سبز سونے کو نابود ہونے سے بچائیں سڑکیں بنائیں لیکن درختوں کو تہہ تیغ نہ کریں

عارف شفیع وانی
درختوں کو ماحولیاتی نظام کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔ جموں و کشمیر کو درختوں کی مختلف اقسام سے نوازا گیا ہے۔ تاہم مناسب منصوبہ بندی کی عدم موجودگی میں ترقیاتی منصوبوں بالخصوص سڑکوں کی تعمیر اور توسیع کی راہ ہموار کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی کی جا رہی ہے۔
درختوں کو اگنے اور پروان چڑھنے میں سالہا سال لگتے ہیں۔ ایک درخت کا بھی نقصان کسی قیمت پر پورا نہیں کیا جا سکتا لیکن جموں و کشمیر کا منظر نامہ ایسا ہے کہ جموں و کشمیر میں درختوں کی بے دریغ کٹائی ہو رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور گاڑیوں کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر سڑکوں کی توسیع ضروری ہے لیکن یہ درختوں کی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے۔
یہ چونکا دینے والی بات ہے کہ آر ٹی آئی کے جواب کے مطابق سری نگر رنگ روڈ کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کیلئے سیب، چنار، اخروٹ، شہتوت کے 1.10 لاکھ سے زیادہ درختوں کو کاٹ دیا گیا ہے ۔ ان کٹے ہوئے درختوں کی معاشی قدر سے زیادہ ان کی ماحولیاتی قدر کہیں زیادہ ہے۔939.41 کروڑ روپے کی تخمینہ لاگت والا 42.10 کلومیٹر کا یہ پروجیکٹ پانچ اضلاع کے 52 گاؤں سے گزرتا ہے، جن میں پلوامہ، بڈگام، بارہمولہ، سری نگر اور بانڈی پورہ شامل ہیں، جو کہ درختوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ٹریفک کے بہاؤ کو یقینی بنانے کی دوڑ میں ہم سبز سونے اور قدرتی آکسیجن پلانٹس کو کھو رہے ہیں۔
کوئی بڑی شجرکاری مہم نظر نہیں آرہی ہے۔سبز درختوں کی بے دریغ کٹائی کے مستقبل میں سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ درختوں اور ماحولیات کی توڑ پھوڑ کے کچھ اشارے جموں و کشمیر میں واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ ہم ایک بے ترتیب آب و ہوا کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ سیلاب کے خدشات سے دوچار جموں و کشمیر خشک سالی کا شکار ہو گیا ہے۔ حیرت کی بات نہیں کہ پانی کے وافر وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ہم پینے کے پانی کی قلت سے نبرد آزما ہیں۔ ذمہ دار کون ہے؟ یہ منصوبہ ساز ہیں جن کے پاس نام نہاد ترقی کی قیمت پر ہمارے قدرتی وسائل کی حفاظت کیلئے ویژن کی کمی ہے۔ جموں و کشمیر میں پائیدار ترقی کا شاید ہی کوئی تصورہی نہیں ہے۔
ہمیں سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ دوسری جگہوں پر درخت کیسے بچائے جاتے ہیں۔ درختوں کو ایک جگہ سے اکھاڑ کردوسری جگہ لگاناایک قابل عمل آپشن کے طور پر ابھر رہا ہے جہاں سڑک کی توسیع یا ترقیاتی کام شروع کرنا ناگزیر اور لازمی ہے۔اس سال کے شروع میںمہاراشٹر میں سنت تکارام مہاراج پالکھی مارگ کے ساتھ برگد کے 1025 درختوں کو ایک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ کامیابی کے ساتھ لگایاگیا۔
2022 میں مرکزی وزیر برائے روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز نتن گڈکری نے مہاراشٹر کے سنت تکارام مہاراج پالکھی مارگ کے ساتھ قومی شاہراہ 965G کے بارامتی-انڈا پور سیکشن پر واقع درختوں کی ٹرانسپلانٹیشن یا پیوندکاری کا پرجوش منصوبہ شروع کیا۔ اس منصوبے کا مقصد ماحولیات اور برگد کے درختوں کا تحفظ کرنا تھا جو اپنی بے پناہ ماحولیاتی، ثقافتی اور جمالیاتی اقدار کیلئے مشہور ہیں۔
پیوند کاری کے منصوبے کے دوران ماہرین کی ایک ٹیم نے برگد کے 1,025 درختوں کی کامیابی سے رائٹ آف وے (ROW) کے کنارے پر پیوند کاری کی۔ ان درختوں میں سے 85 فیصد بچ گئے۔ ماہرین ماحولیات کو ان قیمتی درختوں کو بچانے کیلئے ہاتھ ملانا ہونگے۔برہان ممبئی میونسپل کارپوریشن (بی ایم سی) کے مالابار ہل میں ہینگنگ گارڈن کے ارد گرد درختوں کو کاٹنے کے اقدام سے لوگوں کی شدید ناراضگی ہوئی۔ بی ایم سی نے مالابار ہل آبی ذخائر کی تعمیر نو کے لئے 389 درختوں کو کاٹ کر ٹرانسپلانٹ کرنے کی تجویز دی ۔مشہور فلمی اداکار جوہی چاولہ نے بھی درخت کاٹنے کے اقدام کی مزاحمت کی اور حکام پر زور دیا کہ وہ متبادل حل تلاش کریں۔ عوامی احتجاج کے بعد درختوں کی کٹائی روک دی گئی ہے اور حکومت درختوں کی کٹائی کے علاوہ دیگر آپشنز تلاش کر رہی ہے۔ یہ متفکر شہریوں کی طاقت ہے جس نے حکومت کو گھٹنوں پر لایا جبکہ ہم نے درختوں کے قتل پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
دہلی حکومت نے اربن ایکسٹینشن روڈ-II (UER-II) پروجیکٹ، جسے دہلی کا تیسرا رنگ روڈ بھی کہا جاتا ہے، کی تعمیر کے لئے 6,600 درختوں کو کاٹنے اور ٹرانسپلانٹ کرنے کی منظوری دی ہے۔ دہلی حکومت کی ٹرانسپلانٹیشن پالیسی کے مطابق 6600 میں سے 80 فیصد درخت مجوزہ راہداری کے ساتھ لگائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ نیشنل ہائی ویز اتھارٹی آف انڈیا (این ایچ اے آئی) دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) سے پروجیکٹ کے لئے 54.87 ہیکٹر ڈیمڈ فاریسٹ اراضی پر شجرکاری کا کام کرے گی۔
 دہلی حکومت نے سنٹرل پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ (سی پی ڈبلیو ڈی) کو سینٹرل وستا ری ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے تحت مجوزہ ایگزیکٹیو انکلیو کی جگہ سے 173 درختوں کو ٹرانسپلانٹ کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ منظوری اس شرط پر دی گئی کہ سی پی ڈبلیو ڈی قومی راجدھانی کے ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے کیلئے لگائے جانے والے درختوں کی تعداد سے 10 گنا زیادہ شجر کاری کرے گا۔ انکلیو میں وزیراعظم کا دفتر، انڈیا ہاؤس، کیبنٹ سیکریٹریٹ اور نیشنل سیکورٹی کونسل سیکریٹریٹ شامل ہوں گے۔
 کولکتہ میں جوکا-ایسپلانڈے کوریڈور کے زیر زمین کِدر پور-ایسپلانڈے سیکشن کے لئے 700 سے زیادہ مکمل بڑھے ہوئے درختوں کی ٹرانسپلانٹیشن کی جائے گی۔ میٹرو کی تعمیر شروع ہونے سے پہلے ان درختوں کو میدان کے بنجر حصوں میں ٹرانسپلانٹ کرنے کی تجویز ہے۔
 پچھلے مہینے دہرادون میں ماہرین ماحولیات نے ترقیاتی پروجیکٹوں کیلئے درختوں کی کٹائی پر اعتراض اٹھایا، خاص طور پر سہستردھارا روڈ کو چوڑا کر نے کیلئے درختوں کی کٹائی پر۔گو کہ اس سلسلے میں درختوں کی کٹائی اور ٹرانسپلانٹیشن بھی حکومت کی طرف سے منظور کی گئی تھی تاہم مقامی لوگوں کے اعتراض کے بعد علاقے میں درختوں کی کٹائی روک دی گئی اور اب سڑک کی صف بندی میں تبدیلی کی وکالت کی جارہی ہے۔
 مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے حال ہی میں درست کہا کہ ماحولیاتی تحفظ صرف درخت لگانے سے ہی ممکن ہے۔وزیر داخلہ نے کہا’’آج لگایا گیا ایک درخت آنے والی کئی نسلوں کو آکسیجن فراہم کرے گا۔ بڑھتی ہوئی آلودگی سے اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچ رہاہے جس کے نتیجے میں مستقبل میں شمسی شعاعیں براہ راست زمین پر اثر انداز ہوں گی جس کی وجہ سے زمین انسانی زندگی کیلئے محفوظ نہیں رہے گی۔اس طرح کے منظر نامے کو روکنے کا واحد طریقہ زیادہ سے زیادہ درخت لگانا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو کم کرنا ہے‘‘۔
ماحولیاتی طور حساس جموں و کشمیر میں، جہاں تک ممکن ہو موجودہ درختوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں میں جموں و کشمیر کے جنگلات کو ہونے والے بڑے پیمانے پر نقصان کے پیش نظر بڑے پیمانے پر شجرکاری کرنے کا وقت آگیا ہے۔اس کی منفرد ٹوپوگرافی کی وجہ سے ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ جموں و کشمیرمیں قدرتی آفات کا خدشہ برقرار ہے ۔ اس کی تاریخ زلزلوں، سیلابوں، لینڈ سلائیڈنگ او راب بے ترتیب آب و ہوا کی ہے۔ یہ مسئلہ تیزی سے پگھلتے ہوئے گلیشیئروں اور آبی ذخائر کے بگڑ جانے کی وجہ سے مزید بڑھ گیا ہے۔
 مرکزی ماحولیات کی وزارت نے اس سال کے شروع میں اتراکھنڈ میں جوشی مٹھ بحران کے بعد معیاری ضابطہ کار (ایس او پی) وضع کیا تھا جہاں مکان کی بنیادیں ہی دھنس جانے کے نتیجہ میں گھروں میں دراڑیں پڑنے سے ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے تھے۔ جموں و کشمیر حکومت نے یہ بھی کہا کہ وہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے لازمی منصوبوں، خطرے کی تشخیص اور ماحولیاتی حساسیت کے مطالعے پر یہ ایس او پی کو لاگو کرے گی، خاص طور پر بین الاقوامی سرحد یا لائن آف کنٹرول کے 100 کلومیٹر کے اندر ہائی ویز، سڑکوں اور سرنگوں کی تعمیر میں اس کا خیال رکھاجائے گا۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ایس او پیزکو پورے جموں و کشمیر پر لاگو کیا جائے۔
 ہمیں کسی بھی ترقیاتی منصوبے کو شروع کرنے سے پہلے ماحولیات کے اثرات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ درختوں کو کاٹنے کے بجائے، ہمیں سڑکوں کے منصوبوں کی راہ میں آنے والے درختوں کی پیوند کاری یا سڑک کی صف بندی کو تبدیل کرنے کے آپشن تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ متعلقہ فریقین ز بالخصوص ماہرین ماحولیات کا یہ فرض ہے کہ وہ درختوں اور دیگر قدرتی وسائل کو بچانے کیلئے بیدار ہوجائیںورنہ کل ہمارے پاس ہاتھ ملنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہوگا۔
 (مضمون نگار انگریزی روزنامہ ’’گریٹر کشمیر‘‘کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر ہیں۔)
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)