باغی ملکہ نامی ایک فلم کی سال 2010 میں نیویارک کے ایک فلمی میلے میں نمائش ہوئی۔ اس فلم نے عام ناظرین پرتو کوئی خاص تاثر نہیں چھوڑا، لیکن جن لوگوں کو بر صغیر کی سیاست یا تاریخ سے خاص دلچسپی تھی ان کو فلم بہت پسند آئی۔ یہ فلم اس حیرت انگیز نوجوان خاتون کی جہد وجہد کی د استان ہے، جس کو سکھ سلطنت کے پہلے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی رانی اور آخری سکھ مہاراجہ کی ماں ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ اس کانام مہارانی جند کور تھی۔ اس کا شہزادہ یعنی مہاراجہ رنجیت سنگھ کا بیٹا ،پانچ سال کی عمر میں تخت نشین ہو ا مگر تخت وتاج کی اصل طاقت مہارانی جند کور کے پاس تھی۔ اس کے دور میں انگریزوں کے ساتھ معاہدۂ لاہور ہوا، جو آگے کشمیرکی بربادی اور برصغیر میں فتنہ وفساد کی بنیاد بنا۔ معاہد ۂ لاہور پر دستخط ہونے اور بظاہر انگریزوں سے ’’صلح ‘‘کے بعد دلیپ سنگھ اور اس کی ماں پر جو بیتی وہ بھی کسی الم ناک فلم کی کہانی ہی لگتی ہے۔ دلیپ سنگھ کو انگریز سرکار نے زبردستی انگلستان پہنچوادیااور باغی مہارانی کو مختلف قعلوں میں قیدو بند میں رکھا۔ کئی برس بعدیہ بہادر عورت بالآخر انگریزوںکی قید سے فرارہونے میں کسی طرح کامیاب ہو گئی اور خطرناک جنگلات وبیابان میں مسلسل آٹھ سو میل کے سفر کے بعدنیپال پہنچی، جہاں نیپال کے مہاراجہ نے اسے پناہ دی۔مہاراجہ دلیپ سنگھ نے جب معاہد ۂ لاہور پر دستخط کئے تو اس کی عمر آٹھ سال تھی۔ یہ معاہدہ آنے والی کئی نسلوں کے لیے عذاب اور کشمیری عوام کے پاؤں کی زنجیر بن گیا۔ معاہدۂ لاہور کہنے کو ایک ’’امن معاہدہ ‘‘تھاجو پہلی اینگلو سکھ جنگ کے اختتام پر نومارچ 1846کو لاہور میں ہوا۔ اس معاہدے کی تکمیل انگریزسرکار کی طرف سے سر ہنری ہارڈنگ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے دو انگریز افسروں نے کی اور سکھوں کی طرف سے اس میںمہاراجہ دلیپ سنگھ اور سکھ دربار کونسل کے سات سکھ معززین شامل تھے۔یہ ایک بے رحمانہ اورخوف ناک معاہدہ یا یک طرفہ ڈکٹیشن تھا۔ اس معاہدے نے ان حالات اور واقعات کی بنیاد ڈالی جو آگے چل کر برصغیر کی تاریخ کے ایک گھمبیر ترین مسئلے کا موجب بنے، جسے آج ہم مسئلہ کشمیر کہا جاتا ہے۔ اس مسئلے کے نام پر اور اس مسئلے کی وجہ سے بر صغیر پاک و ہند میں نہ صرف کئی دیگر مسائل پیدا ہوئے، بلکہ کئی بار بھارت پاک جنگی میدان بھی سجے۔ اس مسئلے کی وجہ سے اسلحہ و بارود کے انبار لگانے سے لے کرنیوکلئیربم تک بنائے گئے۔ کشمیر ی عوام کو کشمیر کے اندر آگ و خون کے ایک دریا کا سامنا رہا، تشدد اور تخریب کے تھپیڑے سہنا پڑے اور اب بھی حال یہی ہے۔معاہدہ ٔلاہور اور مسئلہ کشمیردر میان ایک بہت ہی گہرا تعلق ہے ۔ اگر معاہدۂ لاہور نہ ہو اہوتا تو ظاہر ہے بیع نامہ ٔامرتسر کا خواب وخیال میں بھی نہ سوچاجا سکتا تھا اور اگر امرتسر میں کشمیر کی خرید وفروخت نہ ہوتی تو نہ تو ریاست جموں کشمیر معرض وجود میں آتی اور نہ ہی مسئلہ کشمیر پیدا ہوتا۔
معاہدہ ٔلاہور کی شق نمبر چار بہت اہم ہے۔ اس شق میںدرج ہے کہ انگریزوں نے اپنی فتح کے بعدجنگی اخراجات کی ادائیگی کے لیے سکھ دربار سے ڈیڑہ کروڑ کی رقم تاوان طلب کی۔ دربار یہ رقم ادا کرنے سے قاصر تھا۔ چنانچہ دربار نے ایک کروڑ کے بدلے کشمیراور اس سے منسلک و ماتحت پہاڑی علاقے ایسٹ انڈیا کمپنی کو دینے کا فیصلہ کیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہ علاقے بعد میں ایک الگ معاہدے( بیع نامہ ٔ امرتسر) کے تحت راجہ گلاب سنگھ آف جموں کو منتقل کرنے تھے۔اس معاہدے کی شق بارہ بھی اہم ہے۔ اس شق میں کہا گیا کہ جموں کے راجہ گلاب سنگھ نے لاہور دربار اور انگریزوں کے درمیان اچھے تعلقات کے قیام کے لیے اَحسن کردار ادا کیا ہے۔ اس احسان اور کرم فرمائی کے بدلے مہاراجہ دلیب سنگھ ان علاقوں پر گلاب سنگھ کی خود مختاری تسلیم کرتا ہے، جن پر پہلے سے اُس کی عمل داری قائم ہے اور اس میں وہ پہاڑی علاقے بھی شامل ہیں، جو انگریز بعد میں ایک الگ معاہدے کے تحت اس کو عطا کریں گے۔جیسا کہ پہلے عرض ہی کیا کہ لاہور دربار نے معاہدۂ لاہور انگریز سرکار سے جنگ ہارنے کے بعد کیاتھا۔ انگریزوں نے تاوانِ جنگ کے طور پر ایک کروڑ پچاس لاکھ مانگا تھاجو لاہور دربار اپنی کمزور مالی حالت کے پیش نظر نہ دے سکتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے یہ طے کیا کہ ایک کروڑ کے بدلے کچھ پہاڑی علاقے انگریزوں کو دئے جائیںاور پھر انگریز ایک الگ معاہدے کے تحت وہ علاقے راجہ گلاب سنگھ کو فروخت کر دیں۔ راجہ گلاب سنگھ نے ان علاقوں کے عوض انگریز سرکار کو75لاکھ نانک شاہی سکے ادا کئے۔ چنانچہ معاہدہ ٔلاہور کی روشنی میں16 مارچ سال1846 کو راجہ گلاب سنگھ اور انگریزوں کے درمیان ایک اور معاہدہ طے پایا، جسے ہم تاریخ میں بیع نامہ امرتسر کے نام سے جانتے ہیں۔ علامہ اقبال کے بقول ؎
دہقان کشت وجوئے بیاباں فروختند
قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند
امرتسر معاہدے کی رُوسے گلاب سنگھ کو جموں کشمیر اور اس کے ماتحت علاقوں کا حکمران یعنی مہاراجہ تسلیم کر لیاگیا۔ پچھتر لاکھ نقد نانک شاہی سکوں کی ادئیگی کے علاوہ گلاب سنگھ نے انگریز سرکار کی بالادستی اور باج گزاری کے طور پر ہر سال اُنہیں ایک گھوڑا ، بارہ اعلیٰ نسل کی بھیڑیں اور تین کشمیری شال پیش کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ یوں پچھتر لاکھ نقد، ہر سال ایک گھوڑے ، بارہ بھیڑوں اور تین شالوں کے عوض ساڑھے چوراسی ہزار مربع میل علاقے کو اس پر بسنے والے بے یارویاور لوگوں سمیت مہاراجہ کے حوالے کر دیا گیا۔ مہاراجہ نے ان علاقوںپر ایک جدید ریاست قائم کی ، جسے ہم ریاست جموں کشمیر کہتے ہیں۔ ڈوگرہ راج کے تحت ایک سو سال تک چلنے کے بعد سال1947میں یہ ریاست تقسیم ہو گئی۔تقسیم کے اس عمل کا ایک اہم ترین کردار مہاراجہ ہری سنگھ تھا ، جو گلاب سنگھ کے ڈوگرہ راج کا آخری وارث تھا۔ مہاراجہ ہری سنگھ اگرچہ ایک پڑھا لکھا اور جدید زہن کامالک شخص تھا، اُس نے کشمیر میں کئی بنیادی اور اہم نوعیت کی اصلاحات بھی کر رکھیں تھیں۔ ان میں کشمیری عوام کے جمہوری حقوق کے لیے ریاستی پر یشد کا قیام، بچیوں کی لازمی تعلیم اور اس طرح کے کچھ دوسرے اچھے اقدامات شامل تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ اُس کے کندھے پر ڈوگرا خاندان کے سو سال راج کا بوجھ بھی تھا۔ ریاست کشمیر کے مستقبل کے سوال پر وہ47 سخت ڈھلمل سوچ کا شکار ہو گیا، جب کہ برصغیر کی پانچ سو ساٹھ کے قریب ریاستیں تقسیم بر صغیر سے پہلے ہی اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر چکی تھیں۔
/14 اگست آگیا مگر پھر بھی مہاراجہ ہر ی سنگھ ریاست کے مستقبل کے باب میں کوئی دو ٹوک اور واشگاف پالیسی مر تب نہ کر سکا۔ اگرچہ اس نے پاکستان اور بھارت سے معاہدۂ قائمہ کرنے کی کوشش کی، پاکستان نے یہ معاہدہ قبول کر لیا۔ بھارت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مہاراجہ بر صغیر میں ریاست جموںکشمیر کی وہی پوزیشن برقرار رکھنا چاہتا تھا جو تقسیم سے پہلے ملک ِ کشمیر کی تھی۔ ایسا کرنے میں وہ شاید کامیاب بھی ہو جاتا اگر وہ بر وقت دو کام کر لیتا۔:ایک تو یہ کہ وہ کشمیری رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالنے کے بجائے ان سے ریاست کے مستقبل کے حوالے سے مکالمہ آرائی کرتا، جس کے لیے بیشتر ہوش مند رہنما تیار تھے۔ ملک میں دو بڑی سیاسی جماعتیں نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس تھی، دونوں جماعتوں کے رہنما مکالمے کے لیے تیار تھے۔ ان سب لوگوں کو ریاست کی سالمیت اور وحدت کے نام پر ایک ایجنڈے پر لایا جا سکتا تھا۔دوسرا مہاراجہ ریاست کو خود اپنے اندر اور باہر سے دوچار خطرات کو وقت پر بھانپ لیتا اور ان سے نمٹنے کی مطلوبہ تیاری کر لیتا مگر بد قسمتی سے وہ اس نازک موڑ پر بر وقت فیصلے نہ کر سکا۔ چنانچہ ریاست میں لڑائی شروع ہوئی اور چارہ ٔ کار ریاست تقسیم ہوئی۔ معاملہ پاکستان اور بھارت سے ہوتا ہوا اقوام متحدہ میں جا پہنچا ، جہاں یہ طویل بحث و مباحثے اور چند قرادادوں کے بعد عملی طور پر اس سوال یا تنازعے کو سلجھانے کی بجائے اسے طاق ِنسیان کی زینت بنادیا گیا۔ آج ستر سال بعدبھی کشمیر کے تینوں حصوں کے لوگ اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے ایک غیر ہموار چوراہے پر مبہوت کھڑے ہیں اور کشمیر علی الخصوص جل رہاہے ۔