ڈاکٹر غلام قادر لون ،بارہمولہ
پچاس برس پہلے ترلوکی ناتھ رینا صاحب نے ایک کتاب تالیف کی تھی جس کا عنوان ہے: An Anthology of Modern kashmiri verse کتاب میں کشمیری زبان کی سترہ شعراء کی وہ تخلیقات دی گئی ہیں جو 1960-1930 کے دوران سامنے آئی تھیں۔فاضل مرتب اور مترجم نے کشمیری تخلیقات کو رومن خط میں دیا ہے۔مقابل کے صفحے پر اشعار کا انگریزی ترجمہ ہے۔
مرحوم رحمٰن راہی صاحب کی آٹھ تخلیقات شامل کی گئی ہے،فاضل مرتب نے کتاب کے آغاز میں مرحوم راہی صاحب کے فکر و فن پر بات کی ہے ،فاضل مرتب نے رحمان راہی صاحب کی تخلیقات سے پہلے ان کی زندگی کا سرسری خاکہ دیا ہے۔رحمان راہی صاحب مرحوم وازہ پورہ سرینگر میں 1925 میں پیدا ہوئے،بچپن ہی میں یتیم ہو گئے اور ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے میٹرک کا امتحان پاس کیا،پرائیویٹ امیدوار ہی کی حیثیت سے عالم ادیب فاضل منشی فاضل اور ایم اے کے امتحانات پاس کئے۔ترقی پسندی کی تحریک سے متاثر ہوئے اور کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے،پی ڈبلیو ڈی میں کلارک کی حیثیت سے زندگی کا آغاز کیا بعد ازاں ایس پی کالج سرینگر میں لیکچرر تعینات ہوئے۔انہوں نے فراق، امین کامل اور اختر محی الدین کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد ڈالی ،اس کے بعد پراگرسیو رائٹرس ایسوسی ایشن سرینگر کے جوائنٹ سیکریٹری ہوگئے۔1969 میںادبی خدمات کے اعتراف میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا،جس وقت ترلوکی ناتھ رنیا صاحب اپنی کتاب تالیف کر رہے تھے، رحمان راہی صاحب مرحوم کشمیر یونیورسٹی میں فارسی کے استاد ہو گئے تھے۔یہ 1971ء کی بات ہے یعنی یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں ۔
رحمان راہی صاحب مرحوم اس کے بعد پچاس برس زندہ رہے۔کشمیر یونیورسٹی میں کشمیری زبان کا شعبہ کھولا گیا تو پہلے اس میں استاد اور صدر شعبہ ہوگئے،ان کی تخلیقات بھی مارکیٹ میں آئی ،ادبی تقریبات اور مشاعروں میں شریک ہوتے رہے کشمیری زبان و ادب کے فروغ کے لیے وہ ہر وقت کوشاں رہتے تھے۔سرگرم علمی زندگی گزارنے کے ساتھ وہ اپنے فکر و فن سے بھی غافل نہ رہے،انہوں نے خون جگر سے فن کی آبیاری کی ہے۔ان کی تخلیقات ان کی جوانی میں ہی عوام وخواص میں خراج تحسین حاصل کر چکی ہیں،انہوں نے فیض کے انداز میں 1958 ء میں کہا تھا : ؎
دِلک ارمان چِھ اظہارچ کڑان وَتھ
ہیچھاں بَر بُوکہ کول رٔنبہ أری رَفتار
قلم پھُٹرِتھ اگر اونگجن تہِ ہیَن تراش
سُہ أندریم حال باوَن خونہ پھموار
رحمن راہی صاحب مرحوم نے دعویٰ ہی نہیں کیا تھا۔اپریل 1958 عیسوی میں انہوں نے ‘معافی نامہ لکھ کر اس دعوے کی دلیل بھی پیش کی تھی ۔مافی نامہ کشمیر کے ادبی تاریخ میں ایک بے مثال تخلیق ہے۔
رحمن راہی صاحب مرحوم کا مطالعہ وسیع تھا۔وہ فارسی اور انگریزی ادب سے متاثر تھے، اردو ادب سے ان کا گہرا تعلق تھا،اس کے علاوہ انھیں ہندی ادب سے آگاہی تھی مگر وہ اپنی مادری زبان کشمیری سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور آج اسی محبت کا ثمرہ ہے کہ وادی کشمیر کے دروبام ان کے نغموں سے گونج رہے ہیں۔رحمان راہی صاحب کے انتقال کی خبر سن کر کچھ یادیں تازہ ہوگئیں۔ریڈیو سے ان کے نغمے بچپن میں سنتے تھے،کالج میں پڑھائی کے دوران ان کا نام سننے میں آتا تھا مگر ان کی فنی عظمت کے بارے میں مجھے اس وقت معلوم ہوا جب 1994ء میں بلند پایہ دانشور ڈاکٹر ثناء اللہ پرویز صاحب کے ساتھ علی گڑھ میں ان کی رہائش گاہ پر مقیم تھا۔اس وقت میری کتاب ‘مطالعہ تصوف دہلی میں چھپ رہی تھی جس کے لئے مجھے بار بار دہلی جانا پڑتا تھا۔علی گڑھ چونکہ دہلی سے قریب ہے، اسی لیے علی گڑھ میں قیام کرنا پڑا۔
ڈاکٹر پرواز صاحب کا مطالعہ وسیع ہے اور ادبی ذوق رکھتے ہیں۔ انھیں فارسی اور اردو کے ہزاروں اشعار زبانی یاد ہیں ۔ ان کی رہائش گاہ پر ایک بار رحمٰن راہی صاحب مرحوم کا کلام زیر بحث آیا،مجھے اچھی طرح یاد ہے ڈاکٹر پرویز صاحب نے ان کے کلام کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں ان پر کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد میں نے رحمٰن راہی صاحب کے کلام کی طرف توجہ دینی شروع کی ۔
ڈگری کالج سوپور میں 2001 میں ایک alumni ہوئی. پرنسپل صاحب کے علاوہ میرے ایک دوست مشتاق احمد بابا تارزو نے کانفرنس منعقد کرانے میں اہم رول ادا کیا۔ مجھے بھی اس میں مدعو کیا گیا۔ وادی کے تمام سرکردہ اشخاص جن کا کالج سے کوئی تعلق رہا ہے، کانفرنس میں موجود تھے۔ انھیں میں رحمٰن راہی صاحب مرحوم بھی تھے۔ تقریر کے لیے میرا نام لیا گیا تو میں نے کالج میں گزرے چار سالوں کے کچھ واقعات سنائے اور کالج میں لگی کتابوں کی نمائش سے ٹالسٹائی کی ‘وار اینڈ پیس اور میکسم گورکی کی ‘دی مدر خریدنے کا ذکر کیا، حالانکہ ہم اس وقت بارھویں جماعت، جسے اس زمانے میں فسٹ ٹی ڈی سی کہا کرتے تھے، میں پڑھتے تھے۔ اس کے علاوہ میں نے شیخ اکبر کی کتاب ‘ترجمان الاشواق اور اس کے انگریزی ترجمے اور دوسری کتابوں کا تذکرہ کیا ،تقریر بہت پسند کی گئی، میں نے انھیں اسی دن دیکھا تھا۔
اس واقعے کے دو یا تین سال بعد ڈنگی وچہ کے ایک ہال میں جہاں آج عدالت کام کر رہی ہے، میں ایک ادبی تقریب تھی جس میں رحمٰن راہی صاحب مرحوم حکیم منظور صاحب مرحوم اور ڈاکٹر رفیق صاحب بھی موجود تھے،میں بھی اس میں شریک تھا۔ رحمٰن راہی صاحب سٹیج پر تھے، غالباً ان کے ساتھ حکیم منظور صاحب بھی ڈائس پر تھے۔ہمارے ایک دوست کو رحمن راہی صاحب کے کلام پر مقالہ پڑھنا تھا۔ انھوں نے مقالہ پڑھنا شروع کیا تو ہال کا ماحول عجیب تھا۔ مقالے میں راہی صاحب مرحوم کے کلام سے چن چن کر اشعار نکالے گئے تھے۔ اشعار پڑھ کر یہ تاثر دیا جاتا تھا کہ یہ اشعار علم عروض کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ کچھ حضرات ہنس رہے تھے اور رحمن راہی صاحب مرحوم سٹیج پر کرسی پر بیٹھے گردن جھکائے نیچے کی طرف دیکھ رہے تھے۔مقالے سے ان کی شاعری کے بارے میں منفی تاثرات قائم ہو رہے تھے،مقالہ ختم ہونے کے بعد سب سے پہلے میرا نام پکارا گیا۔ میں تقریر کرنے کھڑا ہو گیا تو سب سے پہلے کہا کہ تنقید کرنے کا لب و لہجہ ابھی ہمارے ہاں نہیں پنپا ہے۔
میں نے تقریر میں قرآن حکیم کی آیات پڑھ کر کہا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شاعر نہیں ہیں۔یہ بھی ارشاد ہے کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعری نہیں سکھائی ہے اور نہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان تھی مگر اس کے باوجود بعض احادیث عروض کے معیار پر پوری اترتی ہیں ۔ موزوں ہونے کے باوجود علماء نے انہیں شاعر کہنے سے گریز کیا ہے۔اس لیے ماہرین ہر کلامِ موزوں کو شعر نہیں مانتے۔دوسری بات یہ ہے کہ عروضی خامیاں بڑے بڑے شعراء کے ہاں پائی جاتی ہیں،خامیوں سے کس کا کلام کلی طور پر پاک ہوتا ہے۔سنائی، عطار، رومی، غالب، اقبال کس کے کلام پر تنقید نہیں ہوئی ہے؟اس کے باوجود ان کی عظمت پر فرق نہیں پڑتا۔ان کی فنی عظمت مسلّم ہے۔؎
شعر اگر اعجاز باشدبے بلند و پست نیت
عروض کے متعلق ان دنوں ادبی حلقوں میں بحث ہو رہی تھی کہ پہلے کپڑا بنا ہے یا گز مطلب پہلے شعر کہا گیا ہے یا عروضی اوزان آئے ہیں۔میں نے اس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب کے نزدیک عربی شاعری پیمانہ ہے۔ عربی زبان میں سات طویل نظمیں ہیں جنہیں ‘معلقات کہا جاتا ہے اور جن کی فنی عظمت پر نقادوں کا اتفاق ہے،مگر اس زمانے میں کہی گئی ہیں جب عروض کا علم ہی وجود میں نہیں آیا تھا۔اس کے علاوہ عربوں کی شاعری کا وہ حصہ جو معلقات کے بعد کا ہے اعلیٰ معیار کا تسلیم کیا جاتا ہے،وہ بھی اس زمانے کا کلام ہے جب علم عروض نے آنکھیں بھی نہیں کھولی تھیں۔علم عروض خلیل بن احمد کی ایجاد ہے، جو 100 ہجری/718ء میں پیدا ہوا اور 174 ہجری /790 ء میں انتقال کر گیا. اس کی پیدائش سے پہلے عربوں کی بہترین شاعری وجود میں آچکی تھی۔ پہلے شعر کہا گیا ہے، عروضی اوزان بعد میں وجود میں آئے ہیں۔میں جب تقریر کر رہا تھا تو رحمن راہی صاحب مرحوم گردن اُٹھا کر میری طرف دیکھ رہے تھے۔ان کے چہرے پر بشاشت تھی ،اس کے بعد وہ کھڑے ہوگئے اور ابتدائی کلمات کے بعد کہنے لگے کہ ڈاکٹر لون صاحب نے کالج میں بھی چند سال پہلے بڑی عالمانہ تقریر کی تھی ،اس کے بعد انہوں نے میری تعریف کی ،میرا سر شرم سے جھک گیا۔انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ بڑے بڑے شعراء کے ساتھ نقادوں نے مخالفانہ رویہ اختیار کیا ہے۔کیٹس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں نقادوں نے ہی مار ڈالا۔تقریر ختم ہوئی ،اس کے بعد میں ظہر کی نماز پڑھنے نکلا۔ہال میں گانے وغیرہ کا اہتمام بھی کیا گیا تھا،رحمان راہی صاحب سمجھے کہ میں گانے کی وجہ سے مجلس چھوڑ کر گھر جا رہا ہوں،انہوں نے ایک شخص کو ہمارے پیچھے دوڑایا کہ لون صاحب جا رہے ہیں، انھیں ہماری طرف سے یہ کتابیں دیجئے ۔وہ شخص میرے پاس آیا تو میں نے کہا جتنی دیر گانا چلے گا میں نماز پڑھوں گا،نماز پڑھ کے واپس آیا تو ان کے پاس بیٹھا، انہوں نے اپنی دو کتابیں تحفے میں دیں اور ان پر اپنے ہاتھ سے کشمیری زبان میں عبارت لکھی ،وہ دونوں کتابیں آج بھی میرے پاس موجود ہیں۔تقریر ختم ہونے کے بعد سری نگر سے آئے ایک ادیب نے میرے سامنے کچھ حضرات سے کہا کہ آپ لوگوں نے لون صاحب کو اپنے ساتھ نہیں ملایا تھا حق یہ ہے کہ تقریب شروع ہونے سے ذرا پہلے مجھ سے کہا گیا تھا کہ آج آپ ہماری طرف سے بولیں گے مگر میں نے کہا کہ میں وہی کہوں گا جسے حق سمجھوں گا۔بہرحال تقریب ختم ہوئی اس کے بعد اس بلند پایا شاعر سے میری ملاقات نہیں ہوئی ۔مشہور صاحب، معروف صاحب یا گلزار جعفر صاحب سے ان کے بارے میں بات ہوتی تھی۔
رحمٰن راہی صاحب مرحوم نے کشمیری زبان و ادب کو بہت کچھ دیا ہے۔ایک ایسے دور میں جب بڑے بڑے ادیب بھی مادری زبان میں بات کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔اپنے بچوں کو مادری زبان بولنے پر ڈانٹتے رہتے ہیں،شادی کے دعوت نامے انگریزی میں چھاپتے ہوں،اخباروں میں وفات اور فاتحہ خوانی کی اطلاعات انگریزی میں چھپ رہی ہوں،مادری زبان کے فروغ کی کوشش کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔رحمٰن راہی صاحب مرحوم کے کلام پر گفتگو ہوتی رہے گی مگر مقبولیت اور حسن کلام ایسی دلیلیں ہیں جو بڑے بڑے ناقدیں کو بھی لاجواب کر دیں گے۔ ؎
حسد چہ می بری اے سست نظم بر حافظؔ
قبول خاطر و حسن ِسخن خداد ادست
)رابطہ ۔9797944035)