انجینئر ایس آر ایس مدنی
انسانی یادداشت قلیل مدتی ہونے کی وجہ سے وادی میں 1903، 1959 اور 2014 کے تباہ کن سیلابوں کو حکومت اور لوگوںنے آسانی سے بھلا دیا ہے۔ 1903 کے سیلاب کے فوراً بعدحکومت کی طرف سے برطانوی انجینئروں کی براہ راست نگرانی میں سیلاب سے نمٹنے کے دو منصوبے شروع کئے گئے۔اول 17,000 کیوسک کے ڈیزائن کردہ اخراج کیلئے پاد شاہی باغ سے ولر جھیل تک فلڈ سپلیمنٹری چینل۔اوردوم بارہمولہ میں آؤٹ فال چینل کی کھدائی (ڈریجنگ)، جس کیلئے دو الیکٹرک ڈریجر تعینات کئے گئے تھے۔ مؤخر الذکر کیلئے مہورا میں برصغیر میں اپنی نوعیت کا دوسرا 5 میگاواٹ کا پاور ہاؤس تعمیر کیا گیا۔
کئی برسوںسے فلدچینل بڑے پیمانے پر تجاوزات کا شکار ہونے کے باعث ایک نکاسی نالی بن چکی ہے۔ سیلاب کے دوران یہ مشکل سے 5,000 کیوسک پانی کے اخراج کو پورا کر سکتی ہے۔
1959 میں سیلاب پر قابو پانے کے منصوبے پر عمل درآمد کیلئے ایک علیحدہ محکمہ انسداد سیلاب قائم کیاگیاجس کی مکمل مالی امداد حکومت ہند نے کی۔چیف انجینئر اور کچھ سینئر انجینئرز بشمول مالیاتی مشیر اور چیف اکاؤنٹس آفیسر کو اس کے نفاذ کیلئے حکومت ہندوستان نے ڈیپوٹیشن پر تعینات کیا تھا۔ اس منصوبے میں دیگر ذیلی کاموں کے علاوہ مندرجہ ذیل چار اہم اجزاء شامل تھے۔
1: فوری نکاسی کی صلاحیت کیلئے خادنیار کے مقام پر جہلم کی پتھریلی رسائی کو گہرا اور چوڑا کرنا۔
2: فوری نکاسی کی صلاحیت کیلئے سیرسوپور کے مقام پر پر دریا کے Sشکل کے لوپ کو دوبارہ سیدھا کرنا۔
3: سوپور سے بارہمولہ شہر تک دریا کی ڈریجنگ ،جس کیلئے بادشاہ اور سویا نامی دو سکشن کٹر ڈریجر تعینات کئے گئے تھے۔ بارہمولہ شہر سے خادنیار تک پتھریلی تہہ کو گہرا کرنے کیلئے ایک ڈیپر ڈریجر تعینات کیا گیا تھا۔
4: پہرو نالہ کے طاس یا آب گیرہ میںکے مٹی کے تحفظ کے اقدامات، جو اپنے بھاری گاد کے بوجھ سے دوآبگاہ میں دریا میں ایک رکاوٹ پیدا کرسکتا ہے جس کے نتیجے میں پانی کابہائو پیچھے کی طرف ہوگا اور اس طرح نکاسی کی صلاحیت سست ہوگی۔
1966 تک منصوبے کے اہم اجزاء مکمل ہو گئے اور بارہمولہ میں 45,000 کیوسک کا ڈیزائن شدہ اخراج حاصل ہوا۔ ڈی پی آر نے منصوبے کی کامیابی کیلئے ایک مسلسل عمل کے طور پر ڈریجنگ اور مٹی کے تحفظ ، دونوں اقدامات تجویز کئے۔ آسودہ خاطرہونے کے نتیجہ میںحکومت نے فلڈ کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کو محکمہ آبپاشی کے ساتھ ضم کر دیا جس میں سیلاب کے اجزاء کو کم ترجیح دی گئی۔رقوم کی کمی کی وجہ سے 1986 میں ڈریجنگ روک دی گئی۔ منصوبے کے مختلف حصوں کی دیکھ ریکھ نہ ہونے کی وجہ سے پہلے سے حاصل ہونے والے فوائد بتدریج کم ہونے لگے۔
2014 کا سیلاب حکومت اور لوگوں ،دونوں کیلئے ایک یاد دہانی تھا کہ وہ آسود ہ خاطر نہ ہوں اور فطرت کے خلاف جائیں۔ ہم نے جنگلات کی تباہی کی ہے، آبی ذخائر (رکھ آرتھ، نارکرہ اور بٹہ ماو نمبل، ہوکر سر، گلسر، آنچار) کوانسانی بستیوں میں تبدل کردیاہے، جہلم اور اس کی معاون ندیوں بشمول سیلاب کے ضمنی چینلوں پر قبضہ کیا ہے۔یہاں تک کہ سیلابی پانی کو اپنے اندر سمونے والی ولر جھیل کو بھی نہیں بخشا گیا ہے۔
2019 میں، سری نگر شہر میں جہلم کی غیرمنصوبہ بند ڈریجنگ شروع کی گئی۔ انجینئرنگ پریکٹس کے مطابق ڈریجنگ اختتامی نکتہ سے شروع کی جاتی ہے اور اس کیس میں اسے ولر جھیل (بانیاری) کے اوپر سری نگر کی طرف کیا جانا تھا۔ دریا میں محدب سائیڈ پر منحنی خطوط پرگہرائی کم ہوتی ہے جسے یا تو دستی/مشینری کے ذریعے ہٹایا جا سکتا ہے یا مقعر کی طرف ڈیفلیکٹر بنا کر۔ کولکتہ کی ایک کمپنی نے ڈریجنگ کے نام پر سری نگر شہر کے جہلم میں ان پایابوں کو ہٹایا تھا۔ اسی مدت کے دوران محکمہ نے دو ڈریجر خریدے اور سوپور اور بارہمولہ کے درمیان تعینات کئے گئے۔ اطلاعات کے مطابق اس کے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔
کرنے کے کام
1: جہلم طاس کے آب گیرہ میں مٹی کے تحفظ کے بڑے پیمانے پر اقدامات۔
2: فلڈ چینل کوکم ازکم اس کے ڈیزائن کردہ 17,000 کیوسک کے اخراج تک اپ گریڈ کرنا، اگر اس سے زیادہ نہیں ممکن نہ ہو۔
3: بانیاری سے پامپور تک دریا کی تہہ کی کھدائی کرکے پشتوں کی مضبوطی کیلئے کھدائی کئے گئے مواد کا استعمال کرنا۔
4: سوپور سے بارہمولہ تک جہلم کی مسلسل کھدائی۔
(انجینئر ایس آر ایس مدنی جموں و کشمیر حکومت کے سابق سیکریٹری رہ چکے ہیں۔)
…………………………………………………………………………