موبائیل فون کے وجود میں آنے سے جہاں انسان پوری دنیا میں رابطے میں رہا تو وہیں اس کے ذریعے پورا دن جھوٹ بولتا ہوا تھکتا نہیں ہے۔ بعض لوگوں کو تو عادت ہی پڑ گئی ہے کہ کئی جھوٹ ایسے بولے جاتے ہیں جو محض گناہِ بے لذت و بے فائدہ ہوتے ہیں۔ انہیں یہ امتیاز ہی نہیں رہتا کہ ہم نے فلاں کلمہ جھوٹ بولا ہے۔ انہیں اس کی پرواہ ہے نہ شرمندگی۔ کئی کلومیٹر دور ہوتے ہوئے بھی قریب بتاتے ہیں۔ اسی طرح ہم اپنے بچوں کو دھوکہ، جھوٹ اور فریب سکھا کر انہیں اپنے قریب بلاتے ہیں۔ واقعی ہم اْن سے محبت کرتے ہے لیکن جھوٹ بول کر نہیں۔ یعنی معمولی بات بچوں کو بہلانے کے لیے بھی گناہ ہے جو بے لذت و بے فائدہ ہے۔ سرکاری و نیم سرکاری اور پرائیویٹ محکموں کے ساتھ ساتھ کئی مزدور انجمنیں بھی اپنی حاضری ممکن بنانے کے لیے رجسٹر میں قلم زنی کرتی ہیں اور خلاف واقعہ لکھ کر گناہ کا مرتکب بن جاتی ہیں۔
آج کل لوگ ایسے کئی گناہوں میں بری طرح مبتلا ہو چکے ہیں جو بے لذت و بے فائدہ ہیں کہ عوام تو عوام خاص الخاص کابھی اس سے بچنا مشکل ہو گیا ہے۔ بہت سے کارخانہ جات ایسے ہیں جن کی بنیاد ہی جعلی دستاویزات پر ہے۔ سودی لین دین جیسے گناہ میں بھی جعلی دستاویزات اور جھوٹی شہادتوں سے کام لے کر اور زیادہ بھیانک بنایا جاتا ہے۔ اس قوم کا غیور، باضمیر ذہین ڈاکٹر چند روپیوں کے عوض عمر میں کمی دکھانے، غیر حاضر و تبدیل ہونے والے ملازم کو فرضی طبی سند اجراء کر کے بیماری میں مبتلا بنانے میں اس گناہ میں ماہر کار ہیں۔ قوم کے معمار تو طلبا کے اندراج کے وقت سے ہی تحریری جھوٹ سکھانا شروع کر دیتے ہیں۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلباء کے پرچوں پر اپنی مرضی سے نمبرات بڑھانا یا گھٹانا سنگین جرم ہے۔ کسی بھی ادارے سے اجراء شدہ سند میں واقعہ کے خلاف لکھنا ایک جھوٹی شہادت اور گواہی ہے جس پر دستخط کرنے میں قابل، ذہین اور غیور افراد تک مبتلا ہوتے ہیں۔
راشن کی مفت تقسیم کاری میں جن صاحبوں کی سفارش پر عمل درآمد کیا جاتا ہے، وہ ایک شہادت ہے۔ اس میں خلاف واقعہ لکھنا جس کی بنیاد پر راشن مل جائے جھوٹی شہادت اور گواہی ہے۔ میونسپل بورڈ کے پاس جانور کو ذبح کرنے کے لیے تصدیق یا مہر ڈالنے کے لیے لیا جاتا ہے تو اس میں بیمار یا مرے ہوئے جانوروں کی تصدیق کرنا بھی جھوٹی شہادت ہے۔ بیع ناموں، رسیدوں، درخواستوں، چیکوں، حلف ناموں، حلفی بیانوں وغیرہ پر دستخط کرنا جن کا معاملہ دستخط کرنے والوں کے سامنے نہیں ہوا، یہ بھی جھوٹی شہادت اور گواہی ہے۔
سوچھ بھارت ابھیان (SBM) کے تحت بیت الخلاء بنائے بغیر ہی چند پیسوں کے خاطر سرکاری خزانہ لٹانا کون سی اخلاقیات ہے۔ اسی طرح منریگا اسکیم ( MGNREGA) کے تحت غیر معیاری قسم کا مواد استعمال کر کے بڑے بڑے رقومات نکالنا کہاں کا دین ہے۔ مختلف شعبہ جات میں ٹینڈر نکال کر غیر معیاری اشیاء خریدنا کس اسکول کی دی ہوئی تعلیم ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں تاحال 61000 عارضی ملازمین ہیں۔ دیکھا جائے تو ان میں سے ایک کثیر تعداد ان پڑھ ہے، ایک بڑا حصہ آٹھویں جماعت تک پڑھی ہوئی ہیں جب کہ قلیل تعداد دسویں سے لیکر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ ان کی مستقلی کے مسئلے کو پیچیدہ سے پیچیدہ بنانے والے ہمارے معاشرے کے ہی افراد ہیںجو ہر وقت نئی نئی فہرست مرتب کرتے وقت غیر ذمہ دارانہ طور پر بے ایمانی سے کام لے کر اس کے اندر اپنے احباب و اقارب کا نام ڈالتے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے کئی حق داروں اور خواہش مندوں کا استحصال ہوا ہے اور وہ آج تک اس دھوکہ دہی، جعلسازی اور بے ایمانی کی آڑ میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔
بجلی اور پانی کنکشن میں چوری کی بات کی جائے تو یہاں بھی کافی کچھ حیران کن واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔آئے روز گھروں میں بجلی چوری کے مرتکب، کئی جگہوں پر گیزر اور ہیٹر کا بے تحاشا استعمال کر کے حکومت سے وعدہ خلافی کرتے ہوئے لوڈ شیڈنگ پیدا کرنے میں اہم سبب ہے۔ فیس کی کم ادائیگی سے حکومت کا پیسا بھی دھوکہ دہی، جعلسازی اور بے ایمانی سے کھا لیتے ہیں۔ اسی طرح کی چوری پانی کے استعمال کے دوران بھی کی جاتی ہے۔ ایک تو اگریمنٹ کے بغیر پانی گھروں کے اندر استعمال کیا جاتا ہے اور دوسری طرف گھر کے صحن میں سبزی کی پیداوار کے لئے پانی کا بے تحاشا استعمال ہو رہا ہے جو غفلت و لاپرواہی سے پورے دن کھلا ہی چھوڑا رکھا جاتا ہے۔
بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ اسکیم میں بھی کافی بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی سے کام لیا گیا ہے۔ چند پیسوں کے عوض سرکاری نوکر پیشہ افراد نے بھی پٹواریوں، محکمہ سماجی بہبود کے اسپروائزروں سے خلاف واقع آمدنی کے ذرائع اور بے روزگاری جیسے جھوٹے کاغذات تیار کر کے اسکیم سے فائدہ اٹھانے کی منصوبہ بند طریقے سے ناجائز کوشش کی ہیں۔ دیگر مرکزی معاونت والی اسکیموں میں بھی غلط اعداد و شمار دکھا کر حکومت کا پیسہ ناجائز طور پر ہڑپ کیا جاتا ہے۔
اسی طرح دن رات کے کاروبار میں ہزاروں کام ایسے ہیں جو جھوٹی شہادت میں داخل اور گناہِ کبیرہ کی مورد ہیں۔ اْن میں سے کچھ شہادتیں تو شاید ایسی ہوں جن میں انسان کسی اپنی دنیوی غرض و مجبوری سے مبتلا ہوتا ہے۔ لیکن بہ کثرت وہ بھی محض گناہِ بے لذت اور وبال ہیں۔الغرض انسان اپنی انسانیت بھول کر مادہ پرستی میں گم ہو چکا ہے۔ اس نے معاشرے میں دوسروں کا خون پسینہ چوسنا اپنا شیوہ بنا دیا ہے۔ یہ بے بنیاد جھوٹ و فریب اور دھوکہ دہی سے منافع حاصل کرنے کو ہنر سمجھ بیٹھا ہے۔ لہٰذا وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اپنی سوچ کے ساتھ ساتھ اپنا طریقہ انداز بدل ڈالیں ،جبھی بہتر سماج کے ذمہ دار شہری بننے کی توقعات رکھ سکتے ہیں۔اللہ پاک ہم سب کو معاشرے کا ذمہ دار شہری بنائیں۔ آمین۔
رابطہ۔ ہاری پاری گام ترال (9858109109)