فہیم الاسلام
امن، امان ،شانتی ،سلامتی ایسے الفاظ ہیں جن کو ہر کوئی پسند کرتا ہے۔ ہر فرد بشر کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے معنی سے وہ فائدہ اٹھائے اور سکون و چین کی زندگی گزارے لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جب بعثت ہوئی تو اس وقت الفاظ اپنے معنی سے عاری ہوچکے تھے۔اللہ نے انسانیت پر رحم فرمایا اور انسانوں کی ہدایت کے لیے نبی رحمتؐ کو معبوث فرمایا، جہاں جنگل کا راج تھا وہاں امن و امان کی فضا چھا گئی اور ہر طرف صلح وآشتی اور امن و شانتی کی آوازہ بلند ہونے لگی اور دنیا صحیح طور پر اُن الفاظ کے معانی سے آشنا ہوئی،جن کے لئے وہ ترس رہے تھے۔
اسلام کے لفظ ہی سے سلامتی ٹپکتی ہے اور ایمان کے مادہ ہی سے امن وامان رستا ہے، اسلام کی ہر تعلیم امن وسلامتی کی مظہر اور ہر مسلم آشتی اور شانتی کا پیامبر ہےباوجود اس کے انتہائی حیرت انگیز بات ہے کہ دشمنان اسلام نے تعلیمات اسلام کو امن مخالف بلکہ دہشتگردی کو فروغ دینے والی قرار دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھا۔
قرآن اللہ کے رسولؐ کو بنی نوع انسانیت کے لئے رحمت اللعالمین قرار دیتا ہے، آپؐ کو پوری انسانیت کے لئے قابل تقلید پیش کرتے ہوئے بہترین نمونہ قرار دیتا ہے۔حدیث مباکہ ہے کہ سب سے بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہتر طریقہ زندگی محمدؐ کا طریقہ ہے (مسلم)۔نبی کریم ؐ کی زندگی مختلف حیثیتوں سے ہر انسان کے لئے بہترین نمونہ ہے ۔آپؐ کا لایا ہوا دین انسانوں کے لئےخالق و مالک کا عطا کردہ ہے، اس لئے وہی زندگی گزارنے کا سچا راستہ ہے، لہٰذا مسائل و مصائب کی ماری اضطراب اور بے چینی میں مبتلا دنیا کو اگر کہیں پناہ مل سکتی ہے تو وہ صرف محسنِ انسانیت کے اسوہ ٔہی میں مل سکتی ہے۔
مذہب اسلام کی طرف نظر دوڑائیجائے تو حقیقت آشکارہوتی ہے کہ اسلام کی تعلیمات کا کتنا بڑا حصہ امن سلامتی کی تعلیمات اور اس کے متعلق احکامات سے وابستہ ہے لیکن اگر صرف احکامات و تعلیمات و اصول و ضوابط اور قوانین سے متعلق کتابیں ہدایت اتباع کے لیے کافی ہوتے تو اللہ ہدایت کے لئے نبیوںکو مبعوث نہیں کرتا، لیکن اخلاق علیم انسان کی فطرت سے واقف تھا کہ جب تک عملی نمونہ نہ ہو ،وہ کسی کے سامنے جھکتا نہیں ہے ۔اسی بنا پر غور کریں تو بہت سے مذاہب کی کتابوں کی تعلیمات ان کے میدان عمل سے ذرہ برابر بھی میل نہیں کھاتی۔ عیسائیت کی تعلیمات میں عفو و صفح کا بہت اونچا مقام ہے لیکن اس مذہب کے متبعین میں بہت کم لوگ اس پر گامزن ہیں اور یہ چیز اس مذہب کی مقبولیت میں مانع بننے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ چونکہ دین اسلام ابدی ہے، لہٰذا اس کے متعدد ولا تعدادامتیازات میں ایک یہ بھی ہے کہ جس طرح اس مذہب میں قانون کے لئے ایک افضل کتاب قرآن ہے، اسی طرح اس کو عملی ثابت کرنے کے لئے حضور ؐ کی ذات مبارکہ کی مکمل زندگی ہے جو کہ افضل خلائق ہے اور حضورؐ کی مکمل زندگی تاریخ و سیرت اور حدیث کی کتابوں میں موجود و محفوظ ہے۔حضرت محمدؐ کی نبوت سے پہلے والی زندگی بھی امن سلامتی کا درس دے رہی ہے۔
اگر زمانہ جاہلیت کی بات کی جائےتو نبوت سے پہلے جناب محمد عربی ؐ کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ کچھ لوگ عبداللہ بن جدعان کے گھر میں اس مقصد سے جمع ہوئے کہ سب لوگ مل کر ظالم کو ظلم سے روکنے کی کوشش کریں اور مظلوم کی مدد کرے، اس معاہدہ کو حلف الفضول کہتے ہیں، آپؐ بھی اس میں شریک ہوئے، آپ ؐکو یہ معاہدہ اس قدر پسند تھا کہ آپؐ نبوت کے بعد بھی فرماتے تھے کہ اگر اب بھی مجھے ایسے معاہدہ کی طرف دعوت دی جائے تو میں اسے قبول کروں گا۔ مذکورہ واقعہ اور واقعہ پر بعد ِ نبوت تبصرہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ امن و سلامتی کی محبت آپ ؐکے اندر فطری و طبعی طور پر ودیعت کر دی گئی تھی جبکہ یہ واقعہ بعد نبوت پیش آئے واقعات کے سامنے عشرعشیر کی بھی حیثیت نہیں رکھتا ،اس کے باوجود حضور اکرمؐ نے اس کی مدح کی ۔
ایک اور واقعہ جو کہ زمانہ جاہلیت میں پیش آیا، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جناب محمد عربیؐ امن وسلامتی کے کتنے خواہاں تھے۔جب عمر مبارک پچیس سال کی ہوئی تو خانہ کعبہ میں بارش کی وجہ سے شگاف پڑ جانے کے سبب کعبۃ اللہ کی تعمیر نو انجام پائی، اس میں جب حجر اسود کو اپنی جگہ رکھنے کا وقت آیا تو مختلف قبائل کے درمیان کشمکش شروع ہوئی اور قتل و قتال کا اندیشہ پیدا ہو گیا، ایسے موقع پر مکہ کے ایک بزرگ نے تجویز پیش کی کہ کل جو شخص سب سے پہلے کعبۃ اللہ میں آئے، وہ حجر اسود کو اپنی جگہ رکھے۔ کل سب سے پہلے کعبہ میں آنے والی شخصیت حضور اکرم ؐ کی تھی۔ چنانچہ آپؐ نے ایک چادر منگوائی، اس کے وسط میں پتھر رکھا اور ہر ہر قبیلے سے ایک ایک نمائندہ طلب کیا اور ان سب سے کہا کہ وہ چادر کے کنارے پکڑ کر حجر اسود کو اُس کی جگہ تک لے جائیں جہاں اسے نصب کیا جانا ہے، پھر جب وہاں پہنچے تو اپنے دستِ مبارک سے پتھر کو اس کی جگہ نصب فرما دیا، اس طرح ایک بڑے فتنے کا سدباب ہوا اور امن کی فضا قائم رہی۔
قبل از نبوت حضور اکرم ؐ کی زندگی میں امن کے نمونوں میں ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ جب حضور اکرمؐ 14 یا 15 سال کے تھے تو حرب الفجار نامی مشہور جنگ پیش آئی، جس کو آپؐ نے دیکھا اور ناپسند کیا۔ چونکہ آپؐ اس جنگ میں شریک تھے ، چھوٹے تھے اس کے باوجود امن پسند طبیعت نے یہ گوارا نہ کیا کہ آپؐ اپنے ہتھیار سے بذات خود کسی پر وار کریں۔ اس لئے شریک تو ہوئے لیکن صرف یہ کرتے کہ تیراُ ٹھاکر چچا کو دے رہے تھے، خود حملہ نہ کیا اور بعد میں اس کو بھی ناپسند کیا اور زندگی بھر سوائے ایک دو واقعے کے بذات خود کسی پر وار نہ کیا۔
مذکورہ واقعات زمانہ قبل از نبوت کے تھے جو معاشرتی سطح کے تھے لیکن جب حضور اکرمؐ کو بعثت ملی تو اس کے بعد بھی آپؐ کے امن پسندی کے نمونے ظاہر ہوتے رہے بلکہ اس میں اضافہ ہوا۔ حضور اکرمؐ نے بعد نبوت مکی زندگی میں جو امن کی بقا کی کوشش کی، وہ عدیم المثال ہے اور اس کا سبب یہ نہیں کہ حضورؐ کچھ نہ کر سکتے تھے اس لئے صبر کر جاتے بلکہ اگر چاہتے تو حضوراکرمؐ منٹوں بلکہ سیکنڈوں میں مخالفین کے خلاف کارروائی کرسکتے تھے۔ دنیاوی اعتبار سے بعد نبوت اگرچہ اکثر لوگوں نے حمایت چھوڑ دی تھی لیکن پھر بھی آپؐ کا قبیلہ آپ کے ساتھ تھا، آپؐ چاہتے تو مدد کے لئے ان کو آواز دیتے پھر جنگ چھڑ جاتی ،چونکہ اخروی اعتبار سے آپؐ کا تعلق تو آسمانی دنیا سے اور اس عالم و کائنات کے خالق سے تھا، اگر آپ چاہتے تو ایک بددعا میں پوری قوم کو ہلاک کر دیتے لیکن امن پسند طبیعت نے اس کو گوارا نہیں کیا۔
نبوت کے ابتدائی دور میں جن مشکلات و مصائب کا آپؐ کو سامنا کرنا پڑا اور اُن مشکلات پر صبر کرنے سے یہی پتہ چلتا ہے کہ نبی کریمؐ ہمیشہ امن و سلامتی کی خواہاں تھے، وہ ہمیشہ یہی چاہتے تھے کہ امن و سلامتی برقرار رہے۔
نبوت کے ملنے کے بعد سب سے پہلے جب آپ ؐنے کوہِ صفا پر چڑھ کر لوگوں کو دعوت دی تو جواب میں ابولہب نے جب کہا کہ غارت ہو جاؤ، کیا یہی بات تھی، جس کے لئے تم نے ہم سب کو یہ اکٹھا کر لیا تھا۔ دعوت کا یہ پہلا قدم تھا، جس پر مخالف کے شور و واویلا کرنے پر حضوراکرم ؐ نے مکمل سکوت کیا، اگر اس موقع پر ایک لفظ بھی کہتے تو پھر معاملہ طول اختیار کرجاتا اور امن کی فضا مکدر ہو جاتی۔جب ایک مرتبہ حضور اکرمؐ نے کعبہ میں کھڑے ہو کر اس دعوت کا اعلان کیا تو مشرکین نے آپؐ کو بُرابھلا کہا، کسی نے شاعر تو کسی نے کاہن کہا، لیکن حضور اکرمؐ اپنی دعوت دیتے رہے اور بذات خود کوئی جواب نہ دیا بلکہ اللہ تعالی نے معجزانہ انداز میں ان باتوں کی تردید کی۔ نیز حضور اکرمؐ کو ستانے کے لئے انتشار انگیزی،کٹ حجتیاں،دلائل،غنڈہ گردی ہر ممکنہ صورت کو اختیار کیا گیا ،محلہ کے پڑوسی جو بڑے بڑے سردار تھے آپؐ کے راستے میں کانٹے بچھاتے،نماز پڑھتے وقت شور و غل مچاتے،اوجھڑی لا کر ڈالتے،گلا گھونٹتے لیکن آپؐ نے ان سب پر صبر کیا، یہاں تک کہ مشرکوں نے آپ ؐکو لاچار اور مجبور کرنے کے لئے ابو ہاشم کو شعب ابی طالب میں قید کر دیا گیا، اس پر بھی آپؐ نے صبر استقامت سے کام لیا۔پھر جب مکہ سے دلبرداشتہ ہوکر طایف آئے تو وہاں جو برتاؤ کیا گیا، اگر آپ چاہتے تو فرشتوں کی پیش کردہ تجاویز پر عمل کر کے پورے طائف کے امن کو خاکستر کر دیتے، لیکن امن کی بحالی کے لئے ایک لفظ ان کے خلاف نہ کہااور ان کے بدل میں اللہ تعالی سے ان کے لئے ہدایت و مغفرت کی دعا فرمائی۔چنانچہ حضور اکرمؐ کی پوری زندگی ہی امن وسلامتی کے نمونے سے بھرپورہیں، لیکن مدنی زندگی میں امن و سلامتی کا گوشہ نہایت ہی وسیع ہوگیا، مکی زندگی میں اپنی قوم سے واسطہ تھا تو مدنی زندگی میں آپؐ کے تعلقات عالمی ہوگئے۔مختصر عرصے میں چاروں طرف سے دشمنوں کے نرغے میں گھرے ہونے کے باوجود جس طرح امن کو بحال رکھتے ہوئے اپنے مقصد اصلی کو پورا کیا، اس پر دنیا حیران ہے۔ ایک طرف مکہ کے مشرکین تھے ،دوسری طرف داخلی منافقین، تیسری طرف یہود ،چوتھے مخالفین نصاریٰ کے بعض قبائل اور پھر آخر میں وقت کے دو طاقتور سلطنتوں کے مخالفین، سب کے درمیان ایک پُرامن نظام کو قائم کرنا ایک ایسا کارنامہ ہے جو آپ ؐسے پہلے نہ کسی نے انجام دیا اور آپؐ کے بعد کوئی اس کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔
اگر آپ ؐ کی ذاتی زندگی پر نظر دوڑائیں، اس سطح پر یہ جان لینا کافی ہوگا کہ آپؐ کی پوری زندگی اور خاص طور پر مدنی دور میں کسی کو آپؐ سے یا آپؐ کو کسی سے ذاتی دشمنی یا عناد نہ تھا۔ آپؐ اپنی ذات کے اعتبار سے بھی مجسم رحمت تھے۔اگر خانگی زندگی اعتبار سے دیکھیں، خانگی معاملات میں ازواج مطہرات کے درمیان مساوات،غلاموں سےملاطفت،بدووں کے جاہلانہ رویوں پر عفو و درگذر اور صحابہ کی صحیح تربیت کے ذریعےجوپُرامن فضا قائم کی، وہ آپؐ ہی کا حصہ تھا۔حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں 10 سال آپ ؐ کی خدمت میں رہا، کبھی آپ ؐنے اُف تک نہ کیا اور نہ کسی کام کے بارے میں کہا کہ یہ تم نے کیوں کیا اور یہ کیوں نہیں کیا؟اسی طرح ایک بدو آکر چادر سے آپؐ کی گردن کھینچنے لگا تو آپ ؐنے کچھ نہیں کہا بلکہ انہیں معاف کیا۔معاشرتی سطح پر بطور نمونہ صرف اخوت کی اس نادر و نایاب مسائل کا ذکر کافی ہے جس کی نظیر ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ سب کچھ چھوڑ کر آئے تو سب سے بڑا مسئلہ معیشت کا تھا ،جس کا دل اللہ کے رسولؐ نے انصار و مہاجرین کے درمیان اخوت کے ذریعے نکالا ،اگر اس میں تھوڑی بھی تاخیر ہوتی تو یہ چیز بہت سے مفاسد کے وجود کا ذریعہ بن جاتی ہے، اس سلسلے میں آپؐ کی وہ حدیث امن کے قیام کی اعلیٰ مثال ہے، جس میں آپؐ نے فرمایا،’’کسی عربی کو عجمی پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ سے۔‘‘(الحدیث)
ملکی سطح پر مدنی زندگی میں امن کیلئے جو کوشش حضورؐ نے کئے، ان میں سب سے بہتر کوشش یہ تھی کہ آپؐ نے مدینہ آتے ہیں، وہاں کے یہود سے عہد کیا کہ ہم آپس میں امن و امان کے ساتھ رہیں گے، اگر کوئی خارج حملہ ہو گا تو ہم سب مل کر اس کا دفاع کریں گے، اسی سطح کا معاہدہ حضوراکرمؐ نے آس پاس کے دیگر قبائل سے بھی کیا۔اگر تاریخ اسلام کی طرف نظر دوڑائی جائے جو مختلف غزوات نبی اکرمؐ کی حیات مقدس میں پیش آئے، ان سب کی بنا امن و سلامتی کے لئے تھیں، کوئی بھی جنگ کسی ذاتی مفاد کے لئے نہیں لڑیں گی بلکہ ہر کوئی جنگ امن و سلامتی کے لیے لڑی گئی۔
صلح حدیبیہ امن و شانتی کی سب سے واضح مثال ہے۔جب مہاجرین کو ہجرت کئےایک مدت ہو گئی تو اُن کے دل میں بار بار یہ خیال پیدا ہوا کہ اپنے خاندان ،اپنے بیوی بچوں سے ملاقات کرے، بیت اللہ کی زیارت سے آنکھوں کو ٹھنڈا کرے ،اسی ارادے سے حضوراکرمؐ، صحابہ کی ایک جماعت کو لے کر جانب مکہ روانہ ہوئے اور مشرکین کو غلط گمان نہ ہو ،اس لیے گھوڑوں کو قلائد لگوائے،ہتھیار بھی کم سے کم لیے اور سیدھے مکہ نہیں گے بلکہ مقام حدیبیہ پر قیام کیا اور اطلاع کے لئے حضرت عثمان ؓکو بھیجا پھر جب قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو امن کا پیغام لے کر آئے تو ان کی ہر شرط قبول کی اور اتنا دب کر صلح کی کہ بعض صحابہ تک اس پر دلبرداشتہ ہوگئے اور پوچھنے لگے کہ کیا ہم حق پر نہیں؟لیکن حضورؐ نے صلح کو مع کل شرایط قبول کیا۔اگر آپ چاہتے تو زبردستی اپنی طاقت کے بل بوتے پر عمرہ کر لیتے، سابقہ جنگوں سے اہل مکہ پر رعب طاری ہوچکا تھاان کے بہت سے سردار مارے جا چکے تھے اور مسلمانوں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی لیکن بغیر ادائے عمرہ کے واپس چلے گئے۔جب حضورؐ نے یہودیوں سے معاہدہ کرلیا تو وہ یہودیوں کو چاہیے تھا کہ وہ اس معاہدہ کا خیال رکھتے اور اس کو پورا کرتے اور اگر تعاون نہ کرتے تو عداوت کا اظہار بھی نہ کرتے، لیکن ان یہودیوں کی طبیعت کو اسلام کی ترقی دیکھ کر کہاں چین آتاجب بھی موقع ملتا، غداری اور نقص عہد کرتے،جس کی بنا پر ایک ایک کر کے ان کو جلاوطن کر دیا گیا تاکہ مدینہ کی پُرامن فضا مسنون نہ ہو، لیکن رحم و کرم کی داد دیجیے کہ سامان لے جانے کی بھی اجازت دی۔اگر دنیا کی سب سے عظیم ترین انقلاب کے بات کی جائے تو وہ اسلامی انقلاب تھا جو کہ سرزمین مکہ میں برپا ہوا، جسے فتح مکہ کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ دنیا کا سب سے پہلاانقلاب ہے جو بنا خونریزی سے آیا اور اس دن اگر آپ چاہتے تو ہر کسی مشرک ،ہر کسی منافق سے بدلہ لیتے مگر آپؐ نے امن سلامتی کی بحالی کے لئےہر کسی کو معاف کیا اور سرزمین مکہ میں امن و سلامتی کی فضا برقرار رکھی۔
آج دنیا امن و سلامتی کے لئے ترس رہی ہے لیکن امن سلامتی کا راز اللہ کی کتاب قرآن مقدس میں ہے اور آخری پیغمبرحضرت محمدؐ کی پاک سیرت میں ہے، اگر آج بھی دنیا قرآن کی طرف واپس لوٹ کے آئے اور حضرت محمدؐ کو اپنا نمونہ تسلیم کرے تو دنیا میں امن و سلامتی قائم ہوسکتی ہے ۔
حضور اکرم ؐ کی زندگی مبارک کے جس پہلو کی بھی بات کی جائے وہ امن و سلامتی کا منبع ہے۔ ان کے زندگی مبارک کے لئے جتنی کتابیں لکھی جائیں، جتنے قلم خشک ہو جائیں، وہ کم ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ حضوراکرمؐ کے امن کی تعلیمات کو عام کیا جائے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے کہ اس میں دنیا و آخرت کی فلاح و کامیابی مضمر ہے۔