گھر میں شادی کی تقریب کی دھوم دھام تھی۔ تین دن بعد جمیل شادی کے بندھن میں بندھنے والا تھا – جمیل کی بے تابی کا عجب عالم تھا۔ وہ روز آئینے کے سامنے اپنے بکھرے بالوں کومختلف اسٹالوں میں سجاتا تھا۔ سمیرا جس کے ساتھ جمیل کی شادی طے ہوچکی تھی بھی آج کل کچھ زیادہ ہی سج دھج کر باہر نکلتی تھی۔ دونوں دلوں میں محبت کی آگ بھڑک رہی تھی اور دونوں بڑی بے تابی سے ان تین دنوں کے گزرنے کا انتظار کر رہے تھے ۔
اپریل میں کشمیر میں شادیوں کا دھوم دھام رہتی ہے۔ اس کے پیچھے وجوہات ہیں۔ ایک تو موسم کی نرم مزاجی اور دوسری یہ کہ مختلف صحت افزا مقامات جنت کی طرح سجتے ہیں۔ اس سے ایک طرف دعوت میں پکے پکوان زیادہ دیر کے لیے اپنی اصل حالت میں رہتے ہیں اور دوسری طرف نئے جوڑے کو مختلف صحت افزا مقامات پر جانے کا موقع ملتا ہے-
یہی دن ہوتے ہیں گھومنے پھرنے کے- بھلا شادی کے کچھ عرصہ بعد یہاں کام کا آغاز ہوجائے گا اور جمیل چونکہ ایک زمیندار گھرانے کا لڑکا ہے اسی لئے اپریل میں ہی شادی کا پروگرام بنا- انتظار کی یہ کشمکش بہت پہلے شروع ہوئی تھی۔
حالانکہ یہ ایک ایریجنڈمیریج تھی مگر منگنی ہوئے بھی اب ایک عرصہ ہوا تھا اور دونوں وصل کے انتظار میں تڑپ رہے تھے کیونکہ دونوں روایات کے پاس دار خانوادوں تعلق رکھتے تھے اور شادی سے پہلے میل ملاپ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں رشتہ طے ہوتے وقت جمیل نے سمیرا کو دیکھا تھا لیکن اس وقت وہ اپنی ماں کے ہمراہ تھا اور ملاقات کی جگہ سمیرا کا گھر طے ہوا تھا۔ تب سے لے کر آج تک دونوں وصل کی اس آرزو کو دل میں سموئے ہوئے ہیں۔
آج جمیل صبح جلدی اُٹھا باہر دیکھا تو بارش کا تلاطم تھا۔ جمیل گھر سے نکل کر ایک گاؤں کی طرف چلا، جہاں اُسکا پرانا دوست رہتا تھا اور وہ بچپن میں اُسے کہا کرتا تھا کہ "جمیل شادی پر مجھے ضرور بلانا" – بس اس کی یہی خواہش پوری کرنے کے لیے جمیل وہاں کی اور چلایا۔
جونہی جمیل گاؤں میں پہنچ گیا ایک دل دہلانے والے دھماکے نے پورے گاؤں کو ہلا کر رکھ دیا۔ جمیل کچھ دیر کےلئے سکتے میں آگیا اور واپسی کی ٹھان لی۔ وہ خوفزدہ قدموں سے تیزی سے واپس جانے لگا کہ اچانک کہیں سے ایک گولی آئی اور اس کے سینے میں لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے گولی باری کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا-چند منٹ پہلے کا ہنس مکھ جمیل خون میں لت پت تڑپ رہا تھا۔
خون میں لت پت جمیل اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہا تھا کہ چند ایک نوجوان نے اسی گولی باری میں جمیل کو اٹھایا اور ڈسٹرکٹ ہسپتال کی طرف لینے لگے مگر خون اتنابہہ گیا تھا کہ جمیل نے راستے میں ہی دم توڑ دیا۔
مہندی جو تین دن بعد لگنے والی تھی آج ہی لگ گئی -خون کی مہندی-
ہجر کی گھڑی ٹلنے سے پہلے ہی ہجر دوام چھا گیا- ادھر جمیل ہمیشہ کے لئے ابدی نیند میں چلا گیا ادھر سمیرا انتظار وصل میں چمک دمک کے ساتھ گھنٹوں اور منٹوں کا حساب کر رہی ہے۔ اس نادان کو کیا پتہ کہ اس کی زندگی کا سایہ ایک پرچھائی کی طرح آسمان میں اُڑ چکا۔
���
میڈیکل آفیسر، توجن پلوامہ،موبائل نمبر؛6005636407