سرینگر//محکمہ تعمیرات عامہ سمیت دیگر کئی محکمے 1000 کروڑروپے سے زائد کی رقم ٹھیکیداروں کو ادا کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں،جبکہ انجینئرئوں کا کہنا ہے کہ سیاسی مداخلت کے نتیجے میں ماضی میں سڑکوں سمیت دیگر تعمیراتی کاموں میں توسیع کی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر میں گزشتہ4برسوں کے دوران تعمیراتی پروجیکٹوں اور سڑکوں کے کام میں تعمیراتی ٹھیکیداروں کے واجبات ایک ہزار کروڑ روپے کو عبور کرچکے ہیں۔سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ واجبات سال 2015-16 اور 2016-17 کے علاوہ 2017-18 اور2018-19 کے درمیان سڑکوں، ڈرینوں اور دیگر تعمیراتی کاموں میں پی ڈی پی اور بھاجپا کی مخلوط سرکار کے سابق وزراء کی زبانی ہدایت پر توسیع کے نتیجے میں کھڑی ہوئیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ان میں بیشتر کاموں کے واجبات سرمائی و گرمائی دارالحکومتوں کے علاوہ دیگر اضلاع کی سڑکوں پر تار کول بچھانے میں توسیع کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وادی میں سال2015سے سڑکوں پر تار کول بچھانے اور دیگر کاموں پر400کرور روپے جبکہ جموں میں 100کروڑ روپے واجبات ہیں۔ان ذرائع نے بتایا کہ نیز محکمہ یو ای ای ڈی،شہری ترقی و مکانات،بجلی، پی ایچ ای اور فلڈ کنٹرول و آ بپاشی کے علاوہ سیاحت اور کھیل کود محکموں کے پروجیکٹوں پر بھی500کروڑ روپے کی رقم واجب الادا ہے۔کچھ ٹھیکیداروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے5لاکھ سے30لاکھ وپے کی بلیں پیش کی،تاہم الزام عائد کیا کہ وہ ان بلوں کی واگزاری کیلئے دفاتر کا طواف کر رہے ہیں۔ سیاسی لیڈر جو کہ اب اقتدار میں نہیں ہے،بھی ان ٹھیکیداروں کی مدد کرنے میں خود کو بے بس محسوس کر رہے ہیں۔ٹھیکیداروں کا کہنا ہے کہ وہ ایگزیکٹوں انجینئروں،سپر انٹنڈنٹ انجینئروں اور حتیٰ کہ چیف انجینئرئوں سے بھی کئی بار ملاقی ہوئے،تاہم ان کا بھی کہنا ہے کہ جب حکومت رقومات واگزار کریں گی تو وہ بھی اُنہیں رقومات واگزار کریں گے۔ اس دوران کچھ انجینئرئوں نے الزام عائد کیا ہے کہ حالیہ میٹنگوں کے دوران اعلیٰ بیروکریٹوں نے انہیں دھمکی بھی دی کہ گزشتہ برسوں کے دوران واجبات کھڑے کرنے کی پاداش میں ان کے خلاف انٹی کورپشن بیورو میں کیس درج کیا جائے گا۔سینٹرل کنٹریکٹرس کارڈی نیشن کمیٹی کے جنرل سیکریٹری فاروق احمد ڈار کا کہنا ہے کہ انہوں نے متعلقہ ایگزیکٹو انجینئروں کی ہدایت پر تعمیراتی کام کیااور اس کیلئے اپنی رقومات کو خرچ کیا،جبکہ ان انجینئروں پر بھی سابق مخلوط سرکار کے دوران کچھ وزراء کا دبائو تھا کہ وہ تعمیراتی کاموں میں توسیع کریں۔ ڈار کا کہنا تھا ان انجینئروں نے بھی اچھی طرح کام کیا،جیسے وہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے دور اقتدار میں کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ انجینئروں اورٹھیکیداروں نے کاغذات پر نہیں بلکہ زمین پر کام کیا اور اس کا عملی ثبوت ابھی بھی موجود ہے،تاہم ابھی تک ٹھیکیداروں کی رقومات کو واگزار نہیں کیا گیا۔ان کا کہنا تھا’’ ہماری بلوں کو واگزار کرنے سے قبل کوئی بھی ایجنسی زمینی سطح پر ان کاموں کی جانچ کریں‘‘۔ڈار نے کہا کہ کئی ٹھیکیداروں نے بنکوں سے قرضے حاصل کئے ہیںاور انہیں اس وقت سود کی ادائیگی بھی کرنی پرتی ہے اور یہ حکومت کی طرف سے ٹیکس ادا کرنے والے ٹھیکیداروں کے ساتھ سنگین نا انصافی ہے۔ بی جے پی کے سنیئر لیڈر اور سابق وزیر نے کہا کہ گزشتہ کئی برسوں سے تعمیراتی کام ٹینڈروں کو طلب کر کے کئے جا رہے ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ سابق مخلوط سرکار کے دوران عوامی مطالبات کے بعد کچھ سڑکوں میںاضافی میگڈم کا کام کیا گیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ پرانے واجبات ہیں اس لئے سرکار کو چاہے کہ وہ ان واجبات کی ادائیگی کریں کیونکہ اس میں ٹھیکیداروں کا کوئی بھی قصور نہیں ہے۔ پی ڈی پی کے ایک وزیر نے بھی نام مخفی رکھنے کی شرط پر کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ اضافی کام کئے گئے بلکہ کانگریس اور نیشنل کانفرنس کی حکومتوں کے دوران بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ سخت عوامی مطالبات کے بعد وزراء اور قانون سازیہ ارکان ہمیشہ ہی متعلقہ انجینئروں کو اضافی کام کرنے کی ہدایت دیتے ہیں۔ان کا کہنا تھا ’’ کبھی لوگ روڑ بند کرکے دھرنا دیتے ہیں،اس وقت کیا ،کیا جائے؟ اس صورتحال میں عوامی نمائندے کو عوامی مطالبات کے بعد اس طرح کی ہدایات دینے کی مجبوری آن پڑتی ہیں اور انجینئرئوں کو بھی عمل پیرا ہونا پڑتا ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ اگر ٹھیکیداروں نے کام کیا ہے تو وہ زمینی سطح پر موجود ہوگا،ہوا میں تحلیل نہیں ہوا ہوگا،اور اگر کچھ بیروکریٹ چاہتے ہیں تو اس کی زمینی سطح پر جانچ کی جانی چاہے،تاہم ٹھیکیداروں کے واجبات سے منکر ہوکر انہیں بلی کا بکرا نہیں بنایا جاسکتا۔محکمہ تعمیرات عامہ کے اعلیٰ انجینئرئوں کا کہنا ہے کہ90فیصد واجبات گزشتہ4برسوں کے ہیں،جبکہ اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ سابق وزراء کی ہدایت پر کاموں میں بعض اوقات توسیع بھی ہوئی،تاہم یہ کام زمینی سطح پر موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ واجبات سیلاب کے بعد پیدا ہوئے،کیونکہ سیلاب میں سڑکیں،ڈرینج اور دیگر کام خراب ہوئے،جس کے نتیجے میں واجبات پیدا ہوئے اور ابھی تک انہیں واگزار نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ محکمہ خزانہ نے بھی اس ضمن میں کئی سوالات کھڑے کئے ہیں جس کا جواب بھی دیا گیا،اور جونہی حکومت رقومات واگزار کریں گی،تو ٹھیکیداروں کو رقومات واگزار کئے جائے گے۔