میری ہمیشہ سے یہ عادت تھی کہ میں سبھی لوگوں سے جلدی گھُل مِل جاتی تھی کیونکہ میں ہمیشہ ہر ایک شخص سے نرم لہجے میں بات کرتی تھی ۔ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا تھا میں نے نئے اسکول میں داخلہ لیاتھا ۔میں پہلے کانوینٹ اسکول میں پڑھتی تھی لیکن مجھے اچانک سے ہی اردو سے اتنا لگائوہو گیا تھا کہ میں اردو سیکھنے اور پڑھنے کے لئے دیوانی ہو گئی تھی ۔جس طرح ایک محبوب کو محبوبہ سے پیار ہوتا ہے اُسی طرح مجھے اردو سے پیار ہو گیا تھا اور اِس کی اصل وجہ تھی کہ میرے پاپا کے پاس تمام رسائل آتے تھے اور میرے والد بہت سے سیمینار بھی attendکر چکے تھے ۔کبھی میں دیکھتی کہ ’شاعر ‘ آیا ہے کبھی ’رنگ ‘ کبھی ’اسباق ‘ اور کبھی کوئی اور رسالہ۔ چونکہ میرے پاپا ’انتساب‘ کے سرپرست بھی ہیں جس کی وجہ سے انہوںنے میری تربیت ہی اِس ڈھنگ سے کی ہے کہ میں بھی ترقی کر سکوں ۔یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنا کانوینٹ اسکول چھوڑ کر اُس اسکول سے ڈی سی لے لی تھی ۔اب میں دوسرے اسکول میں داخلہ لے چکی تھی ۔جہاں سب مجھے سر آنکھوں پر بٹھا کر رکھتے تھے ۔میں ہمیشہ ہر بات کو بہت غور سے دیکھتی ۔کبھی کوئی کچرہ ڈسٹبن میں نہیں پھینکتا تو اسے اُٹھا کر میں ڈسٹبن میں ڈال دیتی کیونکہ یہ میرا فرض ہے اور آخر میں میرے دوست بہت شرمندہ ہوتے ۔آج اسی طرح کا ایک قصہ میرے ساتھ ہوا ۔
لنچ بریک کی بات ہے ۔میں اپنی ایک سہیلی رانی کے ساتھ لنچ کر رہی تھی جو کہ ایک غریب گھرانے سے تھی ۔میرے اسکول میں اُس لڑکی کو بہت نظر انداز کیا جاتا تھا کیونکہ وہ چھوٹے گھر سے تھی اور مجھے یہ بہت برا لگتاتھا ،لیکن میں سوچتی چونکہ میں ایک قلمکار ہوں تو اس بات کو اپنے قلم کی قوت سے ہزاروں لوگوں تک پہنچائوں۔ جیسے ہی میں نے رانی کے لنچ میں سے کھانا کھایا تو مجھ سے میری کلاس فیلو زُبین کہنے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔
’’استوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔تم پاگل تو نہیں ہو ۔تمہیں پتہ ہے جس لڑکی کے ساتھ تم لنچ کر رہی ہو وہ ایک بھنگن ہے ‘‘۔
مجھے پہلے تو کچھ سمجھ نہ آیا ،لیکن پھر میں نے جواب دیا ۔۔۔۔
’’زُبین ،تمہیں پتہ ہے ؟ وہ ضرور ایک چھوٹے گھر کی لڑکی ہے لیکن وہ بھی تو انسان ہی ہے اور ہم سب جیسے دوست ہیں وہ بھی ہماری دوست ہے نا‘‘۔
اس نے کہا ،’’ ہاں ۔۔۔۔۔تم نے صحیح کہا ،لیکن اِن چھوٹے لوگوں کے ساتھ رہنا مجھے پسند نہیں ہے کیونکہ اِن کی سوچ بہت چھوٹی ہوتی ہے ‘‘۔
میں نے غصے میں جواب دیتے ہوئے کہا،’’ تم اب بھی ذات پات کو مانتی ہو ‘‘؟
’’ہاں! کیوں نہیں ‘‘
کیونکہ وہ ایک بڑے گھر سے تھی اور ڈینگیں مارنے میں ماسٹر تھی ۔ہمیشہ بڑی بڑی باتیں کرنا اُس کی فطرت میں شامل تھا ۔آج میری اُس سے بہت بحث ہو گئی اور میں نے کہا ،
’’ تم ابھی بھی اونچ نیچ ،ذات پات ،بھید بھائو کو بڑھا وا دے رہی ہو ۔ آج ہماری دنیا کتنی ترقی کر چکی ہے۔دنیا کب کی چاند پر پائوں رکھ چکی ہے،اور اب مریخ پر قدم رکھنے کی تیاری میں ہے۔ہم کہیں بھی کتنی بھی دوری کا سفر کچھ ہی گھنٹوں میں طے کر سکتے ہیں ،بیرونی ممالک کے لوگوں سے باتیں کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔کیا ہمارے اجداد نے کبھی سوچا تھا ایسا ممکن ہو سکتا ہے ؟؟نہیں ۔۔۔۔۔لیکن ،ایسا ممکن ہوا اور یہ ساری ایجاد ات انسانوں نے ہی کی ہے۔اگر ایسی بات ہے تو تم سائنس کا کیوں استعمال کرتی ہو ۔وہ ایجادات بھی تو الگ الگ ذاتوں کے لوگوں نے ی ہیں ۔میں نے کتابوں میں پڑھا ہے جو لوگ انسانی ہمدردی کے جذبات نہیں رکھتے انہیں انسان کہلانے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔ اگر تم ہی ایسا کروگی تو کسی اور سے کیا امید کی جائیگی ۔۔۔۔۔؟؟
’مہا بھارت ‘ میں گُرو ڈروناچاریہ، جو کہ صرف راج گھرانے کے بچوں کو ہی دھنش ودھیا (تیر اندازی) سکھاتے تھے کے پاس ایک دن بھیل گھرانے کا ایک لڑکا اکلبھیہ آیا اور اُس نے کہا ،’’ گرو جی ! میں آپ سے دھنش ودھیا سیکھنا چاہتا ہوں ‘‘۔
گُرو ڈروڑاچاریہ نے صاف انکار کر دیا کیونکہ وہ چھوٹی ذات کا تھا ،لیکن اس نے ہار نہیں مانی اور گُرو کے مجسمہ بنا کر دھنوش ودھیا سیکھی اور جب آخر میں گُرو جی نے اُس سے پوچھا کہ تم مجھے گُرو دکھشنا میں کیا دوگے ؟۔۔۔۔
اکلبھیہ نے جواب میں کہا ،’’آپ جو بھی مانگیں گرو جی ‘‘۔
اور گرو جی نے اس کا انگوٹھا اُس سے مانگ لیا تاکہ وہ ارجُن سے آگے نہ نکل سکے ۔
زُبین میری زبان سے یہ الفاظ سُن کر لاجواب ہو گئی اور اپنی باتوں پر بڑی شرمندگی محسوس کی اور ساتھ ہی رانی سے معافی مانگتے ہوئے اسے گلے سے لگا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔ دوسرے دن میں نے دیکھا کہ میری و ہی سہیلی رانی کو اپنے گھر کا کھانا ہاتھ سے کھِلا رہی تھی ۔
���
رابطہ؛اگروال جیولرز ،سرونج ،مدھیہ پردیش
موبائل نمبر؛9575089694