رضیہ تب بہت چھوٹی تھی جب اس کے پھوپھی زاد بھائی کی شادی ہوئی تھی۔ اس کی پھوپھی بھی اسی کے محلے میں رہتی تھی۔ رضیہ کے ابا اور ان کی بہن کے درمیان بہت پہلے ایک جائداد کے معاملےپر جھگڑا ہوا تھا، جس کی وجہ سے دونوں گھرانوں کے درمیان ناراضگی چل رہی تھی۔ اسی دوران رضیہ کے پھوپھی زاد کی شادی ہوئی۔ ناراضگی کی وجہ سے رضیہ کے گھر والوں نے شادی میں شمولیت نہیں کی۔لیکن رضیہ ایک لاابالی پگلی سی چھوٹی سی لڑکی تھی ۔ ولیمے کے دن اپنے گھر والوں سے پوچھے بغیر اپنے محلے کی چھوٹی چھوٹی سہیلیوں کے ساتھ دلہن دیکھنے گئی۔
رضیہ نے دلہن کو دیکھا۔ دلہن کے سر پر سنہری کناری والا لال دوپٹہ اور کانوں میں سونے کے لمبے لمبے ڈبل جھمکے ( جھمکے کے اندر جھمکہ) تھے،جو دلہن کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہے تھے۔ رضیہ کو دلہن بہت پیاری لگی اور اس سے بھی زیادہ پیارے اسے دلہن کے ڈبل جھمکے لگے۔ اس معصوم کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ میں بھی ماں سے کہوں گی کہ میرے لیے ایسے ہی بھاری بھاری سونے کے جھمکے لائے تاکہ میں بھی اپنے کانوں میں پہن لوں لیکن ساتھ ہی یہ خیال بھی آیا کہ اس کے کانوں میں ابھی چھید ہی نہیں ہیں تو وہ کیسے جھمکے لگا سکتی ہے۔
ڈبل جھمکے کو ذہن میں رکھ کر ایک دن اس نے اپنی ماں سے کہہ دیا:"ماں آپ میرے کان کب چھدوائو گے؟" ماں نے کہا کہ "تجھے ابھی کان چھید کر کیا کرنا ہے۔ ابھی تو چھوٹی ہے۔ جب تم اپنی پڑھائی پوری کرو گی تب تمہارے کان چھید لیں گے۔ ابھی کان چھیدنے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں۔"ماں نے اسے سختی سے منع کیا۔اس طرح رضیہ چپ ہو گئی اور اس نے جھمکے کی بات دل میں ہی رکھ لی۔ لیکن رضیہ کی آنکھوں کے سامنے ہمیشہ وہ جھمکہ رہتا تھا۔ اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے وہ ہمیشہ سوچا کرتی تھی کہ کیا کوئی ایسا بھی دن آئے گا جب میرے کانوں میں بھی سونے کا ڈبل جھمکہ ہوگا ۔
کچھ عرصہ بعد ماں باپ نے اس کی پڑھائی چھڑوا دی۔ رضیہ گھر میں سب سے بڑی تھی۔ اس کی اور تین بہنیں تھیں۔ وہ تعلیم آگے جاری رکھنا چاہتی تھی مگر وہ ایک غریب گھر کی بیٹی تھی۔ غریب گھروں کی اپنی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ وہ جلد از جلد بیٹیوں کو اپنے گھر بار کے کردار میں ڈھاکنا مناسب سمجھتے ہیں ورنہ ماں باپ اپنے بچوں کی بہتری کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے۔ رضیہ اپنے گھر کے حالات سے واقف تھی۔ اس کا باپ مقامی مسجد میں پیش امام تھا۔ اس کے علاوہ کئی گھروں میں جا کر چھوٹے چھوٹے بچوں کو ناظرہ پڑھاتا تھا۔ اس کی ماں چرخہ کاتتی تھی، تب جا کر ان کے گھر کی ضروریات پوری ہوتی تھیں۔
رضیہ کی پڑھائی چھوٹتے ہی اس کے کان چھید دیئے گئے۔ اب رضیہ کو یقین ہو گیا کہ اب وہ سونے کے ڈبل جھمکے لگا سکتی ہے۔ بچپن سے لے کراب تک اگر رضیہ کو کسی چیز کی تمنا تھی تو صرف ڈبل جھمکے کی تھی۔کچھ ہی عرصہ بعد رضیہ کا رشتہ طے ہو گیا اور پھر منگنی بھی ہو گئی اور شادی کی تاریخ طے ہو گئی۔ گھر میں جتنا بھی پیسہ جمع تھا وہ سارے کا سارا منگنی کی رسم پہ خرچ ہو گیا۔ اب شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ ماں کے پاس اپنی شادی کے تھوڑےبہت جو زیورات موجود تھے، ماں اور ابا نے انہیں بیچ کر جو پیسہ لایا اس سے رضیہ کے لیے کپڑے اور ضرورت کی تھوڑی بہت چیزیں اور مختصر سی بارات کے کھانے پینے کا خرچہ پورا ہوا۔ زیور کے نام پر رضیہ کے لیے ایک چھوٹی سی بالی بن گئی۔ رضیہ اپنی شادی پر دنیا کے سارے رنگ خریدنا چاہتی تھی مگر وہ یہ جانتی تھی کی اچھے رنگ اچھے پیسوں سے خریدے جاسکتے ہیں۔اس کے ابا ایک سفید پوش انسان تھے۔ وہ اس کے شوق کیسے پورے کر سکتا تھا۔ اس لیے رضیہ نے اپنے بچپن کی تمنا کو دل ہی دل میں دفن کر دیا۔ اپنے آپ کو تسلی دیتے ہوئے اس نے سوچا کہ شادی پر نہ سہی شادی کے بعد اپنا ارمان ضرور پورا کروں گی۔ لیکن وہ اس حقیقت سے بالکل نا واقف تھی کہ اکثر رشتے اپنے برابر والوں میں طے کئے جاتے ہیں۔ لیکن رضیہ کی خوش نصیبی یہ تھی کہ اسے نیک صالح اور پیار کرنے والا ہمسفر ملا۔ سسرال پہنچ کر رضیہ کا زندگی سے پوری طرح تعارف ہوا کیونکہ وہ ن چکی بھی کہ زندگی آسانیوں کا نام نہیں ۔ زندگی ویسی نہیں ہوتی جیسی ہم سوچتے ہیں اور وہ کچھ نہیں ملتا جو ہم چاہتے ہیں۔ اس کے سسرال میں بھی حالات ویسے ہی تھے جیسے اس کے میکے میں تھے۔اس کا شوہر زید ایک پرائیویٹ اسکول میں ٹیچر تھا ۔ صبح شام بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا تھا۔ لیکن ذمہ داریوں کا بوجھ کچھ زیادہ ہی بھاری تھا۔
گھر میں بزرگ والدین کے علاوہ دو چھوٹی بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی تھا، جو ابھی زیر تعلیم ہی تھے۔ سب کا بوجھ زید کے کندھوں پہ تھا۔ زید دل کا شہزادہ تھا مگر تنگدستی اس کا مقدر تھی۔ رضیہ اب اس گھر کا حصہ بن گئی اور اس نے بھی اپنے حصے کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ گھر کے کام کاج کے ساتھ ساتھ وہ ٹیوشن میں زید کا ہاتھ بٹانے لگی۔ بہت سی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں۔ زندگی بہت بدل گئی۔
کل کی لاابالی لڑکی آج ایک ذمہ دار عورت بن گئی۔ اسے یہ بات سمجھ آئی کی قناعت کرنے سے زندگی آسان ہوتی ہے۔ اس لیے وہ قناعت پسند بن گئی۔ رضیہ اور زید نے بہادری سے مشکلوں کا سامنا کیا۔ وہ زندگی کےگرد باد میں پھنس گئے۔ وقت اپنی رفتار سے چلتا رہا۔
زید کے بہن بھائی اپنے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو گئے۔ زید اور رضیہ اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلا رہے تھے۔ جس کی وجہ سے ابھی ان کے حالات بدلنے کی کوئی توقع نہیں تھی۔
ایک روز رضیہ اور زید بازار سے گزر رہے تھے تو اچانک رضیہ کی نظر فٹ پاتھ پر سجی مصنوعی زیورات کی ایک ریڑھی پہ پڑی۔ اس نے ریڑھی پر ہو بہو ویسا ہی جھمکہ دیکھا جسے پہننا کبھی اس کا خواب ہوا کرتا تھا۔ اس کے قدم خود بخود رک گئے۔ اس نے جھمکے کو ہاتھ میں اٹھایا، جو بالکل سونے کے جھمکے کی طرح چمک رہا تھا۔ رضیہ نے چھابڑی والے سے جھمکے کی قیمت پوچھی۔ چھابڑی والے نے اس کی قیمت سو روپیے بتائی۔ رضیہ نے اپنے پرس سے سو روپیہ نکالا اور جھمکے خرید لیے۔ وہ بہت ہی خوش ہوئی۔
گھر پہنچ کر رضیہ نے وہ جھمکے اپنے کانوں میں لگائے اور آئینے کے سامنے کھڑی ہو گئی تو اس کی نظر اپنے سفید بالوں پر پڑی ۔ آج اسے یہ بات سمجھ آئی کہ ہم اپنے آپ کو بھول کر دوسروں کے لیے جیتے ہیں اور اپنی خواہشوں کو مارتے ہیں۔ وہ دوسرے کوئی اور نہیں ہمارے اپنے ہوتے ہیں۔ جن کے ہونے سے ہمارا اپنا ایک وجود ہوتا ہے۔
رابطہ؛پہلگام، اننت ناگ –9419038028،8713892806،