جنگلی جانوروں کی خونچکانی …حکومت بے بس کیوں؟

انسان اور جنگلی جانوروں کے مابین تصادم کا مسئلہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ اس عا لم ِ رنگ و بو کا وجوداور فریقِ اوّ ل نے ہمیشہ فریق ِ ثانی پر اس کی تمام تر وحشت ، خونخواری اور طاقت کے باوجود غلبہ پایا ہے۔لیکن بارہا پانسہ پلٹ بھی جاتا ہے اور غالب مغلوب ہو کر جنگلی جانوروں کی درندگی کا شکار ہو کر موت کے منہ میں پہنچ جاتا ہے۔ جنگلی درندوں کے بارے میں ما ہرین کا کہنا ہے کہ وہ تب تک انسانوں پر حملہ آور نہیں ہوتے جب تک انہیں اپنے لئے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا یا پھر دونوں کا براہِ راست آمنا سامنا نہیں ہوتا۔ یعنی ان کے لئے ایک طرح سے یہ بقا کی لڑائی ہو تی ہے اور یہ جبلت دنیا کی ہر زندہ شے میں پائی جاتی ہے۔ لیکن جب درندے اپنی فطری خوراک کے علاقوں کو چھوڑ کر بستیوں کا رخ کر کے انسانوں کا شکار کرنے لگتے ہیں تو یہ ایک تشویشناک اور غیر فطری رجحان ہے جس پر غور و فکر کرنا اور اس کے سدِ باب کے لئے اقدامات کرنا حکومت ، حکومتی ایجنسیوں ، انتظامیہ اور سول سو سائٹی کی یکساں ذمہ داری بن جاتا ہے ۔
دو روز قبل سرینگر کے بالائی علاقہ باغ مہتاب میں تیندوے کو دن کے اجالے میں گلی کوچوں میں گھومتے ہوئے دیکھاگیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جب شہر میں بھی جنگلی جانوروں کو دیکھاگیا ہو بلکہ گزشتہ ایک سال کے دوران کئی بار شہر اور ا س کے مضافات میں جنگلی جانوروں کو دیکھاگیا ہے جبکہ دیہات کا خدا ہی حافظ ہے لیکن وائلڈ لائف محکمہ اپنے روائتی انداز میں محض زبانی جمع خرچ پر اکتفا کر تا رہا اور ان تیندئوں کو آدم خور قرار دے کر انہیں پکڑنے یا دیگر کوئی پیش بندی عمل میں نہیںلائی جاتی ہے۔
واد ی اور جموں کے خطہ پیر پنچال ،خطہ چناب اور دیگر پہاڑی علاقوں سے بھی تیندئوں اور ریچھوں کی انسانی آ بادیوں میں در اندازی اور انسانوں پر حملوں و مویشیوں کو ہلاک کر نے کی خبریں مسلسل موصول ہو رہی ہیں اور اعداد و شمار کے مطابق ہر سال انسانی ہلا کتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔لیکن بد قسمتی سے حکومتی ایجنسیاں خصوصی طور پر محکمہ وائلڈ لائف ان فرائض کو انجام دینے میں ناکام ثابت ہو رہا ہے جس کے لئے اس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ محکمہ متعلقہ کے اہلکار متاثرہ مقام پر اس وقت پہنچتے ہیں جب یا تو جنگلی درندے اپنی کارروائی انجام دے کر فرار ہوچکے ہو تے ہیں یا مشتعل لوگوں کے انتقام کی نذر ہو چکے ہو تے ہیں۔
 یہ محکمہ عملی سے زیادہ نمائشی بن چکا ہے، جس کے پاس وافر تربیت یافتہ عملہ ہے اور نہ جنگلی جانوروں کو قابو کر نے کے لئے ضروری ساز و سامان موجود ہے۔ البتہ کبھی کبھار دیہی لوگوں کو جنگلی درندوں کے حملوں سے بچنے کے لئے کچھ گھسے پٹے ٹوٹکے ضرور سجھائے جاتے ہیں جن پر اگر عمل کیا جائے تو شاید دیہات میں روز مرہ کی زندگی کی تمام سرگرمیاں ختم کر دینی پڑیں گی۔ نہ تو لوگ مویشی پالیں گے ، نہ کھیتوں میں فصل بوئیں گے اور نہ گھروں سے باہر نکلیں گے۔ ایسی صورت میں یہ لو گ زندگی سے نباہ کس طرح کر پائیں گے ، اس پر شاید ان لا ل بھجکڑوں نے کبھی غور ہی نہیں کیا ہو گا۔ 
اس میں شک نہیں کہ ان درندوں میں سے کچھ ناپید ہو نے کے دہانے پر ہیں اورحیاتیاتی توازن بنائے رکھنے کے لئے ان کا تحفظ ضروری ہے لیکن یہ حقیقت بھی تسلیم کی جانی چاہئے کہ انسانی جانوں کے اتلاف کی قیمت پر ا یسا کرنایک غیر انسانی اور غیر فطری رویہ ہے جس کی اجازت شاید کوئی بھی مہذب سماج نہیں دے سکتا۔پہلی ترجیح انسانوں کا تحفظ ہونا چاہئے جس کے بعد جنگلی جانوروں کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔اس کے لئے سب سے پہلی ذمہ داری محکمہ وائلڈ لائف کی بنتی ہے کہ وہ انسانوں اور جانوروں کے تحفظ کے لئے قلیل مدتی اور طویل مدتی اقدامات کرے جس کیلئے اسے محکمہ جنگلات کی طرز پر اور اس کے تعاون سے ہر اس علاقہ میں اپنے تربیت یافتہ ملازمین تعینات کر نے چاہئیں، خاص کر جہاں جنگلی درندوں کی موجودگی پائی جاتی ہے اور ان کے بستیوں پر حملہ آور ہونے کے امکانات ہیں۔ یہ ملازمین ضرورت پڑنے پرمقامی انتظامیہ ، پولیس اور سول سو سائٹی کی مدد لے سکتے ہیں جبکہ پنچائتوں سے بھی لوگوں کو جنگلی جانوروں کے تحفظ اور ان سے بچائو کے لئے احتیاطی تدابیر سے متعلق جانکاری دینے کے لئے براہِ راست مدد لی جا سکتی ہے۔ ایک عام رجحان دیکھا گیا ہے کہ اگر کبھی محکمہ وائلڈ لائف نے کسی جنگلی جانور کو پکڑ بھی لیا تو اسے پھر اسی علاقہ میں چھوڑ دیا جاتا ہے، جو آئندہ دوبارہ خطرات کا باعث بنتا ہے۔ اس روش کو بدلنے کی ضرورت ہے اور اگر کوئی جنگلی درندہ آدم خور بن گیا ہو تو اس سے آئندہ ممکنہ نقصان سے بچنے کا یہی طریقہ ہے کہ اسے پنجرے میں بند کر دیا جائے ورنہ کہیں دور دراز کے وسیع جنگل میں چھوڑا جائے، جہاں اسے اپنی فطرت کے عین مطابق خوراک مل سکے۔