ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عالمی ضمیر یا تو مردہ ہو گیا ہے یا بیدار نہ ہونے کی قسم کھا کر سو گیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا اسے روہنگیا مسلمانوں، ان کے بچوں، ان کی عورتوں اور ان کے ضعیفوں کی چیخیں اور کراہیں اسے سنائی نہیں دیتیں۔ اگر اس کی آنکھیں کھلی ہوتیں تو کیا ان مسلمانوں پر توڑے جانے والے میانمار کے اکثریتی بودھوں کے لرزہ خیز مظالم کے مناظر نظر نہیں آتے۔ اگر وہ زندہ ہوتا تو کیا برمی فوج کی اذیت رسانی سے وہ تڑپ نہیں اٹھتا۔ نہیں وہ یا تو مر چکا ہے یا پھر اس قدر بے حس ہو چکا ہے کہ انسانیت کے وحشیانہ قتل کا اس پر کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا ہے۔ ہزاروں مسلمانوں بشمول عورتوں، بچوں اور ضعیفوں کے قتل پر شاید کسی کی آنکھ نم نہیں۔ کچھ ملکوں کے سربراہوں نے دبی زبان میں احتجاج کیا ہے اور میانمار کی نوبیل امن انعام یافتہ خاتون آنگ سان سوچی سے اذیت رسانی کا سلسلہ بند کروانے کی اپیل کی ہے۔ لیکن یہ اپیل ایسی ہی ہے جیسے کہ دنیا کی زبان بند کرنے کے لیے خانہ پری کر دی جائے۔ دوسرے ملکوں سے کیا شکوہ؟ خود عالم اسلام کی خاموشی کیا کسی ناقابل معافی جرم سے کم ہے۔ اسلامی قائدین اور سربراہان مملکت کو باہم دست و گریباں ہونے میں تو بڑا مزا آتا ہے۔ لیکن وہ اپنے اسلامی بھائیوں پر اغیار کی جانب سے توڑے جانے والے مظالم پر چپ سادھ لیتے ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کچھ ہمدردی دکھائی ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب نے بھی اظہار ہمدردی کیا ہے۔ اردوان نے جہاں حکومت بنگلہ دیش سے درخواست کی ہے کہ وہ میانمار سے نقل مکانی کرنے والے مسلمانوں کو اپنے یہاں پناہ دے، ان کا ملک ان کے اخراجات کا بار اٹھا لے گا۔ وہیں سعودی عرب اپنے یہاں پناہ گزیں لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کی کفالت کر رہا ہے۔ لیکن کیا اتنا کافی ہے۔ کیا اس سے برمی فوج اور بودھ دہشت گردوں کے مظالم کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔ ذرا تصور کیجیے کہ اگر کسی غیر قوم کے ساتھ کسی ملک میں ایسا انسانیت سوز سلوک ہو رہا ہوتا تو کیا دنیا کے تمام ممالک اسی طرح خاموشی کی چادر اوڑھے پڑے رہتے۔ نہیں ہرگز نہیں۔ وہ اٹھتے اور اس حکومت اور فوج کی کلائی مروڑ دیتے جو اذیت رسانی کی ذمہ دار ہے۔ ذرا سوچئے کہ اگر یہ معاملہ اس کے برعکس ہوتا تو کیا ہوتا۔ یعنی کسی مسلم ملک میں غیر مسلموں کے ساتھ ایسا سلوک ہو رہا ہوتا تو کیا اس وقت بھی ایسے ہی سناٹا چھایا رہتا۔ جی نہیں۔ اب تک پوری دنیا میں قیامت آگئی ہوتی۔ اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہوتی اور انسداد دہشت گردی کے نام پر اس ملک کا تختہ پلٹ دیا گیا ہوتا۔ لیکن میانمار کے مظلوموں کے حق میں ایسا اقدام کیو ںکیا جائے گا۔ وہ تو مسلمان ہیں۔ وہ دنیا میں آئے ہی اس لیے ہیں کہ انھیں جو چاہے تختہ مشق بنائے۔ کوئی اف نہیں کرے گا۔ ذرا سوچئے کہ ایک ملک اپنی ایک بہت بڑی آبادی کو اپنا شہری ہی نہیں مانتا، انھیں ان کے انسانی حقوق دینے کو تیار نہیں۔ وہ اس سے کہتا ہے کہ وہ دستاویزوں کی بنیاد پر یہ ثابت کرے کہ اس کے اجداد 1823 سے پہلے سے ہی وہاں رہ رہے ہیں۔ سو پچاس سال کی دستاویزات تو کوئی دکھا ہی نہیں سکتا دو سو سال قدیم دستاویزات کوئی کیسے دکھائے گا۔
جہاں عالمی اداروں، اسلامی ملکوں اور انصاف کا جھنڈا بلند کرنے والی قوتوں کی خاموشی انتہائی افسوسناک ہے، وہیں ایک ایسی شخصیت کی خاموشی بھی افسوسناک بلکہ مجرمانہ ہے جس کو امن و انسانیت کے لیے قربانیاں دینے کے عوض میں امن کا سب سے بڑا یعنی نوبیل انعام مل چکا ہے۔ میری مراد میانمار کی خاتون آہن آنگ سان سوچی سے ہے۔ مسلمانوں کی اذیت رسانی پر ان کے ہونٹ سل اٹھے ہیں۔ مختلف اطراف سے آوازیں آرہی ہیں کہ محترمہ کچھ تو بولیے، اپنے لب تو کھولیے۔ لیکن ان کے لبوں پر تو قفل چڑھا ہوا ہے۔ ان سے بہتر تو وہ نوبیل امن انعام یافتہ اور کم عمر دوشیزہ ملالہ یوسف زئی ہے جس نے بالکل درست کہا ہے کہ دنیا آپ کی آواز سننے کے لیے ترس رہی ہے۔ آخر آپ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف کب بولیں گی۔ انھوں نے بجا طور پر ان سے ظلم و زیادتی کی مذمت کرنے کی اپیل کی ہے۔ کیا سوچی کو اپنے بدترین دنوں کی یاد نہیں آرہی ہے جب وہاں کی فوجی حکومت ان پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہی تھی۔ کیا اس وقت دنیا کی انسانیت نواز طاقتیں ان کی پشت پر کھڑی نہیں تھیں۔ کیا انھیں عالمی حمایت حاصل نہیں تھی۔ وہ اپنے اوپر توڑے جانے والے مظالم کو یاد کریں اور پھر انصاف سے بولیں کہ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے کیا وہ جائز ہے۔ دنیا ان سے سوال کر رہی ہے کہ کیا محض سیاسی مفاد پرستی کی خاطر وہ اپنے نوبیل انعام کو یوں رسوا کرنے میں حق بجانب ہیں۔ یہ بات دنیا بھی جانتی ہے اور وہ بھی جانتی ہیں کہ ان کا ایک بیان بودھ دہشت گردوں اور فوج کو اپنے قدم پیچھے کھینچنے پر مجبور کر دے گا۔ لیکن ان کے سامنے آئندہ برس ہونے والے انتخابات ہیں۔ وہ مسلمانوں کے حق میں بول کر اپنے ووٹ کھونا نہیں چاہتیں۔ اب تو یہ مطالبہ بھی ہونے لگا ہے کہ اگر وہ اسی طرح خاموش رہتی ہیں تو ان سے ان کا نوبیل امن انعام واپس لے لیا جائے۔ انھوں نے بہت دباؤ کے بعد اپنی خاموشی توڑی بھی ہے تو مسلمانوں کے خلاف بیان دے کر۔ انھوں نے کہا ہے کہ اتنا ہنگامہ غلط اطلاعات کی بنیاد پر ہو رہا ہے۔ واہ رے آنگ سان سوچی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں لوگ غلط اطلاعات پر بھروسہ کرنے لگے ہیں۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہزاروں مسلمان ہلاک کیے جا چکے ہیں۔ سوا لاکھ سے اوپر نے میانمار چھوڑ دیا ہے۔ انھوں نے بڑے پیمانے پر بنگلہ دیش میں پناہ لے رکھی ہے۔ تقریباً دو لاکھ پاکستان میں پناہ گزیں ہیں اور چالیس ہزار ہندوستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ لیکن جہاں بنگلہ دیش ان کو پناہ دینے کو تیار نہیں ہے وہیں ہندوستان میں رہنے والوں پر یہاں سے بے دخل کیے جانے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ہندوستان کی سپریم کورٹ نے حکومت سے اس بارے میں وضاحت طلب کی ہے۔ ہریانہ میں تو عید الاضحیٰ کے موقع پر ان پر حملہ بھی ہو چکا ہے۔ گویا یہاں بھی وہ محفوظ نہیں ہیں۔ بعض ہندوتو وادی طاقتیں یہاں ان کو رکھنے کے خلاف ہیں۔ جموں میں کئی ہزار روہنگیا مسلمان برسوں سے پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اس پر ان طاقتوں کو یہ ڈر ہے کہ وہاں آبادی کا تناسب نہ بگڑ جائے۔ یعنی انسانیت کا قتل ہو رہا ہو تو ہوتا رہے کوئی بات نہیں، آبادی کا تناسب نہیں بگڑنا چاہیے۔ حالانکہ محض چند ہزار لوگوں سے نہ تو آبادی کا تناسب بگڑتا ہے اور نہ ہی سیکورٹی کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ لیکن اندیشہ ہے کہ جلد ہی اس معاملے کو سیکورٹی سے جوڑ دیا جائے گا اور ان بے یار و مددگار مسلمانوں کو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے کر ان کے خلاف ملک گیر تحریک شروع کر دی جائے گی۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ ظلم و زیادتی کی نئی تاریخ اس ملک میں رقم کی جا رہی ہے جس کے باشندے اس انسان کے پیرو کار ہیں جو امن و انسانیت کا علمبردار تھا۔ جس نے تخت و تاج کو ٹھوکر مار کر جنگل کی راہ لی تھی۔ جس کو انسانیت کی خدمت کا نروان ملا تھا۔ یعنی گوتم بدھ کو۔ اسی گوتم بدھ کے پیرو آج اس کے اصولوں کو خود اپنے پیروں تلے روند رہے ہیں۔ انھیں اپنے مذہبی پیشوا کی بے حرمتی اور بے عزتی کرنے میں کوئی عار نہیں ہے۔ انھوں نے دہشت و بربریت کی ایسی داستانیں رقم کرنی شروع کر دی ہیں جن کو دیکھ کر گوتم بدھ کی روح بھی کانپ اٹھی ہوگی۔ گوتم بدھ کو بنیادی طور پر ایک ایسی ہستی مانا جاتا ہے جس نے جسم سے مادیت کا خول اتارنے اور دل کو نفس کی آلائشوں سے پاک کرنے کے لیے طویل ریاضت کی۔ مسرت، دکھ اور خواہش سے بے نیازی اختیار کی۔ آج اسی گوتم بدھ کے پیروکار غلبہ حاصل کرنے کی خواہش اور دوسروں کو اذیتیں دے کر مسرت حاصل کرنے میں مگن ہیں۔ عید پر تمام اسلامی ممالک اور پوری دنیا کے مسلمانوں نے جانوروں کی قربانی دی۔ لیکن طاقت اور تعصب کے نشے میں چور میانمار کی انسان نما مخلوق نے نہتے بچوں، عورتوں، مردوں اور بزرگوں کی قربانی دی۔ انھوں نے ان مسلمانوں کی اس قدر تذلیل کی، انھیںاتنے زخم دیے اور اتنی اذیت سے موت کے گھاٹ اتارا کہ انسانیت تو انسانیت شیطانیت بھی شرمسار ہو گئی ہوگی۔ ان مظالم کے بعد لوگوں کی اکثریت خطرناک سفر کر کے ہمسایہ ممالک میں ہجرت پر مجبور ہوئی ہے۔ مگر وہ بچے جو ظلم کے ہاتھوں محفوظ رہے انہیں سمندر نے نگل لیا۔
کیا میانمار کے بے یار و مددگار، بے بس و لاچار اور مجبور و مقہور مسلمانوں کی اذیت پر عالمی ضمیر بیدار ہوگا؟
اس موقع پر میں ایک دل سوز نظم پر جو کہ میں نے سوشل میڈیا سے مستعار لی ہے، اپنا کالم ختم کر رہا ہوں:
مولا تو کیوں روٹھ گیا ہے؟
ہرسُو رواں ہیں خون کی ندیاں
ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا ہے
بدر کی مانند فوج نہ آئی
مولا تو کیوں روٹھ گیا ہے ؟
کون ہے اپنا اس دنیا میں
کس کو اپنے زخم دکھائیں
کس سے مل کر غم بانٹیں ہم
کس کو اپنا حال سنائیں
کوئی نہ آیا اپنی مدد کو
سڑتے لاشے سب نے دیکھے
عید منائی سب نے مولا
کٹتے بچے سب نے دیکھے
ظلم کی چکی کیوں نہیں تھمتی
کب تک یونہی پستے رہیں گے
مائیں بہنیں پوچھ رہی ہیں
بچے کب تک کٹتے رہیں گے
سوئی ہوئی ہے امت ساری
تو ہی مدد کو آجا مولا
پھول سے بچے تجھ کو پکاریں
ان کی مدد کو آجا مولا
صبر کا دامن چھوٹ گیا ہے
مولاتو کیوں روٹھ گیا ہے ؟