فرحت ناز
جنگل قدرت کا ایک حسین چہرہ ہے جہاں سرسبز و شاداب درخت، جانور، جڑی بوٹیاں، مختلف انواع کے خوبصورت پرندوں کا گھر، سینکڑوں جنگلی حیات جیسے پرندے، شیر، مگرمچھ، ہاتھی ہرن وغیرہ ہیں۔ ان جنگلی جانوروں کی جِلد، ناخن، سینگ اور گوشت کے لیے شکار کیاجاتا ہے۔جنکا فیشن، بیوٹی اشیاء اور کئی مخصوص قسم کی ادویات میں استعمال ہوتا ہے۔اِنسان ان جانوروں کا شکار صرف اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کرتے ہیں کبھی کبھی تو ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ ان جانوروں کا شکار صرف تفریح کے لئے بھی کیا جاتا ہے جو کہ غیر ضروری ہے۔
حالانکہ اب سائنس اور ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب ان کی فراہمی دوسرے اختیارات کے ذریعے بھی پوری کی جا سکتی ہے۔ اس لیے جنگلی حیات کے انواع کے شکار کو روکنا جنگلی حیات کے تحفظ کے تحت آتا ہے۔ زمین پر جنگلی حیات اور ان کے مسکن کی حفاظت ضروری ہے، تاکہ ان کی آنے والی نسلیں بغیر کسی خوف کے زندگی گزار سکیں۔
3 مارچ کو ہر سال جنگلی حیات کا عالمی دن منانے کا مقصد دنیا بھرسے ختم ہونے والی جنگلی جانوروں کی نسلوں کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرنا ہے۔
اس وقت اگر بات ہندوستان کی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں جانوروں کی زیادہ ترنسلیں خطرے میں ہیں۔ اگر بروقت اس کا خیال نہ رکھا گیا تو صورتحال مزید خطرناک ہو سکتی ہے۔
تاہم سائنسدانوں نے 1960کی دہائی سے جانوروں کو تلاش کرنے اور ان کی نقل و حرکت کو ٹریک کرنے کے لیے ریڈیو ٹَیلی مَیٹری کا استعمال کر رہے ہیں۔ریڈیو ٹَیلی مَیٹری محل وقوع کا تعین کرنے کے لیے ریڈیو سگنلز کا استعمال کرتی ہے، جو پوشیدہ اور خاموش برقی مقناطیسی لہروں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں پہلا مکمل ریڈیو ٹَیلی مَیٹری کا مطالعہ 1983میں حیدرآباد میں وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے مگرمچرچھ ریسرچ سینٹر نے کیا تھا۔ اس نے دریائے چمبل میں 12مگرمچھوں کی نگرانی کے لیے ٹرانسمیٹر ڈیوائس لگائی۔ اس کے بعد ہندوستان میں اس طرح کے بہت سے علوم کا راستہ کھل گیا۔ایشیائی ہاتھی پہلا جانور تھا جسے 1985میں ہندوستان میں مدوملائی وائلڈ لائف سینکچری میں تحقیق کے لیے ریڈیو سے منسلک کیا گیا۔ بامبے نیچرل ہسٹری سوسائٹی کے آپریشن مسینا گوڈی نامی پروجیکٹ میں دو ہاتھیوں کو ریڈیو کالر لگائے گئے اور پھر ان کا پتہ لگایا گیا۔ اس کے بعد90کی دہائی کے اوائل میں،چیتے (Tigers)کے ماہرین اُلّاس کارنتھ نے باگھوں پر ریڈیو کالر کا استعمال کرتے ہوئے پہلا مطالعہ کیا، اس مطالعے کو ہندوستان میں کافی سراہا گیا۔
چارچیتے (Tigers)کو ان کے رویے اور ماحولیات کو سمجھنے کے لیے ریڈیو کالر لگائے گئے تھے۔ اس میں مغربی گھاٹ کے ملناڈ علاقے میں ناگرہول نیشنل پارک میں چیتے (Tigers) کیسے رہ رہے ہیں اس بارے میں معلومات حاصل کرنا بھی شامل ہے۔ اس کے بعد کی دہائیوں میں ریڈیو کالرنگ سے متعلق بہت سے مطالعے کیے گئے۔
حکومت کی کوششوں سے پچھلے کچھ سالوں میں چیتے(Tigers) کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے من کی بات پروگرام میں بتایا کہ کس طرح مصنوعی ذہانت کے ذریعے انسانوں اورچیتے (Tigers)کے درمیان تنازعات کو کم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ آرٹیفیشل انٹلی جینس (A.I) اس کے ذریعے مقامی لوگوں کوانکے موبائل فون پرچیتوں کی آمد سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ گاؤں اور جنگل کی سرحد پر کیمرے لگائے گئے ہیں۔
روٹر پریسیشن گروپ روڑکی، اتراکھنڈ نے وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے ساتھ مل کر ایک ڈرون تیار کیا ہے جو دریائے کین میں گھڑیالوں کا پتہ لگانے میں مدد کر رہا ہے۔ بنگلورو کی ایک کمپنی نے حال ہی میں ایک ایپ تیار کی ہے جس کا نام بگھیرا اینڈ گروڑا ایپ کے ذریعے جنگل سفاری کے دوران گاڑی کی رفتار اور دیگر سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ یہ ملک کے کئی چیتوں کیلئے استعمال ہو رہا ہے۔
مصنوعی ذہانت اور انٹرنیٹ آف تھنگزپر مبنی گروڑا ایپ کسی بھی سی سی ٹی وی سے منسلک ہونے پر ریئل ٹائم الرٹس حاصل کرنا شروع کر دیتا ہے۔
اپنے پروگرام من کی بات میں، وزیر اعظم نریندر مودی نے چھتیس گڑھ میں ہاتھیوں کے لیے شروع کیے گئے ریڈیو پروگرام ‘ہمارہاتھی ہمار گوٹھ کا بھی ذکر کیا تھا۔ سال 2017میں چھتیس گڑھ میں ہاتھیوں کی دہشت کو روکنے اور گاؤں والوں کو چوکنّا کرنے کے لیے آل انڈیا ریڈیو کے رائے پور مرکز سے پروگرام ‘ہمار ہاتھی-ہمار گوٹھ نشر کیاجا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں ریڈیو کتنا مضبوط میڈیم ہے اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چھتیس گڑھ میں ہاتھیوں کی معلومات کے لیے اس کا انوکھا اور شاندار پروگرام ہمار ہاتھی۔ ہمار گوٹھ سے لوگ مستفیض ہو رہے ہیں۔ لوگ جب شام کو کام سے اپنے گھرواپسی کے دوران ہاتھیوں کی موجودگی کا صحیح مقام معلوم کرنے کے بعد لوگ محفوظ راستے کا ستعمال کرتے ہیں۔ اسمیں آکاشوانی کا ہمار ہاتھی۔ ہمار گوٹھ پروگرام انکے لئے کافی معاون ثابت ہوتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اس پروگرام کی تعریف کی تھا۔ چھتیس گڑھ ریاست کے اس اقدام کو ملک کے دیگر ہاتھیوں سے متاثرہ علاقوں میں بھی آزما کر لوگوں کی جانوں کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔ اس بات سے یہ اندازہ لگایا جا سکا ہے کہ ریڈیو جنگلی حیات کو بچانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ جہاں ٹی وی دستیاب نہیں وہاں ریڈیو کے ذریعے آگاہی مہم کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ حکومت کی طرف سے چلائے جانے والے وائلڈ لائف (تحفظ) ایکٹ کے بارے میں معلومات کولوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ جنگلی حیات قدرت کی خوبصورتی کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اس لیے حکومت کی جانب سے جنگلی حیات کی تحفظ کی کوششوں کے ساتھ ساتھ یہ ہماری سماجی ذمہ داری بھی ہے کہ ہم ذاتی طور پر جنگلی حیات کے تحفظ میں اپنا حصہ بھی اداکریں۔
+91-8510849847
(مضمون نگار نیوز ریڈر، آکاش وانی دہلی ہیں)