جرمن فلسفی نطشےؔ کہتا ہے کہ ’فوق البشر، ابر مامنش کسی اخلاقی نظام کا ماتحت نہیں ہوتا بلکہ اپنی طاقت کی بقا یا وسعت کے لیے وہ جو بھی کرے وہی اخلاقیات ہے۔‘ اس کا ماننا تھا کہ’’ قوت سے بڑھ کر زندگی کی کوئی اور قدر نہیں اور انسان کے لیے قوت ہی آخری مطمح نظرہونا چاہیے، خدا کے وہم میںنہ پڑئیے‘‘۔ نطشے نے اپنے فلسفے میں جسم کو روح پر فوقیت دی بلکہ روح کی نفی کی،اُس کا یہ تصورِ قوت اِس ظاہری اور مادّی وجود میں سمٹ کررہ گئی اور اسی فکرنے مغرب میں نازی ازم (نسلی برتری) جرمنی میں ہٹلر کے ذریعے اور اٹلی میں میں مسولینی کے ذریعے پھیلا مگر دوسری جنگ عظیم نے پورے یورپ کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو ہلا دیا۔ ’گریٹ برٹین‘ سکڑ کر یورپ میں رہ گیا اورامریکہ اور روس جو دوسری جنگ عظیم میںپوری تباہی سے بچ گئے۔
دنیا میں دوہی طاقتیں ہیں جنھیں ہم دائیں بازو اوربائیں بازو کے نام سے جانتے ہیں۔ امریکہ اور اس کے ہم نواز ممالک کو دائیں بازو اوراس کے مخالف ملکوں کو بائیں بازوکے طور پر جانا جاتاہے، جس میں روس کا نام سب سے اہم ہے۔ روس نے جرمنی کے سا ئنس دانوں کو اپنے یہاں پناہ دے کر ایٹمی انرجی اور سلاح حرب وضرب کے دیگرشعبے میںاتنی ترقی کر لی کہ وہ بھی امریکہ کے مد مقابل آگیا۔ایک موقع ایسابھی آیاتھاجب دونوں طاقتوں کے ایٹمی میزائل ایک دوسرے کے خلاف ہوگئے۔ اسی زمانے میں عربوں کے تیل اور آٹوموبائل انجینئرنگ سیکٹراورسلاح حرب وضرب کی فیکٹریاں بھی لگ گئیںتھیں،مگر1990میں افغانوں کے ہاتھ روس کی شکست نے اس کو کئی ٹکڑوںمیں تقسیم کردیا اور دنیا میں صرف ایک ہی مضبوط طاقت رہ گئی، وہ تھا امریکہ ۔حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اکیلا نہیں ہے، اس کے ساتھ سارے مغربی ممالک ہیں۔ امریکہ نے بائیں بازو کی طاقت کو روکنے کے لیے ویتنام کی جنگ بھی چھیڑ دی تھی اوراسی دوران اس نے مشرقی یورپ کے ان ممالک پر قبضہ کر لیا جو کبھی یوروپی ملکوں کے قبضے میں تھے۔ اس کے بعدامریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ چلی، جس کے بارے میں آپ نے بہت کچھ پڑھااورسناہوگا۔
1990میں امریکہ نے ’نیوورلڈ آرڈر‘ نام سے اپنا ایک ایجنڈاشروع کیا، جس کامقصد پوری دنیا کو طاقت کے زور پر اپنے پالے میں کرناتھا۔اس ایجنڈے کے تحت پہلا کام یہ ہوا کہ 2000میں 21ویں صدی کی شروعات ہوجانے کے بعد بھی اس کااعلان نہیں کیاگیا بلکہ مغرب اوراس کی ہمنواجماعتوں نے ایک خفیہ ایجنڈے کے تحت اس کا اعلان2001میں اس وقت کیاجب افغانستان میں حملہ کردیاگیا۔ اس سے پوری دنیا کو یہ پیغام دیاگیاکہ اس صدی کی شروعات 2001سے ہوگی اور اس صدی میں پوری دنیا اسلام کے مدمقابل کھڑی رہے گی۔
مغربی طاقتیں اپنی داداگیری کے دم پرپوری دنیا پرحکومت کرتی ہیں مگراسلامی ممالک بطورخاص اس کے نشانے پر ہوتے ہیں۔اسلامی ممالک میں رونماہونے والے واقعات اس بات کے ثبوت ہیں کہ وہ وہاں پراپنی طاقت کے بل پر حکمرانی کرنا چاہتے ہیں، آئیے کچھ واقعات پرہم سرسری نظر ڈالتے چلیں۔اسلامی ممالک میں سے سب سے پہلے ’الجزائر‘ میں انتخابات ہوئے اور وہاں ایک اسلامی حکومت قائم ہوئی مگر یہ بات انھیں کیونکر پسندآتی۔ وہ نہیںچاہتے کہ اسلامی ممالک کسی طرح ترقی کریں اور ان میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوں کیوں کہ انھیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں افرادی قوت کے ساتھ ساتھ دماغ اور دل دونوں سے نواز رکھاہے اور اس پرمستزاد یہ کہ خدا نے ان کی زمینوں کو پوشیدہ خزانوں جیسے سونا،چاندی اورتیل جیسی اشیاسے مالامال بھی کررکھاہے، اس لیے یہ طاقتیںہمیشہ اسی فراق میں رہتی ہیں کہ انھیں کسی بھی طرح آپس میں لڑاتی رہیں اورانھیںمتحدنہ ہونے دیں۔ لہٰذا الجزائز کی منتخب سرکار کو فرانس نے بزورطاقت ختم کردیا ۔
افغان جنگ کے دوران جب پاکستان نے ایٹم بم بنالیا توامریکہ نے اس پرکافی دباؤ بنایا کہ وہ اس سے رول بیک کرے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب بے نظیر نے اس کے لیے حامی بھی بھرلی تھی مگر وقت کو یہ منظورنہ تھا اس لیے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ یہ واقعات اس طرف واضح اشارہ کرتے ہیں کہ امریکہ اور اس کے حامیوںکی منشاکیاہے۔ وہ چاہتے کیاہیں۔
2003میںامریکہ نے صدام حسین پرکیمیائی ہتھیاررکھنے کے الزام میں عراق پرحملہ کردیا۔ یہاں بھی مقصدوہی تھا کہ اپنی طاقت کے زورپر اُسے سرنگوں کیاجائے۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس گھناؤنی حرکت میں مشرق وسطی کے ممالک نے بھی امریکہ کابھرپورساتھ دیا، جس میں ہزاروں جانوں کااتلاف ہوا اورصدام حسین کو عین بقرعید کے موقع پرپھانسی پرچڑھایاگیاتاکہ مسلمانوں کے زخم کو مزیدٹیس پہنچائی جائے اوران کی خوشی کو ماتم میں تبدیل کیا جاسکے۔ اس طرح یہ طاقتیں وہاں بھی اپنی حکمرانی قائم کرنے میں کامیاب رہیں۔
ایران کے ’القدس بریگیڈ‘ کے جرنل قاسم سلیمانی کوبغداد ایئرپورٹ پر میزائل کے ذریعہ شہید کیاجانابھی مغرب کی اسی سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے۔ کہا جاتاہے کہ جنرل قاسم اسلامی ممالک خاص طور پر سعودی عرب کو آپس میں ملاناچاہتے تھے۔ ان کی یہی کوشش تھی کہ اسلامی ممالک میںاتحادہو تاکہ دنیا میں اسلام کے خلاف عالم گیرسازشوں کامل کر مقابلہ کیاجاسکے۔یہی ان کاگناہ تھا، جس کی وجہ سے انھیں ہلاک کرادیاگیا۔ٹھیک اسی طرح جس طرح پاکستان کے جنرل ضیاء الحق کو ایک پلین حادثے کے ذریعہ مارڈالاگیاتھا۔
مغربی طاقتیں پوری دنیا میں اپنے اسی ایجنڈے پرکام کررہی ہیں اور معصوم وبے گناہ لوگوں کی جانیں لے رہی ہیں۔ فلسطین میں پیش آنے والا واقعہ اس کی تازہ مثال ہے۔انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک ادارہ ’بتسلیم‘ کے مطابق ابھی چند دنوںپہلے اسرائیلی فوج نے احتجاج کرنے والے فلسطینی مظاہرین کی آنکھوں کو نشانہ بناتے ہوئے 19فلسطینیوں کو آنکھوں سے محروم کردیا۔اسرائیل کی اس غیرانسانی اورمذموم حرکت پر اسے تنبیہ کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔1998میںفلسطین کی ’وفاادریس‘ نام کی ایک سوسائڈبمبارنے ان حرکتوں پرچیلنج پیش کیاتھا، جس کی تعریف میں سعودی عرب نے وزیر صحت نے ایک نظم کہی تھی، بعد میںانھیں اس کے پاداش میں استعفے بھی دیناپڑاتھا۔
امریکہ اوراس کے ہم نواؤںکو وہی ممالک پسندہیں جواس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ،جوایساکرنے سے انکارکرتے ہیں، ان پریہ لوگ کاررائی کرتے ہیں۔ ان کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ بائیں بازو کی طاقت کو کسی بھی طرح پنپنے نہ دیاجائے، البتہ دائیں بازو کی طاقتوں کی وہ کھل کر حمایت دیتے ہیں اورانھیں بھرپور مدد فراہم کرتے ہیں۔اسی وجہ سے آج حالت یہ ہے کہ دائیں بازو کی طاقتیں کھلے عام فساد برپاکررہی ہیں اور معصوم لوگوں کی جانیں لے رہی ہیں مگر ’امن پسند‘امریکہ اور اس کے ہم نواآنکھ بندکیے تماشائی بنے ہیں، البتہ بائیں بازو کی غلطیوں پر ان کی برابرنظرہے۔ یہ دوغلی پالیسی آخر کب تک چلے گی، کیا امن کے نام پرپوری دنیا میں دہشت گردی پھیلانے والے لوگ بھول گئے ہیں کہ دہشت گردی کی آنچ اُن تک بھی پہنچ سکتی ہے؟کیاانھیں یہ نہیںمعلوم کہ جیت ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے۔جھوٹ جیت کربھی ہارجاتاہے اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں دیتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدر’مرکزعالمی اردومجلس‘بٹلہ ہاؤس،جامعہ نگر،نئی دہلی25-
9971730422