یاسر بشیر۔ اسلام آباد
زندگی رب کائنات کی عطا کی ہوئی ایک نعمت ہے،یہ ا ﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے پاس ایک امانت ہے اور ہمیں اس عظیم امانت کی خیانت نہیں کرنی چاہئے۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایک دن ہمیں یہ امانت ا ﷲ کو واپس کرنی ہے۔ اس زندگی کے کچھ مرحلے(Stages) ہوتے ہیں۔
(ا)بچپن:اس عمر میں ایک بچہ کھیلنے کودنے میں مصروف ہوتا ہے۔(۲)جوانی : اس عمر میں ایک جوان سر پر آسمان لے کر پھرتا ہے۔(۳)بڑھاپا : اس عمر میں ایک انسان پچھتاوے میں ہوتا ہے کہ کاش میں نے نوجوانی میں کوئی اچھا کام کیا ہوتا۔
قیامت کے دن اس نوجوانی کے متعلق سوال کیا جائے گا۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ:روایت ہے حضرت ا بن مسعود سے ،وہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے راوی فرمایا، قیامت کے دن انسان کے قدم نہ ہٹیں گے حتیٰ کہ اس سے پانچ چیزوں کے متعلق سوال کیا جائے گا، اس کی عمر کے بارے میں کہ کس چیز میں خرچ کی اور اس کی جوانی کے متعلق کہ کاہے میں گزاری، اس کے مال کے متعلق کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور اس میں عمل کیا کیا جو جانا۔ (ترمذی)
یہ حدیث قابلِ غور ہے۔ اس میں فرمایا گیا ہے کہ زندگی کے متعلق ایک سوال کیا جائے گا اور جوانی کے متعلق الگ سے ایک سوال ہوگا۔اگر ہم جوانی میں بھلائی کا کام کریں گے تو اس کا اثر بڑھاپے تک رہے گا۔اب اگر ہم خدا نخواستہ جوانی غلط کاموں میں گزاریں گے تو اس کا اثر بھی بڑھاپے تک رہے گا۔جب ہمیں یہ سوال پوچھا جائے گا کہ تم نے جوانی کن کاموں میں گزاری؟ ۔تم نے فحاشیات میں گزاری یا اپنے رب کی عبادت میں؟۔تو ہم کیا جواب دیں گے!
نوجوانی زندگی کا ایک سنہری مرحلہ(Golden period)ہوتا ہے۔اس میں ایک انسان کی زندگی بن بھی سکتی ہے اور بگڑ بھی سکتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس دنیا میں آج تک جو بھی انقلابات رونما ہوئے ہیں،ان میں نوجوانوں کا ایک اہم رول رہا ہےاور ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ انقلابات نوجوان نے ہی لائے ہیں۔قرآن کریم میں ایک مشہور واقعہ آیا ہے، یعنی اصحاب کہف کا واقعہ، ان کے متعلق قرآن مجید میں آیا ہے کہ وہ چند نوجوان تھے۔اس واقعہ سے ہمیں ان چند نوجوانوں کی ایمان کی مضبوطی نظر آتی ہے۔
نوجوان قوم کا ایک عظیم سرمایہ ہوتا ہے اور قوموں کے عروج و زوال کا دارومدار اسی عظیم سرمایہ پر ہوتا ہے۔ہمارے رہبر کامل حضرت محمد الرسول ﷲ صلﷲ علیہ وسلم نے جب مکہ مکرمہ میں اپنا نام کمایا تو اس وقت حضور صلﷲ علیہ وسلم نوجوانی کے عمر میں ہی تھے۔ نوجوانی کی عمر میں ایک انسان وہ کچھ کرسکتا ہے جو باقی پوری زندگی میں نہیں کرسکتا ہے۔اعلان نبوت کے ابتدائی دور میں حضور صلﷲ علیہ وسلم نے اپنے عزیز و اقارب کے لئے ایک دعوت کا اہتمام کیا۔جب سب عزیز و اقاریب دعوت پر آئے تو آخر میں حضور صلیﷲ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت پیش کی۔پورے مجموعے میں سے صرف ایک نوجوان نے اس دعوت پر لبیک کہا۔حضرت علی رضی ﷲ عنہ،حضرت علی رضی ﷲ عنہ اُس وقت کمسن تھے۔بعد میں اسی نوجوان نے خیبر میں اسلام کا علم لہرائی۔
آج کے نوجوان مجموعی طورپر کہاں اپنی نوجوانی صرف کرتے ہیں،کن کاموں میں اپنی جوانی ضائع کرتے ہیں۔شراب ،زنا ،جوا،باقی نشہ آور چیزیں استعمال کرکے آج کے نوجوان اپنی جوانی ضائع کرتے ہیں۔ہماری وادی میں نشہ آور چیزوں کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے اور وہ بھی نوجوانوں کی وجہ سے۔اگر ہم نوجوانی اسی طرح گزاریں گے جس طرح ہمارے اسلاف گزارتے تھے تو وہ دن دور نہیں جب اس روئے زمیں پر اسلامی انقلاب آئے گا۔
. جوانی کی قدر تب سمجھ آتی ہے جب ایک انسان سے یہ سنہری مرحلہ رخصت لیتا ہے۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ: ’’حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے ،وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، مالداری کو محتاجی سے پہلے، فراغت کو مشغولیت سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے‘‘( حاکم، علامہ البانیؒ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ملاحظہ کیجئے (صحیح الجامع للالبانی رحمہ اللہ ۱۰۷۷)اسی بات کو مد نظر رکھ کر علامہ اقبال فرماتے ہیں:یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا۔
جب ایک انسان نوجوانی کی عمر میں غلط کاموں میں لگ جاتا ہے،تو اس کے جسم سے نوجوانی میں ہی بڑھاپے کے آثار نمایا ہوجاتے ہیں۔ آج کے نوجوانوں میں آرام طلبی ،سستی و کاہلی بہت زیادہ نظر آتی ہے۔علامہ اقبال نے اسی بات کی ترجمانی کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:
تیرے صوفے ہے افرنگی ،تیرے قالیں ہے ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے نوجواں کی تن آسانی
گبھرانے کی کوئی بات نہیں!ہم اس وقت بھی اپنی زندگی بدل سکتے ہیں۔اگر نوجوانی کے دو یا تین سال ضائع بھی ہوئے،پھر بھی اگر ہم عہد کرینگے تو ہم دوبارہ اسی موڑ پر آسکتے ہیں جس موڑ پر ہم ہونے چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ناامیدی کو چھوڑ کرا ﷲ کی بارگاہ میں توبہ کرکے اپنی زندگی کو اللہ کی بندگی میں گزاریں۔
(رابطہ ۔9149897428)