کےلئے روزگار کے مواقع ڈھونڈنا اور پھر شادی کے اخراجات پورا کرنا، یہ سب معاملات ملازم کی سبکدوشی تک کھینچے چلے آتے ہیں۔ ملازم ابھی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے تکلیف دہ عمل کو سہہ ہی رہا ہوتا ہے کہ اہل و عیال سے جڑے کئی مسائل اُس کے سامنے آ کھڑا ہوتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ سے حاصل شدہ رقم ان مسائل کو نمٹانے میں اکثر ناکافی ثابت ہوتی ہے۔ بسا اوقات قرض لے کر اُسے اہم گھریلو اور سماجی مسائل کا نمٹارہ کرنے میں مصروف عمل رہنا پڑتا ہے۔ سبکدوشی کے بعداگلے پانچ سات سال اور بسا اوقات دس بارہ سال اِسی حال میں گزر جاتےہیں اور پھر بستر علالت کو اپنے سامنے منتظر پاتا ہے۔ بچے اگر قسمت سے کچھ کماتے بھی ہوں ،وہ بھی آجکل کے اس گراں بازاری میں بمشکل اپنے ہی اہل و عیال کے پالن پوسن کے اخراجات پورا کر پاتے ہیں۔ اوپر سے بوڑھے ماں باپ کے اخراجات خصوصاًعلاج معالجہ کا خرچہ بھی اٹھانا پڑ تا ہے۔ گھر کا حال دیکھ کر اور اپنی کسمپرسی بھانپ کر گھر کے یہ بزرگ لوگ اکثر اوقات اپنی عمر کے اس آخری پڑاؤ میں اعصابی کشمکش کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس نازک وقت پر ریٹائرڈ سرکاری ملازم کے لئے یہی پینشن کا پیسہ اولاد سے زیادہ مددگار ثابت ہوتا ہے۔ کم از کم اپنا اور اپنی بوڑھی ناتواں شریک حیات کا بوجھ کسی اور سے نہیں بلکہ خود اپنے طور اٹھانے کے قابل ہوتا ہے۔ افراد خانہ بھی روپیہ پیسہ پاس دیکھ کر سامنے آتے ہیں حتیٰ کہ باہر کے لوگوں سے بھی معاوضہ دے کر بوقت ضرورت مدد لی جاسکتی ہے۔ ان سبھی مشکل حالات میں پینشن ہی ایک ایسی آمدنی ہے، جو بڑھاپے کا سہارا بنتی ہےاور کسی کے سامنے دست پھیلانے سے بھی بچاتا ہے۔ انگریزوں نے اس برصغیر پر سینکڑوں سال تک حکومت کی۔ اچھے برے دونوں طرح کے نقوش اپنے پیچھے چھوڑ کر واپس چلے گئے۔اچھائی میں سب سے اچھی روایت ملازموں کی یہی پینشن سکیم ہے ،جس سے ہمیں دے کر وہ دوراندیش لوگ اپنا وطن لوٹ گئے۔ نئی پینشن سکیم 2004ء اور اس کے بعد بھرتی ہونے والے سرکاری ملازموں پر لاگو ہوتی ہے۔ ان ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے وقت ماہوار پینشں کے بجائے ایک خاصی رقم یک مشت ادا کی جا تی ہے۔ سروس کے دوران ملازم کے ماہانہ تنخواہ کا کچھ حصہ(شاید %10) ملازم کے سیونگ اکاونٹ یا کنٹربیوٹری اکاونٹ میں رکھ کر محکمہ کی جانب سے بھی ماہوار اتنا ہی رقم جمع کراکے ملازم کو سبکدوش ہوتے وقت ادا کیا جاتا ہے۔ بلا شک یہ ایک خاصی موٹی رقم ہوسکتی ہے، جس سے یہ ریٹائرڈ ملازم کاروبار یا اور کسی اور ضروری مصرف میں لا سکتا ہے۔لیکن زمینی سطح پر یہ رقم ایک دو کاموں میں ہی صرف کیا جاتا ہے۔ ایک بچوں کی شادی پر ، مکان کے تعمیر پر۔ پیسہ کی خصوصیت ہے کہ پتہ بھی نہیں چلتا کہ کب آیا اور کب چلاگیا؟ ہاں کچھ لوگوں کے لئے یہ موٹی رقم فائدہ مند بھی ثابت ہوتی ہے اور وہ اس سے کوئی بھی کاروبار شروع کرتے ہیں۔لیکن یہ عام طور پر وہی ریٹائرڈ ملازم کرسکتے ہیں جو کاروباری گھر یا خاندان سے تعلق رکھتے ہوں ۔ ایک عام گھر خصوصاً ملازم پیشہ گھر کا فرد بہت مشکل سے ایسا کرسکتا ہے۔ لہٰذا اس کی ساری پونجی ایسے ہی ایک دو کاموں میں خرچ ہوتی ہےاور پھر بقیہ پیراں سالی کے ایام کسمپرسی کے حالات میں گزارتا ہے۔ہاں پرانی پینشن سکیم کے رو سے ایک اچھی رقم بطور گریچوٹیGratuaty اور کچھ اور رقم بطور لیو سیلری leave salary ملتی ہے۔ ا سکے علاوہ ایک اچھی خاصی رقم تا حیات ماہوار ملتی ہے۔ اور یہی ماہوار آمدنی اس کی آخری امید ہوتی ہے جس پر اس کا اپنا حق ہوتا ہے ۔ دیکھا جاتا ہے کہ اپنے اولاد بھی بسا اوقات بوجھ سمجھتے ہیں۔ اللہ ہر ایک کو بڑھاپے کی سختی سے محفوظ رکھے۔ پرانی پینشن سکیم ہی ایک ریٹائرڈ ملازم کے لئے فائدہ مند ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ صاحب اقتدار لوگ ملازمین کی اس جائز مانگ کو تسلیم کر کے پرانی پینشن سکیم کو ہی جاری رکھ کر اپنے لاکھوں ریٹائرڈ ملازموں کو بڑھاپے کی پریشانیوں سے ممکنہ حد تک نجات دلائے۔
( گاندربل،رابطہ۔ 7889324408)