ناصر منصور
ہنوز صحت بگڑتی جارہی تھی لاتعداد معالجین کو کل جمع پونجی تھمائی مگر صحت جوں کی توںرہی۔
۔ کئی دنوں سے میرا کام کرنے کا دل نہیں کرتا تھا اور سارا جسم درد سے کررارہا تھا۔ نیند کھو گئی اور درد کے مارے راتوں کو کروٹیں بدلتے بدلتے پوپھٹ بھی نمایاں ہوتا بیوی بولی۔۔ کوئی بات نہیں متواتر مشقّت کرنے سے ایسا ہوتا رہتا ہے۔ کھانا کھانے کے فوراً بعد دوائی کی ایک ٹکیا لو اور سو جاو، انشاء اللہ صبح تک ٹھیک ہونگے آپ اچھا جی ٹھیک ہے شوہر نے جواب دیا۔۔۔۔ ۔۔ جی اٹھیے اذان کب کی ہوئی آپ ابھی سوئے ہوئے ہیں ۔ روز روز اچھا نہیں لگتا ۔ خدا کا کچھ تو خوف کرو بیوی
نے صبح ہوتے ہی شوہر کو جھگایا شوہر یوں ہی اٹھے تساہلی اور تھکاوٹ کی انگڑائیاں لے کر دوبارہ بستر پر درازہوئے ۔۔ چند ایام مسلسل درد کی شدت میں اضافہ دیکھ کر بیوی بولی میری مانو کسی ماہر معالج سے علاج ہو تا کہ درد سے نجات ملے ۔ بغل میں رہنے والی ماہرا باجی کو بھی اسی قسم کی بیماری تھی، وہ متصل علاقہ میں پرائیویٹ پریکٹس کرنے والی ڈاکٹر شاہدہ صاحبہ سے اپائنٹمنٹ لے کر تندرست ہوئی تھی ۔۔۔میری مانو آپ بھی مذکورہ ڈاکٹر صاحبہ سے اپائنٹمنٹ لے کر مکمل علاج کروائیں ۔اچھا جی محترمہ آج ہی اپائنٹمنٹ لینے جاوں گا ۔ شوہر در در کی ٹھوکریں کھاکر ایک شفاء خانہ سے دوسرے پر جاجا کر تنگ آچکا تھا۔ بیچارا کرے بھی تو کیا، دستور دنیا کچھ ایسا ہی ہے۔ شوہر کی واپسی پر بیوی بولی۔۔ آگئے واپس، ہاں جی آگیا ۔۔۔۔ کیا بولا ڈاکٹر صاحبہ نے۔ ارے کیا بتاوں آٹھ بجے گھر سے نکلتے ہی ڈاکٹر صاحبہ کے کلینک پر جوں ہی پہنچا وہاں لوگوںکی ایک لمبی قطار لگی ہوئی تھی ۔نو بجنے پر بھی ڈاکٹر صاحبہ کا کچھ اتا پتہ نہیں مل سکاتو سوچا کام پر بھی جانا ہے، ڈاکٹر صاحبہ اگر چند لمحات میں براجمان بھی ہوتی تو بھی میرا نمبر بارہ بجے سے کم لگنے والا نہیں تھا ۔ میں نے مکمل ارادہ کیا کہ نزدیک کے ہسپتال میں ہی جاکر اپنا علاج کروں۔ شکر ہے کہ ابھی کلینک پر فیس برا نہیں تھا ۔کہ میں نے ہسپتال کی جانب رخ کیا۔ رواں دواں تھا کہ ہسپتال سے قریبا آدھا کلو میٹر میں کیا دیکھتا ہوں کی لوگوں کی کثیر تعداد ہسپتال کی اور رواں دواں ہے ساڑے نو بجے ہسپتال میں انٹری ہوئی کہ کیا دیکھتا ہوں کہ رسپشن پر مردوں اور عورتوں کی الگ الگ دو لمبی قطاریںلگی ہوئیں تھیں ۔ لمبی قطاریں دیکھ کر چند لمحہ ٹھہرنے کے بعد اصول قطار کے آخر میں قیام ہوا۔ آخر کار لمبی خطار سمٹتی گئی اور میں رسپشن کےقریب پہنچ گیا۔ساڑھے دس بجے میرے ہاتھ میں نسخہ تھمایا گیا اور میں انسانی چین سے آزاد ہو گیا ۔ نسخہ پر کمرا نمبر بیس اندراج تھا جو ہسپتال کی دوسری منزل پر تھا کمرے کے باہر ۔ ایک لمبا تخطہ تھا جس پر عورتیں بیٹھی تھیں چند لمحے کے رکنے کے بعد میں نے ایک بزرگ عورت سے پوچھا کیا ابھی ڈاکٹر صاحب نہیں آئی ہیں ،بولی نہیں۔ اسی اثنا میں ڈاکٹر کا چپراسی آ بولا ابھی آنے میں آدھا گھنٹہ لگے گا ڈاکٹر صاحبہ کو ۔ فلحال ویٹ کرو ۔ باتوں باتوں میں ایک پیشنٹ نے کہاکہ ڈاکٹر شاہدہ صاحبہ پرائیویٹ پریکٹس بھی کرتی ہیں ۔ یہ سن کر میں حیران ہوا اور معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ وہی ڈاکٹر صاحبہ تھی ہیں کے یہاں میں صبح نو بجے بھیڑ کو دیکھ کر بھاگ آیا تھا ۔ یہ سب دیکھ کر میرے اندر کے ضمیر نے مجھے آواز لگائی چل بھاگ جا ہسپتال کے صحن میں پہنچ کر جیب سے نسخہ نکال کر اس کے سو ٹکڑے کرکے پھینک دئیے وہ ایسے لہرائے جیسے کس خوشی کے موقعہ پر گل برسائی کی جاتی ہے ۔
اومپورہ بڈگام
9906971488