رشید پروین ؔ
صرف چند مہینوں کے دوران اپنے وقت اور اپنے ممالک کے دو فرعون اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکے ہیں ،دونوں میں چند خاصیتیں مشترک تھیں اور سب سے بڑی یہ بات کہ دونوں اپنے طاقت سے چور اپنے عوام کی آواز کو نظر انداز کرتے ہوئے ان پر قہر اور عذاب بن کر مسلط رہے ، یہاں تک اللہ کی مقرر کردہ تقدیر کے مطابق اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں اور یقینی طور پر جو باقی ہیں وہ بھی جلد یا بدیر اپنے اسی انجام کو پہنچیں گے کیونکہ یہ لکھی ہوئی خالق کائنات کی تقدیر ہے لیکن یہ لوگ نہیں جانتے اور کبھی غور نہیں کرتے ، آپ کو یاد ہوگا کہ بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ ایک لمبی مدت تک پرائم منسٹر رہنے کے بعد ۵ اگست ۲۰۲۴ کو یعنی چند ہی مہینے پہلے اپنے ملک سے فرار ہوکر بھارت میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی تھیں اور اس کی خطا بھی وہی ایک ہے جو صدیوں سے نمرودوں اور مغرور بادشاہوں کی رہی ہے ، یہاں مجھے حضرت علی ؓ کا یہ مشہور قول یاد آتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’ کفر کے معاشرے چل سکتے ہیں لیکن نا انصافی اور عدل سے خالی معاشرے نہیں چل سکتے۔ ‘‘ بے پناہ طاقت کے نتیجے میںبہت سے آمروں کو مختلف ادوار میںیہ گماں ہوا کہ وہ خدا ہیں، اس لئے ان کی عبادت کی جائے اور اپنے معبود ہونے کے ثبوت میں بہت ساری حماقتیں بھی کر ڈالی ہیں جو آج بھی دنیا کی تاریخوں میں نشانِ عبرت ہیں ، اس بات سے یہ نتائج آسانی سے اخذ ہو جاتے ہیں کہ پرانے اور وقت کے ان نئے معاشروں کے انقلابات کے ماخذ ایک ہیں اور وہ یہ کہ ملک یا سلطنت میں داخلی سیاسی استحکام اہم اور بنیادی ستون ہوتاہے اور اس کے ساتھ ہی حکومت کی عوامی مقبولیت، شفافیت اور عوامی مسائل کو فوری طور پر ایڈریس کرنے اور عدل و انصاف کی بنیادوں پر استوار ہوتی ہے ، جو مختصرسے اس قول میں کوزے میں سمندر کی مانند بند ہے ۔ شیخ حسینہ نے بھی بنگلہ دیش میں اپنے آخری چار برسوں کے دوران ایک ایسے معاشرے کو جنم دیا جہاں عدل و انصاف نہیں تھا ، اسی خطے میں ہم نے سر ی لنکا کا انقلاب بھی دیکھا جہاں ۹جولا ئی ۲۰۲۲ کو عوامی سونامی نے صدارتی محل کو تحس نحس کر کے یہاں پکشی خاندان کا خاتمہ کیا اور وہ بھی بڑی مشکل سے اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوا ، اس انقلاب کے پیچھے بھی وہی عوامل تھے ، کرپشن ،سرکاری خزانوں کی لوٹ مار اور عدل و انصاف سے عاری معاشرہ۔ شام میں بھی اب علوی خاندان کی بادشاہت اور فسطائیت پورے پچاس برس بعد اپنے انجام تک پہنچ چکی ہے ، جلد یا بدیر ازل سے تاریخ گواہ ہے کہ یہی اور ایسا ہی ہوتا رہا ہے ،جب آدمی یہ خاک کا پتلا خدائی دعویٰ کرتا ہے تو کچھ وقت کے لئے ایسے حالات اور ماحول پیدا ہوتا کہ وہ آدمی پوری طرح اس بھرم میں پڑ جاتا ہے کہ واقعی اب وہ ہر طاقت سے بڑی طاقت ہے اور اس سے کبھی اور کسی حالت میں کوئی زوال نہیں ہوگا اور کوئی اس کا احتساب بھی نہیں کر سکتا ،لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا اور نہ کبھی آگے ہوگا ، کیونکہ’’ وقت یا زمانہ ‘‘خود اجتماعی اور انفرادی دونوں سطحوں پر معاشروں کا احتساب کرتا رہتا ہے اور یہی اقوام کی تقدیر ہے۔آپ نے یہ خبر سنی اور پڑھی بھی ہوگی کہ بشارالاسد جو اپنے آپ کو اپنی قوت اور بھرم سے ایسا سمجھ رہا تھا کہ اس سے بھی کبھی کوئی زوال نہیں آئے گا اور وہ کبھی اقتدار سے الگ نہیں ہوگا، اپنے ملک اور اپنے محل سے چوروں کی طرح کسی نامعلوم جگہ کی طرف فرار ہوچکا ہے پہلے تو یہ بھی قیا ٓس آ رائیاںہو ئیںکہ اس طیارے کو تباہ کیا جا چکا ہے جس میں وہ فرار ہورہے تھے ، لیکن اب یہ حقیقت کھل گئی ہے کہ وہ روس میں پناہ لے چکے ہیں ۔ کیونکہ روس اس کا ان مظالم میں پارٹنر رہا ہے اور روس و ایران ہی کی حمایت اور طاقت کے بل بوتے پر وہ پچھلے بارہ تیرہ برس تک ٹکا رہا ۔ ایران سے رضا شاہ پہلوی بھی اس طرح فرار ہوئے تھے اور اس سے بھی دیار وطن میں دفن ہونے کے لئے دو گز زمین کا ٹکڑا نصیب نہیں ہوا تھا ، بس ایک بات کی حیرانگی ہے کہ یہ سارے اپنے وقت کے فرعون کبھی تاریخ کے اسباق سے کچھ حاصل نہیں کرتے ، اور اب پاکستان کے آمر اور اسی مزاج اور کریکٹر کے فوجی ڈکٹیٹر کے انجام کا انتظار ہے جو ان سب سے کسی طرح مختلف نہیں ہوسکتا ۔ بہر حال بشارالاسد کے بارے میں مختصر طور پر یہ ہے کہ وہ حافظ الاسد کے چھوٹے بیٹے تھے اور حافظ ال اسد شام کے ایک مضبوط اور پاور فل حکمران تھے ، علوی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو شام کی کل آبادی کا لگ بھگ ۲۰ فیصد ہیں، بشارالاسدکو یہ اقتدار اپنے باپ کی وراثت سے حاصل ہوا تھا جو ۱۹۷۱ سے ۲۰۰۰،اپنی موت تک ایک طاقت ور صدر کے طور پہچانے جاتے تھے ۔ بشار ۲۰۰۰میں اپنے والد کے بعد بعث پارٹی کے سر براہ اور فوجی کمانڈر اِن چیف مقرر ہوئے۔ ۱۱ سال بعد عرب بہار کے نتیجے میں شامی عوام نے بھی کروٹ لی اور اپنی حکومت سے جمہوریت کا مطالبہ کیا ، لیکن یہاں بھی اس تحریک کا وہی انجام ہوا جو دوسری عرب ریاستوں میں ہوا ، امریکی سر پرستی میں سعودی حکومت کے تعاون سے عرب بہار ایک طرح سے ناکام ہوئی اور اس خطے کے شہنشاہوں نے پھر ایک بار اپنی بادشاہی اور اپنے تاج اپنے سروں پر سجالئے ،بشار نے اس تحریک کو کچلنے کے لئے لاکھوں افراد کا قتل کیا اور اس سے بھی بڑی تعداد میں جیلوں اور زندانوں کی نذر کئے گئے ، ۲۰۱۳ کے بعد سے شام میں مسلسل مسلح تحریک چلتی رہی اوراس دوران کبھی کبھی باغیوں نے بھی کئی بڑے علاقوں پر قبضہ کیا لیکن اس سارے عرصے کے دوران یہ نشیب و فراز جاری رہے۔ بشار نے انتہائی سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ۲۰۱۳ میں ان با غیوں اور شہریوں کے خلاف انتہائی خطرناک کیمکل ویپن کا استعمال کیا جن میں ہزاروں شہری شہید ہوئے ، اس کے خلاف بین الاقوامی طور پر زبردست ردِ عمل بھی سامنے آیا اور اپریل ۲۰۱۷ میں شیخون میں کیمکل ہتھیاروں کے استعمال کے بعد امریکہ نے شامی حکومت کے اہداف پر میزائل حملے کئے ،اسد حکومت کے خلاف یہ امریکہ کی بھی پہلی براہ راست جنگی کاروائی تھی۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی طرح سے اور کسی بھی اینگل سے سوچا جائے تودونوں طاقتوں کا نشانہ شام اور شامی عوام ہی تھے اور مسلم ممالک اور حکمرانوں کی یہ کتنی بڑی بد قسمتی ہے کہ وہ بڑی طاقتوں کو اپنے مفادات کی خاطر حملہ آور ہونے کا موقعہ بھی فراہم کرتی ہیں اور اپنے عوام کا قتل عام بھی کراتی ہیں ۔ ہر دو معاملے میں مسلم عوام کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتا ہے ، لیکن بشار ایران اور روس کی چھتر چھایا میں صدارتی محل میں محفوظ رہا۔ گذشتہ چار برسوں کے دوران نومبر ۲۰۲۴ تک یہ تنازعہ بڑی حد تک منجمد رہا لیکن اچانک باغیوں نے گذشتہ ہفتے ادلب سے پیش قدمی شروع کی اور حیران کن رفتار کے ساتھ شہر پر شہر فتح کرتے ہوئے دمشق جا پہنچے ، مسلح گروپوں کے مطابق انہیں دمشق میں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور نہ کہیں سرکاری افواج ہی نظر آئیں اور محظ کچھ دنوں بعد اس طرح سے وہ صدارتی محل تک جا پہنچے اور بشار کے بڑے بت بھی اسی طرح پاش پاش کئے جس طرح ماضی میں اس جیسے اور آمروں کے بت توڈے جا چکے ہیں۔اردغان نے اپنے اولین ردعمل میں یہ بیان دیا ہے کہ’’ ہم چاہتے ہیں کہ شام کو وہ سلامتی حاصل ہو، جس کے لئے وہ ۱۳ سال سے جدو جہد کرتا آرہا ہے۔شام کو کئی خونین واقعات سے گذرنا پڑا ہے ، ترکیہ کسی زمین کا خواہاں نہیں ، لیکن ہم ہر کسی پر یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم کسی کو ایسی کاروائی کی اجازت نہیں دیں گے جو ہماری سلامتی ا ور قومی مفادات کے خلاف ہو۔‘‘ ترکی کا مسلہ کردوں کے ساتھ ہے،بہر حال مختلف ممالک کا رد عمل سامنے آرہا ہے لیکن ان سب سے زیادہ اہم اس بات کو سمجھنا ہے کہ جب ۲۷ نومبر امریکہ اور فرانس کی ثالثی کے نتیجے میں اسرائیل حزب ا للہ کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ہورہا تھا تو اسی دن شام کی اپوزیشن جماعتوں کے ذریعے ادلب کو فتح کئے جانے کی خبریں آنے لگیں ،ایران اور حزب اللہ چونکہ شامی آمر کے اتحادی اور مدد گار تھے ، لیکن اسرائیل نے حزب اللہ کو کمزور کیا اور ایران بھی اب ایسی بہتر پوزیشن میں نہیں تھا کہ اسد کی مدد کو آپہنچتا اور تیسری بات یہ بھی کہ روس بھی خود یوکرین سے جوجھ رہا ہے اور وہ بھی کسی نئے محاظ کوکھولنے کی پوزیشن میں نہیں تھا ۔ ان سب عوامل کی وجہ سے ’’ھیتہ تحیرا لشام ‘‘ نے موقعہ مناسب اور اپنی کامیابی کے لئے بہتر سمجھا، اور اپنی پیش قدمی شروع کی، لیکن یہ کامیابی کسی بھی طرح سے صرف اس تنظیم کی ہی مرہون منت نہیں ہوسکتی بلکہ باغیوں کا اقتدار سبھالنے میں یقینی طور پر باہری طاقتوں یا طاقت کا عمل دخل ہوسکتا ہے ، خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس میں اسرائیل ،امریکہ،ترکیہ اور بیشتر عرب ممالک کا ہاتھ شامل رہا ہے ۔ ابھی اس مفروضے کے خدو خال واضح نہیں ، لیکن اسرائیل کی گولان پہاڑیوں سے شام میں پیش قدمی کسی نئی خون ریز کہانی کا عنوان بن رہا اور کہا جا رہا ہے کہ اس وقت اسرائیلی افواج دمشق سے صرف بیس کلو میٹر کے فاصلے پر رکی ہوئی ہے ، داعش جس نے کبھی عراق میں خلافت کا اعلان بھی کیا تھا، کے پیچھے بھی کچھ اور ہی عزائم تھے اور یہ بھی امریکن مینوفیکچرڈ تھی ، اس تنظیم، جس نے شام پر قبضہ حاصل کیا ہے ،کے بارے میں بھی ابھی کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی ،اس کے باوجود کہ وہ کئی برس سے مسلسل بشار کے ساتھ تصادم میں رہی ہے ، لیکن اس میں کوئی دو رائیں نہیں کہ بشار انتہائی سفاک اور بے رحم ثابت ہوا تھا اور اس سے چھٹکارا پالینا شام اور شامی عوام کے لئے ایک نئی صبح کے سورج کا طلوع بھی ہوسکتا ہے اور ایک نئی خون آشام سحر کی ابتدا بھی ہوسکتی ہے ۔
[email protected]