جنگلی جانوروں کے حملے ،ذمہ دار کون؟

وادی سے شائع ہونے والے مقامی اخبارات میں آئے روز جنگلی جانوروں کے حملوں سے متعلق خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق جنگلی جانوروں کے حملوں میں اب تک کشمیر میں سینکڑوں لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔غور طلب ہے کہ اگر کشمیر کے جنگلات کو جنگلی جانور صدیوں سے اپنا مسکن بنائے ہوئے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران ہی یہ جنگلی جانور ان خونخواربن گئے کہ انہیں انسانوں کے لہو کا چسکا لگ گیا ہے جبکہ اس سے قبل اس طرح کی شکایت نہیں تھی۔ماہرین کے نزدیک انسانی آبادی میں جنگلی جانوروں کی یلغار کی سب سے بڑی جنگلی جانوروں کے مسکن میں انسانوں کی بیجا مداخلت اور ان گھر کو برباد کرنا ہے۔ جس عرصہ کے دوران جنگلی جانوروں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے ،اگر اس عرصہ کے دوران جنگلات کے کٹائو کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال بالکل واضح ہوجائے گی ۔یہ وہ عرصہ ہے جب لاقانونیت عروج پر تھی اور ہر سو جنگلات کا بے دریغ کٹائو جاری تھا۔جنگلات کے کٹائو سے ماحولیات کو نقصان پہنچنا فطری امر تھا لیکن جنگلی حیاتیات کیلئے یہ فوری طور پر دو چیلنج لیکر آیا ۔ایک یہ جنگلی جانور سرچھپانے کی جگہ سے محروم ہوگئے اور دوم یہ کہ جنگلات سے حاصل ہونے والی غذائیات کی شدید قلت پیداہوگئی ۔دونوں صورتیں انتہائی خطرناک ہیں اور یہ کسی بھی جاندار کو کسی بھی حد تک لیجاسکتے ہیں۔اگر ایک انسان کو گھر سے بے دخل کرکے غذا سے محروم کیا جائے تو وہ کس حد تک خونخوار بن سکتا ہے ،وضاحت طلب نہیں ہے اور اگر یہ کہانی کسی وحشی جانور کے ساتھ دہرائی جائے تو اس کا آدم خور بننا کوئی حیران کن بات نہیں ہے ۔اتنا ہی نہیں لوگوں نے جنگلات صاف کرکے ان پر آبادی قائم کی جس کے نتیجہ میں جنگلی حیاتیات اور انسانوں کے درمیان فاصلہ بہت کم ہوگیا اور تصاوم کے واقعات زیادہ پیش آئے ۔ نیشنل وائلڈ لائف کے 20نکاتی ایکشن پلان سے نہ صرف جنگلی جانوروں کے حملوں کے واقعات میں کمی لائی جا سکتی تھی بلکہ اگر حکومت اسے نافذ کرنے میں کامیاب ہو جاتی تو اس سے جنگلی جانوروں کی زندگی بھی بدل جا تی مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کا یہ پروجیکٹ بھی ناکامی کا شکار ہوا۔20نکاتی نیشنل وائلڈ لائف ایکشن پلان  و2016تک پورا کرنے کا منصوبہ تھاتاہم یہ منصوبہ ابتدائی ایام میں دم توڑ بیٹھا۔محکمہ وائلڈ لائف کے ممنوعہ ومحفوظ 16000 مربع کلو میٹر کے علاقہ میں ہزاروں انواع و اقسام کے4440 نباتات ، 571جانور، 73میمل(پستان دار جانور)، 358 پرندے،68اقسام کے زمین پر رینگنے والے جانور، 14انفیوین ،158بٹر فلائی، اور225اقسام کے حشرات الارض پائے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ محکمہ کے پاس 5 نیشنل پارک،14عالمی پناہ گاہیں اور 35 آبی پناہ گاہیں ہیں۔ان سب کے انتظام و انصرام کے لئے محکمہ کے پاس اب تک کوئی جامع اور منظم پالیسی نہیں تھی جس کے بعد محکمہ نے اپنے قیام کے 30سال پورے ہونے پر محکمہ کی تفصیلی کار کردگی کا جائزہ لینے کے بعداحتسابی کارروائی کے طور خصوصی 20نکاتی ایکشن پلان وضع کیا تھا جس کی تنفیذ کی صورت میں محکمہ 30سال کی ناقص کارکردگی کا ازالہ کر سکتا تھا۔مذکورہ ایکشن پلان میں جانوروں کے تحفظ، ماحولیاتی تحفظ،محکمہ وائلڈ لائف کی اراضی اور سیٹو کے تحفظ کے علاوہ پانی کی ذخیرہ اندوزی کو کلیدی اہمیت حاصل تھی۔پلان کے مطابق محکمہ کے علاقے کو وسعت دینا،ممنوعہ علاقہ کے لئے موثر مینجمنٹ،جن جانوروں اور پرندوں کا تیزی سے نابود ہونے کا خطرہ ہے، ان کے تحفظ کو یقینی بنانانیز ممنوعہ علاقے سے باہر نکل کرآبادی والے علاقوں میں آنے والے جانوروں کا تحفظ ان اہم معاملات میں شامل ہیں جن پر2009کے آخر تک کام شروع تھاتاہم یہ بھی صرف کاغذی گھوڑے ہی ثابت ہوئے اور زمینی سطح پر صورتحال ابھی بھی جوں کی توں ہے اور جنگلی جانور بھی انسانی آبادی میں آزاد گھوم رہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان حملوں کے نتیجہ میں جنگلی جانوروں کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی لوگوں کے ہتھے چڑھ گئی لیکن اگر ایسا بھی نہ ہوا ہوتا تو انسانی نقصان بہت زیادہ ہوتا۔موجودہ صورتحال میں محکمہ وائلڈ لائف اور محکمہ جنگلات پر یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جنگلی حیاتیات کی بقا ء کو یقینی بنانے کیلئے موثر اقدامات کریں کیونکہ ایسا کرنے سے جہاں حملوںکی شرح کم ہوگی وہیں جنگلات کا حسن دوبالا ہوگا جو مجموعی طور پر ریاست کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔