رئیس احمد کمار
قاضی گنڈ کشمیر
گھر کے سبھی افراد خانہ اس بات پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ ان کی بہو شادی کے آٹھ سال بعد سرکاری نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اردو میں اس نے پی ایچ ڈی کرنے کے ساتھ ساتھ نیٹ اور سیٹ کے امتحان بھی کئے ہوئے تھے۔۔ گزشتہ مہینے اسسٹنٹ پروفیسر کی اسامیوں کو پر کرنے کی غرض سے پبلک سروس کمیشن کی طرف سے نوٹیفکیشن جاری ہوا تھا اور باقی امیدواروں کے ساتھ ساتھ اس نے بھی فارم بھرا تھا۔ سکریننگ ٹیسٹ کے بعد انٹرویو بھی ہوا اور چند روز قبل حتمی فہرست بھی سامنے آئی جس میں اس کا نام بھی شامل فہرست تھا۔ فہرست میں نام دیکھ کر اس کے دو ننھے منھے بچے، اس کی ساس اور سسر، ماں باپ، بھائی بہن گویا سب رشتہ داروں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ اس کے دونوں بچے خوشی سے جھوم اٹھے کیونکہ اب ان کی تمام فرمائشیں، جو باپ پوری نہیں کرپاتا تھا ماں ضرور کر پائے گی۔ سسر اور ساس بھی اس لیے خوش تھے کہ ایک تو نیا مکان، قیمتی گاڑی ملےگی اور اپنے بیٹے کی آمدنی دوگنی ہو جائے گی۔ دوسرے وہ خود بھی اپنی برسوں پرانی خواہش یعنی حج بیت اللہ جانے کی پوری کرپائیں گے۔
اللہ کا شکر بجا لانے کی غرض سے انہوں نے اب تمام ہمسایوں، رشتہ داروں اور غریب و مفلس لوگوں کو وازوان کھلانے کی دعوت دی۔ تمام پڑوسیوں میں مٹھائیاں وغیرہ تقسیم کی گئیں۔ غرض خاندان کا ہر فرد اس خوشی کا حصہ بنا ہوا تھا۔ وہ خود بھی اس لئے خوش تھی کہ پچیس سالوں کی انتھک محنت اور راتوں کی حرام کردہ نیندیں اب رنگ لاچکی ہیں۔ لیکن اگر کوئی واحد شخص اس کی کامیابی یعنی اسسٹنٹ پروفیسر فہرست میں جگہ بنانے پر ناخوش یا یوں کہیے کہ پھر بھی پریشان یا دکھی نظر آرہا تھا تو وہ اس کا شوہر سلیم تھا۔ کیوں کہ سلیم ایک معمولی ٹیچر کی پوسٹ پر گائوں کے ہی ایک پرائمری اسکول میں تعنیات تھا اور اس کے ذہن میں یہ سوالات مسلسل گردش کر رہے تھے کہ کیا اس کی بیوی اب اس کی فرمانبرداری کرے گی؟ اس کی اطاعت گزار رہے گی؟ اس کا کہنا مانے گی؟ اس کے بوڑھے اور معمر والدین کا خاص خیال رکھے گی؟ اسے احساس کمتری کا شکار ہونے سے روکے گی؟ اسے وہ پیار اور شفقت دے گی جس کا وہ مستحق ہے؟ ان ہی سوالات میں گم ہو کر سلیم نہ ہی خوشی کا اظہار کررہا تھا نہ ہی ہی اطمینان کے سانس لے رہا تھا۔