فاضل گلزار
بسم اللہ کر رہا ہوں آغازِ سخن
ابتداہش محمدﷺ، انتہاہش محمدﷺ
اللہ ربّ العزت کی اس وسیع و عریض کائنات میں تخلیقی و فطری اعتبار سے کوئی نہ کوئی چیز اپنے گرد و نواح کے ماحول کیلئے ایک مرکزی حیثیت رکھتی ہے جہاں پر اُس کے گرد و پیش ملحقین کو اسی مرکزی چیز کی طرف جھکائو اور رجحان کرنا پڑتا ہے۔ اور یہی مرکزیت ہی وہ چیز ہے جس سے کار آمد ہونے والا عمل اپنے متبعین کیلئے باعث ِ ہدایت و روشنی ہوتی ہے۔ یہ مرکزیت نہ ہو تو نظام میں خلع پیدا ہونے کے خطرات یقینی ہوتے ہیں جس سے نظام میں بگاڑ، شر و فساد، من مانی، اصولی ضابطوں سے انحراف،بے راہ روی ، جیسے سینکڑوں غیر تحسین حرکات (actions ( کا صدور ہوتا ہے اور اس مرکزیت سے جڑ جانا، اس سے متمسک ہوجانا، اسی کے تابع رہنا، اسی سے آشنائی رکھنا حفظ ِ امن،اعتدالی (balanced) اصولوں کی پاسداری، نجات و عافیت کی دلیل بن جاتی ہے۔جس طرح یہ فیصلہ باقی مادی اشیائے کائنات میں ایک اٹل و مسلّم حقیقت ہے ،ٹھیک اسی طرح بلکہ اس سے اور کئی گناہ زیادہ یہ طریق ِ رفیق دین ِ مبین ـــــ ـ’اسلام‘ میں مسلمہ الثبوت ہے جس سے دور جانا خود اسی دین سے دوری کا باعث بن جاتا ہے۔
دین ِ اسلام اللہ تعالیٰ کا وہ نظام ِ اکمل ہے جو اس نے اپنے برگزیدہ بندوں، پیغمبروں ؑ کے ذریعے باقی مخلوقِ انسانی کے دنیاوی نظم و ضبط، روحانی و جسمانی ارتقاء و نشونما، کیلئے اپنی طرف سے دستورِ الٰہی بناکر بھیجا اور یہی دین ذُریتِ اوّل سے لیکر قیامت تک کیلئے انتخاب فرمایا۔ تمام امتوں کو اپنے اپنے نبی ؑکی وساطت سے اسی دین کی تعلیم حاصل ہوئی یہاں تک کہ اس دین کے آخری نبی برحق حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی آمدِ برحق ہوئی۔ حضور ﷺ نے اس دین کی جامعیت باقی ادیان اور ہر قوم و ملت پر واضح فرمائی۔ اور اس جامعیت کی اتنی تفصیل اپنے قول و فعل سے ارشاد فرمائی کہ حضور ﷺ کے بعد کسی اور نبی کی ضرورت کبھی بھی نوعِ انسانی کو صبحِ قیامت تک نہیں پڑے گی۔ اسی نبی ﷺ کی ذات مرجع ِ دین ہے۔ یعنی دین کا واضح ہونا اور اس کی وضاحت فرمانا حضور ﷺ ہی کی ذاتِ مبارک سے متمسک ہے۔ چونکہ دین ِ اسلام تین جہتوں کو اپنے اندر سمایا ہوا ہے جس کے تعلق پر اسکے متبعین کو تینوں جہتوں کو اپنانے کیلئے اسی نبی لولاک ﷺ سے اپنے تعلق کو استوار کرنا ضروری اور لازمی امر ہے اور اس تعلق سے وہ کسی طرح بے باک نہیں ہوسکتے ہیں۔یہ تین جہتیں اس طرح ہیں: عقائد، عبادات اور معاملات۔
جاننا چاہیے کہ عقائد کے باب میں ایمانیات کی فہرست ہے اور یہ دین کی بنیاد ہے۔ اس میں اول اللہ تعالیٰ کا کامل اور یقینی تصور ہے کہ اللہ کی ذات ہے، تنہا ہے، ہرکسی شریک سے پاک ہے، نہ اس کا ہمسر ہے نہ ہی وہ کسی کا ہمسر ہے۔ اس کی وحدانیت کا اقرار، لا شریکی کا اظہار اس میں اولین عقیدہ ہے۔ اس اولین کی وجہ اس لئے ہے کہ باقی اس کے بعد جو عقائد میں آئیں گے، وہ دراصل اسی عقیدہ کے ماننے سے آئیں گے بلکہ بابِ عبادات میں بھی کسی امر کو ماننا اسی وجہ سے ہوگا۔ اللہ کو ماننے کے بعد ایمانیات میں اُس کے ملائکہ، اُس کے رسول، رسولوں پر نازل ہونے والی کتابیں، قیامت، تقدیر اور بعثت بعد الموت یعنی موت کے بعد کی زندگی ہے۔ اس کے بعد عبادات ہے جو کہ مذکورہ بالا عقائد کی پختگی کیلئے ضروری ہے اور عبادات کو بجا لاکر ایک انسان اپنے خالق کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرے جس سے اسکو حق الیقین کا ادراک ہوسکے اور معرفت ِ خداوند تعالیٰ سے اسکے دل کو اطمنان آئے اور اپنے روحانی ارتقاء کی سعی کرکے مقامِ شہود تک پہنچ جائے اور یہ روحانی کیفیات اس کے جسم پر اس طرح غالب آئیں کہ جسم کے اعضاء خارج میں کوئی حرکت اب امرِ الٰہی کے خلاف نہ کرے۔اسی طرح معاملات جسکا اثر بذات ایک فرد پر، فرد سے لیکر گھر پر، گھر سے لیکر ایک معاشرے پر اور معاشرے سے پوری قوم اور قوم سے لیکردیگر اقوام پر ہوتا ہے۔ اس میں انسانی حقوق چھوٹے سے لیکر بڑے تک ، مرد سے لیکر عورت تک اور خونی رشتے سے لیکر انجان فرد تک ہر ا یک کی حقوق کی پاسداری ہے۔ ان معاملات کی درستگی سے ایک جہانِ امن کی تشکیل ہوتی ہے۔
غرض ان تینوں جہتوں اور ان کے زیرِ اثر باقی شاخیں نبی پاک ﷺ کی پیروی کے حصول ہی میں خالص ممکن ہے۔ کیونکہ ایک نبی ہی ان چیزوں کی پیشوائی کرتا ہے اور ان چیزوں کی وضاحت کرنا اُس کا ہی کام ہوتا ہے۔ ذاتِ مصطفی ﷺ آخری نبی ہونے کی وجہ سے باقی سابقہ انبیاء پر یہ فضیلت بھی لے کر آئی کہ دین کا بڑے سے بڑا حصہ اور چھوٹے سے چھوٹا جُز بھی واضح فرمایا، یہ اس لئے کہ اب اس کے بعد کسی اور نبی کا آنا نہ ہوگا تو ضروری ہے کہ یہی آخری نبی ﷺ اس دین ِ مبین کا حتمی تعرف پیش فرمائے اور اسے ایسے واضح ارشاد فرمائے کہ اور کسی نبی کی حاجت ہی باقی نہ رہ پائے۔ ظاہر ہے کہ اب اس دین کو جاننے، سمجھانے اس پر چلنے کیلئے اس نبی ِ برحق ﷺ کے دامنِ اقدس کو تھامنا بے حد ضروری ہے کیونکہ دین میں اسی کو مرکزیت حاصل ہے۔ پیش کردہ تینوں جہتیں اسی نبی ﷺ کے فرمان پر منحصر ہیں چاہیے توحید ِ باری تعالیٰ ہو ، عبادات ہو یا معاملات۔ قران نے اس مرکزیت کو اس طرح بیان فرمایا:
ـ’جس نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب ادیان پر غالب کرے‘ (الصف: ۹)
تو یہی نبی ہے جس کے پاس ہدایت ہے اور اسی کے پاس سچا دین ہے تو اب دین کے حصول اور صراط المستقیم کا راستہ حاصل کرنے کیلئے اسی نبی و رسولﷺ کے پاس جانا ہے۔ اور اس سے روگردانی کرنا صریح گمراہی اور ذلالت ہے جس کا انجام نارِ آخرت ہی ہے۔ اسی طرح ایک اور مقام پر اسی کی وضاحت اس طرح بیان فرمائی کہ:
’بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناکھلی گمراہی میں پڑے تھیــــ‘۔(آلِ عمران: ۱۶۴)
تو معلوم ہوا کہ حضور سیدِ عالمﷺ ہی دین کی جامعیت کو واضح فرماتے ہیں، احکامِ دین سکھاتے ہیں، اللہ کی آیات لوگوں پر پیش فرماتے ہیں اور لوگوں کو ظاہر و باطن کی پاکی و طہارت بخشتے ہیں، معلمِ قران ہوکر تعلیمِ کتا ب دیتے ہیں۔ اب جیسے رسول کی بعثت سے پہلے لوگ کھلی گمراہی میں تھے تو یقینابعد میں اور گمراہ ہونگے اگر رجوع الی الرسول نہ کریں گے۔
درجہ ایمان میں جب انسان بڑھ جاتا ہے تو یقینی امر ہے کہ محبت ِ و خشیت ِ الٰہی بھی اور فزوں ہوجاتا ہے اور بندہ سرمست ہوکرمحبت ِ الٰہی کا نعرہ لگا دیتا ہے لیکن خود اللہ ربّ العزت نے اس دعوئے محبت کو مرکزیت ِ مصطفٰی ﷺ سے جوڑ دیا ہے اور ارشاد فرمایا کہ میری محبت اتباعِ مصطفٰیﷺ کا تقاضہ کرتی ہے۔ اگر تم ان کی اتباع میں صادق ہو تو میری محبت میں بھی صادق ہو جیسا کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’فرما دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو ( اور اسی اتباعِ رسول ﷺ کے پیشِ نظر) اللہ خود ہی تم سے محبت کرئے گا‘۔(آل عمران : ۳۱)
اسی طرح اللہ ربّ العزت نے دین کے ضبط و نظم، احکام کے حصول کیلئے مرکزیت ِ مصطفٰیﷺ کو قائم فرمایا اور علی الاعلان یہ ارشاد فرمایا کہ دین کی حیثیت ِ کل ذاتِ مصطفٰی ﷺ پر ہی ہے۔ یہ نبیﷺ جس امر کو دین میں شائع کرے وہی دین ہے اور جس امر کی نفی کرے وہ خارج از دین ہے۔ اس مرکزِ کلیّت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ
’ جو رسولﷺ تمہیں عطا کرے وہ لے لو اور جس چیز سے روکے اس سے رُک جاو‘ ( الحشر : ۷)
اطاعتِ رسول کی مرکزیت قران نے اس طرح واضح فرمائی کہ نبی پاکﷺ کی اطاعت ہی در اصل اللہ کی اطاعت ہے اور اسی کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے۔ یعنیٰ رسول ﷺ کی اطاعت میں ہی اللہ کی اطاعت ہے۔ جو بھی رسول ﷺ کی اطاعت کرے گا اسکے لئے یہ یقینی تقین ہے کہ وہ اللہ کی ہی اطاعت کرتا ہے اور اسکے برخلاف وہ اللہ ہی کی نافرمانی کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا’ جس نے رسول کی اطاعت کئی پس اسی نے اللہ کی اطاعت کئی‘ ( النساء : ۸۰)
احکامِ دین پر چلنا صراطِ مستقیم پر چلنا ہے جس کی دعا بندہ مومن ہر نماز میں بلکہ نماز کی ہر رکعت میں اللہ سے فریاد کرتا رہتا ہے۔ لیکن اس راہِ راست پر چلنے کیلئے بندے کو لازمی ہے کہ وہ دامنِ مصطفی ﷺ اپنے ہاتھوں میں تھامے رکھے کیونکہ نبی کریم ﷺ کی ذاتِ مبارکہ کو وہ مرکزیتِ دوام حاصل ہے کہ وہ براہِ راست اس راہِ راست ( صراطِ مستقیم) پر فائز ہوتا ہے ۔ تو مطلب یہ ہوا کہ دراصل راہِ نبیﷺ ہی راہِ راست ہے جیسے قران نے ارشاد فرمایا ’ اے محبوب! آپ بلاشک صراطِ مستقیم پر فائز ہے‘ (زخرف: ۴۳)
اس جانِ عزیز پر کروڑوں درود و سلام ہو جس کی مرکزیت خود ہماری جانوں میں موجود ہے۔ جانِ مصطفی ﷺ کی قربت ایسی مرکزی حیثیت رکھتی ہے کی ایک مومن کی اپنی جان بعید ہے۔ اس سے پہلے اسکو جانِ مصطفیﷺ ہے۔ چناچہ قران اس کے بارے میں یہ ارشاد فرماتا ہے کہ ’ یہ نبی ﷺ تم کواپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہے‘ (الاحزاب: ۶)
غرض حضور پُرنور ﷺ کی مرکزیت ایسی جامعیت کی حامل ہے کہ کوئی بھی فرد اس سے کنارہ کش ہونے کے باوجود دور نہیں ہوسکتا۔ پس ہم کو چاہیے کہ ہم اپنے نفوس کے بطن سے لیکر ظاہر میں اور نجی زندگی سے لے کر بین الاقوامی سطح تک اسی مرکزیت کے علم کے نیچے رہیں۔ اسی سے ہماری انفرادی زندگی اور اجتماعی زندگی کو کامیابی ملے گی۔ اللہ جل شانہ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں قربت ِ مصطفیﷺ سے آشنائی و شناسائی فرمائے۔ آمین
مصطفٰیﷺ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بو لہبی است
(مضمون نگار کشمیر یونیورسٹی میںپی ایچ ڈی سکالرہیںاور ان سے فون نمبر9086545702
[email protected]پر رابطہ کیاجاسکتا ہے۔)
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)