عبدالرشید شاہ ۔ درنگ
قدرت نے وادی کشمیر کو سرسبز پہاڑوں گنگناتےجھرنوں دلفریب آبشاروں پُرکشش جھیلوں اورشفاف دریاؤں سے نوازاہے، جس سے یہ گوشہ جنت کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کونے کونے سے شائقین فطرت اس جنت عرضی کو دیکھنے کے لئے آتےہیں۔ بلند وبالا پہاڑ اور حسین جنگلات کشمیر کی خوبصورتی کا سر چشمہ ہیں جو دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں جھکڑتےہیں ۔ یہاں کے پہاڑوں کے دونوں اطراف قدرتی نظاروں سے مالامال ہیں ۔رب کائنات نے ضلع بڈگام کے تحصیل کھا گ کو ایک خوبصورت سرسبز پہاڑی سلسلے سے نوازاہے۔ فطری خوبصورتی کی وجہ کھاگ کوجنت کا باغ بھی کہا جاتا ہے۔ کھاگ کو تحصیل کا درجہ ملنے کے بعد اسکی خوبصورتی کا دائرہ اور بھی وسیع ہوگیاجب یہ کئی خوبصورت مقامات کا تحصیل صدر مقام بنا۔ تحصیل گھاگ کواس لئےبھی اہمیت حاصل ہے کیونکہ کشمیر کاسب سے خوبصورت سیاحتی مقام توشہ میدان اسی تحصیل میں آتاہے۔ اس تحصیل کےسر سبز پہاڑوں کے پیچھے ایک طرف قدرت کی کاری گری اور ہنر کاری کی جو مثال دیکھنے کو ملتی ہےشاید ہی اور کہیں ہو ۔خوبصورت وسیع میدانوں کا لامتناہی سلسلہ سر سبز چراگاہیں برف پوش چوٹیاں دیکھنے والے کو حیران کرتے ہیں ۔وہیں دوسری طرف یہ پہاڑی سلسلہ قدرتی نظاروں سے بھرا پڑا ہے۔ سر سبز جنگل نما پہاڑ کے دامن میں واقع تحصیل کھاگ کے پوشکر گاؤں سے لیکر ایک اور خوبصورت گاؤں ستہارن تک پہلے اس سر سبز پہاڑی سلسلے کے دامن میں اونچے اونچے مقامات پر اولیاء کاملین کی زیارت گاہیں تابان نظر اتی ہیں۔ اگرچہ کشمیر کو جنت نظیر ہونے کا اعزاز حاصل ہے وہیں یہ زیارت گاہیں اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ کشمیر کو ریشیوں، منیوں اورصوفیوں کی سرزمین ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔ موسم سرما میں برف کی چادر لپیٹے ہوئے یہ پہاڑی سلسلہ دلکش منظر پیش کرتا ہے وہیں یہاں کے باشندوں کو وسائل کی کمی کی وجہ سے مشکلات کا بھی سامنا کر نا پڑتا ہے ۔آمدِبہار کے ساتھ ہی ندی نالوں کا شور خوشنما جنگل ،خوبصورت وادیاں اور سر سبز میدان دیکھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ان پہاڑوں کے دامن میں کئی ایسےخوبصورت اور تاریخی مقامات ہیں جن کے ساتھ کئی کہانیاں بھی منسوب ہیں، جو دلچسپی کی حامل ہیں ۔ اسی پہاڑی سلسلے کے دامن میں ایک خوبصورت گاؤں درنگ کی ایک خوبصورت جگہ جس کا نام ررنگ بنگلہ پتھری ہے۔ بنگلہ پتھری درنگ گاؤں کے مغرب میں سرسبز دامن کوہ میں واقع ہے۔ درنگ بنگلہ پتھری سری نگر سے 46 کلومیٹر بطرفہ مغرب ماگام سے 22 کلومیٹر جنوب مغرب جب کہ تحصیل کھاگ سے سات کلومیٹر جنوب اور سطح سمندر سے6125 فٹ کی بلندی پہ واقع ہے۔بنگلہ پتھری پہلے سے ہی ایک سیر و تفریح کا مقام رہی ہے۔ رب کائنات نے اس جگہ کو ایک سر سبز میدان ،بہتے پانی کے دلفریب مناظر، سرسبز دیوداروں اور ارد گرد صاف و شفاف پانی کےچشموں سے نوازاہے۔قدرت نے بنگلہ پتھری کو ایسے نظاروں سے سجایاہے جن کے بدولت یہ جگہ شائقین کے لیے پہلے سے ہی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ چندسرسبز دیوداروں سے یہ جگہ پہلے ہی دلکش رہی ہےوہیں کچھ سال پہلےمحکمہ جنگلات کی وساطت سے بنگلہ پتھری کے ایک وسیع رقبے کو دیوداروں کے پودے لگاےتھے ،جس سےواقعی آج بنگلہ پتھری کی خوبصورتی اور دلکشی میں اضافہ ہواہے۔درنگ بنگلہ پتھری کے مغرب کی طرف جنگل نما پہاڑ سے ایک پانی کا نالہ آتا ہے جس کا پانی تارس پورہ کے مقام پر آکر دو حصوں میں تقسیم ہوتاہے۔ پانی کا بڑا حصہ بنگلہ پتھری کے دائیں طرف اور کم حصہ بائیں طرف علاقے کی کھیتوں کو سیراب کرنے اور تشنہ لبوں کی پیاس بجھانے کے لیے نشیب کی طرف محوسفر ہے ۔بنگلہ پتھری کے ارد گرد سرسبز وادیاں اور ان کے نشیب میں بہتے پانی کا شور ایک وسیع رقبے پر دیوداروں کی دلکشی اور مغرب کی طرف سامنے سر سبز جنگل نما پہاڑ دیکھ کر ایک دم زبان پر سبحان اللہ آتا ہے۔ جہاں بنگلہ پتھری جس خوبصورت پہاڑ کے دامن میں واقع ہےوہیں سیدھے اسی پہاڑ کے پیچھے دست قدرت کا انمول شاہکار توشہ میدان ہے۔ یہ وہ میدان ہے جو کشمیر کا سب سے خوبصورت وسیع و عریض اور قدرت کی کاریگری گری کا ایک نمونہ ہے، یہ میدان بنگلہ پتھری سے پانچ کلومیٹر کی مسافت پر ہے، اگر چھوٹے راستے سے جائیں گے تو اسے بھی کم مسافت پرہے لیکن اس میں چڑھائی زیادہ ہے۔ انفرادیت، خوبصورتی، کشِش سے لبریز تو شہ میدان کو دیکھتے ہی ایک دم زبان پر اللہ کی تعریفیں آتی ہیں۔ بنگلہ پتھری کو اپنی خوبصورتی ہے، یہاں بیٹھ کر جب ارد گرد نظر پڑتی ہے سبزہ ہی سبزہ آنکھوں کی سیرابی کرتا ہے اور جب نشیب میں وادی کشمیر کی طرف نظر کرتے ہیں تو قدرت کی کاریگری کی ایک اور خوبصورت تصویر آنکھوں کے سامنے ہو تی ہے ۔وادی کشمیر ایک گول دائرے کی صورت میں نظر آتی ہے۔سرسبز دھان کی کھیتیں ،سبز مخملی میدان کی طرح نظر آتے ہیں، غروب آفتاب کے وقت یہ نظارہ نکھر کر زیادہ صاف اور نزدیک دکھائی دیتا ہے۔کشمیر کے بدلتے موسموں کی ایک اور خوبصورت تصویر اس وقت نظر آتی ہے جب موسم سرما میں برف کی چادر لپیٹے ہوئے بنگلہ پتھری ہو تی ہے اور سامنے مغرب کی طرف برف پوش پہاڑ ایک دلکش نظارہ پیش کرتا ہے ۔
درنگ بنگلہ پتھری ماضی سے ہی شائقین کے لیے ایک اہم جگہ رہی ہے ۔فطرت کی اس گود میں پلے ہوئے چند افراد جو آج بزرگ ہیں، ان کے ساتھ جب بنگلہ پتھری کے بارے میں بات ہوئی تو وہ اپنی ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے یوں فرماتےہیں۔ درنگ بنگلہ پتھری کے ارد گرد ایک گھناجنگل تھا ،بیچ میں محکمہ جنگلات کی ایک عمارت تھی۔ یہ عمارت صرف لکڑی کی بنی ہوئی تھی۔ یہ عمارت اس وقت کے فن تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ تھی۔ اس عما رت میں اخروٹ اور دیودار کی لکڑی کو استعمال کیا گیا تھا ۔ اس لکڑی پر نقشہ نگاری کی گئی تھی ۔ کھڑکیوں کے شیشے اور سیڑھیاں آج بھی ہمیں یاد ہیں، اس خاموش اور پرسکون جگہ ایسی عمارت تحصیل بیروہ میں اپنے وقت کے فن تعمیرکا ایک اعلیٰ نمونہ تھی عمارت کو بنگلہ کہتے تھے، اسی وجہ سے درنگ پتھری کو بنگلہ پتھری کا نام پڑا ہے۔ بنگلے کے ساتھ ایک الگ رسوئی گھر تھا، اس کے علاوہ لکڑی کا بنایا گیا ایک غسل خانہ تھا غسل خانے کو بھی نقش نگاری کر کے اس طرح سجایا گیا تھا کہ دیکھنے والا حیران ہوتا تھا۔ آمد بہارکے ساتھ ہی یہاں انے کا شوق پیدا ہوتا تھا ۔اکثر یہاں انگریز لوگ آ تے تھے۔بنگلے کو ایک خاص اہمیت اس لیے بھی تھی کیونکہ درنگ بنگلہ پتھری میں سے ایک راستہ جنگل نما پہاڑ سے چڑھ کر توشہ میدان میں سے گزر کر پونچھ سے ملتا ہے۔ 1947 تک اس راستے سے کشمیر اور پونچھ کے درمیان تجارت ہوتا تھا۔ اس راستے سے کشمیر میں آنے والے سرکاری حکمران اور تاجر اکثر بنگلے میں رات کوٹھہر تے تھے کیونکہ پیر پانچال پہاڑی سلسلے سے اُترتے ہی درنگ بنگلہ پتھری پہلے آتی ہے۔گرمیوں کے موسم میں وادی کے دور دراز علاقوں سے شائقین کا آمدو رفت بنگلہ پتھری کی طرف شروع ہوتا تھا ۔جون جولائی کی سخت گرمی کی وجہ سے بنگلہ پتھری میں آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا تھا ۔یہاں کی دلکش صبحیںں اور حسین شامیں جب آج یاد آتی ہیں تو ہم سب کچھ بھول جاتے ہیں ۔ایک بزرگ کا کہنا ہےشایقین کا آنا جانا جاری تھا کہ سال1952 میں یہ خوبصورت بنگلہ آگ کے شعلوں کے نزر ہوا، مگر درنگ پتھری کو بنگلہ پتھری کا نام دے کر گیا۔ کہا جاتاہےبنگلے کے خاکستری کے بعدررنگ بنگلہ پتھری میں لوگوں کے آنے جانے میں کمی واقع ہوئی، یہ کمی تقریباً آٹھ سال تک رہی، اس کے بعد محکمہ جنگلات نے 1960 میں اسی جگہ دوسری عمارت تعمیر کروائی۔ اگرچہ پہلی عمارت دو منزلہ لکڑی کی تھی لیکن اب یہ نئی عمارت ایک منزلہ تعمیر کی گئی اور یہ پہلی عمارت سے مختلف تھی ۔عمارت کی مضبوطی کو مدنظر رکھتے ہوے دیواروں میں اینٹیں استعمال کی گئی اور چھت ٹین کا بنایا گیا، جدید طریقے سے بنائی گئی اس عمارت کو بنگلے کے بجائے ریسٹ ہاوس نام دیاگیا۔
کہا جاتا ہے کہ سال 1960ءمیں ریسٹ ہاؤس تعمیر ہونے کی خبر جب تحصیل بیروہ میں پہنچی تو دور دراز علاقوں سے لوگوں کا رُخ پھر سے بنگلہ پتھری کی طرف مڑ گیا۔ ریسٹ ہاوس کے دیواروں پر سفید رنگ اور لکڑی پر نیلا رنگ استعمال کیا گیا تھا ، واقعی ریسٹ ہاؤس دیکھتے ہی دل کو کھینچتا تھا۔ریسٹ ہاؤس کے پیچھے ایک رسوئی گھر تھا اور دائیں طرف لکڑی کا بنایا گیا ایک غسل خانہ تھا۔ دور دراز علاقوں کے سکول اکثر یہاں ایکسکرشن آتے تھے ان میں سے کئی سکولوں کے اساتذہ اور طلبا بنگلہ پتھری کے راستے سے ہی توش میدان جاتے تھےاور واپس آکر رات کو ریسٹ ہاؤس میںٹھہر تے تھے۔ کئی اساتذہ صاحبان کے ساتھ بات ہوئی ان ہی میں سے ایک محترم استاد ماسٹر مصطفیٰ احمد ملک صاحب نے اپنی ماضی کی یاد کو یوں بیان کیا کہ دور طالب علمی میں سال 1970 تھا، میں اپنے سکول کے ساتھ بنگلہ پتھری ایکسکرشن گیا، رنگ روغن سے سجی عمارت ریسٹ ہاؤس اور اس کے ساتھ مختلف قسم کےپھولوں سے سجی پارک، ارد گرد سر سبز قدآور درختوں کا خوشنما جنگل کی سحر انگیز خوبصورتی یہاں بار بار آنےکی دعوت دیتی تھی ۔ہم نے ریسٹ ہاؤس سے تھو ڑا دور جاکر درختوں کے سایے میں پتھروں کا ایک چولا بنایا اورا س میں لکڑی جلا کر اپنے لئےکھانا تیار کیا۔ اگرچہ چاول اچھی طرح نہیں پکے تھے مگر آج مجھے لگتا ہے کہ وہ ایک نعمت سے کم نہیں تھے ۔ پھر محکمہ تعلیم میں استاد رہتے ہوئے مجھے کئی بارایکسکرشن جانے کا موقع ملا، بہت سی خوبصورت جگہیں دیکھیں لیکن درنگ بنگلہ پتھری کا خاموش اورپُرسکون ماحول اور اس کی سحر انگیز خوبصورتی میرے ذہن پر ایسے نقش کر گئی جسے یہ میرے لئے سب سے یاد گار ایکسکرشن بنا۔(جاری)
(رابطہ۔ 9906660042)