مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی)کی خصوصی عدالت نے سادھوی عصمت دری معاملہ میں ہریانہ سرسا کے ڈیرہ ’’سچا سودا ‘‘کے سربراہ گرمیت رام رھیم سنگھ کو دس برس کی سزا کے ساتھ ۶۵ ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی ۔جج جگدیپ سنگھ نے سوناریا ڈسٹرکٹ جیل کی عارضی عدالت میں تعزیرات ہند کی دفعہ 376,506اور 509کے تحت ڈیرہ سربراہ کو سزاسنائی ۔انہوں نے ڈیرہ سربراہ پر عصمت دری، ڈرانے دھمکانے اور جان سے مارنے کی دھمکی دینے کے لئے مذکورہ دفعات کے تحت 65ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا ۔جج کی طرف سے سزا سنانے کے بعد عصمت دری سے متاثرین کو کسی حد تک انصاف تو ملاالبتہ دیکھنا یہ ہے کہ کیا سزا پوری ہوتی ہے یا نہیں۔ سزا کا اعلان ہوتے ہی گرمیت رام رھیم سنگھ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔جج نے جیل حکام کو اسے قیدی وردی پہنانے اور اس کے علاوہ اس کے کپڑے جیل کے اندر بھی لے جانے کی اجازت نہیں دی ۔انہوں نے جیل ڈیرہ سربراہ کو جیل میں لے جانے سے قبل اس کا طبعی معائنہ کرانے کا بھی حکم دیا۔ جیل میں باضابطہ طور رام رحیم کو قیدی نمبر 1997دیا گیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہریانہ کے پچکولہ میں واقع سی بی آئی عدالت کے خصوصی جج نے 25 اگست کو 25برس پرانے معاملے میں رام رھیم کو سادھوی کی عصمت دری کا قصور وارقرار دیا۔بس پھر کیا تھا رام رھیم کو قصور وار قرار دینے کے بعد اندھی عقیدت رکھنے والوں نے پچکولہ ہریانہ میں میں بھنوال مچا دیا ۔اس دوران اَن دیکھے اور پرکھے ان کے پیروکاروں کے ہتھے جو چیز بھی چڑھی اس کو پلک جھپکتے ہی راکھ کے ڈھیرمیں تبدیل کرکے عقل کے اندھوں نے پچکولہ اور ہریانہ کو آگ و آہن کے حوالے کر دیا ۔بابا رام رھیم کے پیروکاروں کے نشانے پر ہر چیز تھی تاہم خصوصی طور پر انہوں نے الیکٹرانک میڈیا کی گاڑیوں کو اپنا نشانہ بنایا اور میڈیا سے وابستہ افراد پر چن چن کر حملہ کیاتا کہ ان کے بابا کے کالے اور گھنائونے کرتوتوں پر سے پردہ سرک نہ جائے ۔۲۵ ؍اگست کے دن بابا گرمیت سنگھ( عرف رام رحیم ) عدالت کے لئے اپنی سینکڑوں گاڑیوں اور اندھے پرستاروں کی بڑی بڑی گاڑیوں کے بیچ میں ایسے محو سفر تھے کہ ایسا لگ رہا تھا کہ امریکہ کے ڈولانڈ ٹرمپ کا قافلہ چل رہا ہواور قصور وار قرار دینے سے پہلے ہریانہ کے وزیر اعلیٰ جو بابا کے چہیتے بھی ہیں ،نے چپہ چپہ پر وردی پوشوں کو تعینات کر رکھا تھا، کوئی الرٹ نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے بابا کے لاکھوں پیروکاروں کو سڑکوں پر جمع ہو کر نکلنے کا اچھا موقعہ ملا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو چیز بھی سامنے آئی اسے نظر آتش کردیا گیا حتیٰ کہ درجنوں کی تعداد میں لوگ از جان ہو گئے اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ ایک طرف سڑکوں پر نکلے ہوئے احتجاجیوں پر ہریانہ کے فوجی دستے ہورہی تباہی کا نظارہ کررہے تھے اور دوسری طرف انسانی جانیں ضائع ہو رہی تھیں۔متعلقہ حکام اگرچہ بظاہر حرکت میں تھے تاہم اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ دور تماشائی بنے بیٹھے تھے۔
ایک زانی اور غنڈے کو بچانے کے لئے جس ملک میں ہزاروں اور لاکھوں لوگ اپنی جان تک دینے کے لیے تیار ہوں ،اس ملک سے کسی خیرکی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔کیا نقلی بابا گرمیت سنگھ کے ان شرپسند پرستاروں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا…؟ ان کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا تھا؟ اگر کالے قانون ’’افسپا‘‘ کے نام پر جموںوکشمیر میں معصو م بچوں کو دن دھاڑے بے دردی سے وردی پوش قتل کرسکتے ہیں…مہلک ہتھیاروں کے ذریعہ سے نوجوانوں کی آنکھوں کی بینائی چھینی جا سکتی ہے ، اپنا پیدائشی اور مبنی بر حق مانگنے کی پادائش میں کشمیریوں کو جیلوں اور ٹارچر سنٹروں کی نظر کیا جاسکتا ہے، تو بھارت کی دیگر ریاستوں جن میں ہریانہ کا ذکر خاص ہے میں ان غنڈوں اور عقل کے اندھوں کو تباہی اور بربادی کرنے کی کھلی چھوٹ کیوں… ؟کیا اسی کا نام جمہوریت ہے،کہ ایک بدکردار انسان کو حکومتیں تحفظ فراہم کریں ؟جس ملک کے باشندے ایک بدکردار انسان کو اپنابھگوان بنا بیٹھیں اور اس سے اس قدر اپنی عقیدت روا رکھے وہ جو بھی کہے اسے اَن دیکھا اور اَن پرکھا تسلیم کیا جائے وہ قوم من جملہ کبھی مہذب قوم نہیں کہلائی جا سکتی۔
مہذب اور غیر مہذب قوم میں ایک فرق آپ کے سامنے واضح ہے۔ حال ہی میں پاکستان کی عدلیہ کی طرف سے ایک فیصلہ میں وزیر اعظم نواز شریف کونا اہل قرار دے کر وزارت اعظمیٰ کی کرسی سے سبکدوش کیا گیا،حانکہ اگر زمینی صورت حال دیکھی جائے تو میاں نواز شریف کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ووٹر اور سپورٹر اور چاہنے والے ہیں مگر ایک مہذب قوم کی یہ نشانی ہوتی ہے جب بھی کوئی کسی بھی بدعنوانی ،بدکرداری میں ملوث پایا جاتا ہے تو اس کی سزا پر خوشی منائی جاتی ہے نہ کہ ماتم اور غنڈہ گردی ۔ اس کے برخلاف بھارت دیش میں حالیہ واقعہ ہے جہاں زانی اور بد کردار کا سپوٹ اور حق کا ساتھ دینے والوں پر غصہ اتارا جاتا ہے اور رام رھیم جیسے درندوں کو سزا دینے والے جج کو زیڈ پلس سیکورٹی) +(z دینے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ واحسرتا۔۔!!!عدل و انصاف کا درس دینے والوں کو یہ جان لینا چاہے کہ اگر کوئی قوم مہذب اور پر امن ہو سکتی ہے تو وہ مسلمان قوم ہے ۔اگر کسی بھی معاشرے میں عدل و انصا ف قائم کرنا مطلوب ہو تووہ اسلام کی تعلیمات کوہی اپناکر قائم کیا جا سکتا ہے۔مگرفی الوقت بھارت کی گنگا ہی اُلٹی بہہ رہی ہے یہاں پر اسلام کے قوانین (مسلم پرسنل لا) کو ہی جڑسے اُکھاڑ پھینکنے کی مذموم کوششیں ہو ررہی ہے۔ کبھی سہ طلاق کو مسلم خواتین کے ساتھ زیادتی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں تو کہیں گائو رکھشا کے نام پر قتل عام کیا جارہا ہے ، کہیں کشمیر کی آسیہ اور نیلو فر جیسی بہنوں کی عصمت دری ہوتی ہے تو کہیں کشمیر میں ہی کنن پوشپورہ میں مائوں بہنوں کی عزتوں کو تار تار کیا جاتا ہے اور اس کے بعد بھی اپنے آپ کو جمہوری ملک قراردینا سمجھ سے باہر ہے ۔بھارت میں عدل وانصاف کے معیار الگ الگ ہے کشمیر ی خواتین کی عصمتوں کو تار تار کرنے والوں کو انعامات سے نوازا جاتا ہے اور سزا انہی کو ملتی جو انصاف کے طلب گار ہوتے ہیں۔ کسی ملک میں انصاف کے تقاضوں کو کسی ذات رنگ و نسل کے ساتھ محدود کر دیا جائے تو یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ زانیوں اور لٹیروں کو سزائیں دینے پر دنگے اور فساد ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔جہاںعصمتوں سے کھلواڑ کرنے والوں کو ترقیوں سے نوازا جائے وہاں انصاف کی امید رکھنا ہی کار لا حاصل عمل ہے۔اس لئے بھارت کو چاہیے کہ وہ کنن پوشپورہ ،آسیہ نیلو فر جیسی ہزاروں مائوں بہنوں کو انصاف دلا دے اورجو بھی اس درندگی میں ملوث ہیں ان کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے تب جا کر بھارت کے دھرم گرو اپنے آشرموں کو زنا کے اڈے نہیں بناپائیں گے، تب مندروں میں جانے والی سیدھی سادھی خواتین کی حفاظت ممکن ہے۔ وگرنہ دو اور دو چار کی طرح بات واضح ہے کہ نہ جانے ابھی کتنے آسا رام اور گرمیت رام رحیم اور گلزار پیر جیسے جعلی درندہ صفت انسان بھارت دیش میں پیدا ہوتے رہیں گے اور معصوم خواتین کی عصمتوں کو تار تار کرتے رہیں گے ۔
رابطہ نمبر۔9906664012