اسلامی نقطہ نظر سے انسانیت نے اپنے سفر کا آغاز تاریکی اور جہالت سے نہیں بلکہ علم اور روشنی سے کیا ہے۔ مرد ہو یا عورت ، امیر ہو یا غریب غرض ہر فرد کے لیے حصول تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔چونکہ تعلیم ہی کے نور سے انسان اپنے مقصد وجود سے آشنا ہوسکتا ہے۔ اخلاقی ، ادبی ، ذہنی و فکری نشود نما کا ماخذ تعلیم ہی ہے۔اس لیے علم کا حصول قوموں کی بقا کے لیے لازمی ہے۔حضرت علیؓ نے حضرت کمیلؓ سے فرمایا:’’ اے کمیل! علم دولت سے بہتر ہے، علم پاسبانی کرتا ہے اور دولت کی پاسبانی تمہیں کرنی پڑتی ہے اور علم حکمران ہوتا ہے اور دولت پر حکمرانی کی جاتی ہے اور دولت خرچ ہونے سے کم ہوتی ہے اور علم خرچ ہونے سے زیادہ ہوتا ہے۔‘‘علم کی اہمیت پر ابن مبارکؒ فرماتے ہیں:’’ مجھے اس شخص پر تعجب آتا ہے جو علم حاصل نہیں کرتا اس کے باوجود اپنے کو عزت کیے جانے کا مستحق سمجھتا ہے۔‘‘ اسلام میں علم کی اہمیت کا انداز اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں ایمان کے بعد علم ہی کو جگہ دی ہے چنانچہ کتاب الایمان میں ایمانیات سے متعلق احادیث جمع کرنے کے بعد ’’کتاب العلم‘‘ میں علم کے متعلق احادیث اور اخبارو آثار جمع کیے ہیں۔گویا علم فرد اور قوموں کو عزت و مراتب کی بلندیوں پر پہنچانے کا سبب بن جاتا ہے ۔ اُمت مسلمہ کی موجودہ ابتر حالت کا اگر باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو اس کے لیے بھی مسلمانوں کا علم کے خزانوں کی کنجیوں سے دستبردارہونے کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ہم نے مجموعی طور پر اللہ کی قدرت اور اُس کی بنائی ہوئی کائنات کی وسعتوں پر غور و فکر کرنا اور اس کے اسرار و رموز کو جاننے کے لیے عقلی مشق کو ترک کر دیا ہے اور اس خمیازہ پوری دنیا میں ذلت و رسوائی اور محکومی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
انسان کے لیے علوم پر دسترس حاصل کرنا وقت کی ضرورت ہے، جدید علوم میں تخصیص حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم کا جو بنیادی مقصد ہے اُس کو پیش نظر رکھنا بھی از حد ضروری ہے۔تعلیم کی اصل غایت یہ ہے کہ انسان اپنے پیدا کرنے والے کو پہچانے، اُن کے احسانوں کو مانے ، اپنے مقصد بعثت سے روشناس ہوجائے۔زندگی کے جس کسی بھی شعبے میں ہو اُن اعلیٰ اخلاق و اقدار کو ہرگز بھی فراموش نہ کریں جو اُسے باقی تمام مخلوقات سے ممتاز کردیتی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مادیت کے فریب میں آکر بہتر سے بہترمادّی کیرئیر کی دھن نے انسان کو اپنے اصلی و اعلیٰ فریضہ یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے لاتعلق کرکے رکھ دیا ہے۔انسان اپنے مقصد وجود کو پس پشت ڈال کر نفس کی فریب کاریوں کا شکار ہوگیا ہے۔ تعلیم کی اصل نوعیت بُری طرح سے بگڑ چکی ہے۔ جہاں تعلیم کی وساطت سے باشعور ، بلند حوصلہ ، سلیقہ مندہوکررب العزت کی پہچان لینا تھا ،وہاں رائج الوقت تعلیم آج کل کی نوجوان نسل کو بے عملی ، بد عملی غرض دین بیزاری کے جذبوں میں مستغرق کرچکی ہے۔
ایسا کیوں ہوا ہے؟ جس تعلیم نے انسان کو بلندیاں عطا کرنی تھیں وہی تعلیم و تعلم انسانیت کو پستیوں کے دلدل میں کیوں دھکیل رہی ہے؟ اس کے بہت ساری وجوہات میں سے ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں دینی اور دنیاوی تعلیم کو ایک دوسرے کی ضد سمجھا جاتا ہے ، مدارس میں جو تعلیم فراہم کی جاتی ہے وہ دینی، جبکہ اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں فراہم کی جانے والی تعلیم کو عصری علوم سے موسوم کیا جاتا ہے۔حالانکہ اسلام میں دینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم جیسی اصطلاحات کہیں موجود ہی نہیں ہیں۔ اسلام تمام علوم کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتا ہے۔رب کائنات کی پہچان اور انسانیت کی غمخواری ہی تعلیم کا ماحاصل ہونا چاہیے جیسے کہ قاضی امام یوسفؒ فرماتے ہیں:’’ لوگو! اپنے علم سے صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حاصل کرنے کی نیت رکھو۔‘‘علم کی تقسیم کے اس فتنہ کے بارے میں مولانا ضیاالدین اصلاحی اپنی کتاب ’’مسلمانوں کی تعلیم‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ:’’یورپ کے سیاسی غلبہ و تسلط نے دین و دنیا کی تقسیم کا ایسا فتنہ پیدا کیا کہ علوم و مدارس کی بھی دو قسمیں ہوگئیں اور جدید و قدیم کا ایسا شاخشانہ کھڑا ہوا کہ ان میں ہر وقت کشمکش و نزاع برپا رہتی ہے لیکن مسلمانوں کے عروج و اقبال کے زمانے میں مدارس ایک ہی طرح کے ہوتے تھے اور وہ ہر طرح کے علوم کے لیے کافی ہوتے تھے، علما ان کو پڑھ کر سلطنت کے بڑے بڑے عہدوں پر بھی فائز ہوتے تھے اور اپنے کاروبار بھی کرتے تھے، اپنی دوکانوں پر بھی بیٹھتے اور دوسرے ذرائع معاش سے بھی وابستہ رہ کر علوم دین کے سرچشموں سے سیراب ہوتے تھے لیکن یورپ کی غلط تقسیم سے مدارس دو طرح کے ہوگئے ہیں، ایک کو دینی مدارس کہا جاتا ہے جو دین یا علوم معاد کی تعلیم کے لیے مختص ہوکر رہ گئے ہیں اور دوسری نوعیت کے مدارس و جامعات عصری و دنیاوی علوم یعنی علوم معاش کے لیے خاص ہوکررہ گئے ہیں۔‘‘
علوم کی یہ تقسیم دراصل ہماری اپنی تنگ نظری اور کند ذہنی سے وجود میں آچکی ہے اور نتیجتاً عصری اداروں سے فراغت حاصل کرنے والی نوجوان نسل بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود دین کے بنیادی اُمور سے ناواقف ہوتے ہیں۔ وہ دین کو محض چند مذہبی روایات کا نام دیتے ہیں ،اور اُن کے خیال میں زندگی کے باقی معاملات میں دین کا کوئی عمل دخل ہی نہیں ہے۔اِسی طرح دینی اداروں میں اسلامی علوم کی مہارت حاصل کرنے والے طلباء دینی مسائل پر عبور حاصل کرنے کے باوجود دنیا میں جنم لینے والے بیشتر فتنوں سے بے خبر رہتے ہیں کیونکہ اُن کے نصاب میں انسانی دنیا میں وقوع پذیرہونے والے حالات اور سر اُبھارنے والے فتنوں اور چیلنجوںمیں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کے بارے میں کچھ نہیں ہوتا ہے۔اَس تفریق نے دونوں علوم کے درمیان خلیج پیدا کررکھی ہے ۔
ہمارے یہاں رائج عصری نظام تعلیم میں مادیت ، لذت پرستی اور استعماریت جیسے فاسد نظریات نے خاص مقام پالیا ہے اور یہ فکر پروان چڑھ رہی ہے کہ تعلیم حاصل کرکے ہماری نسلیں دو چار پیسے کمانے کے قابل ہوجائیں گی۔ گرچہ عصری اداروں میں بھی دین کو مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے تھی مگر حال یہ ہے کہ اِن اداروں میں دین کی بنیادی تعلیم کا بھی کوئی تصور نہیں ہے۔ ہماری نوجوان نسل کی فطرت نوکریوں اور پیسہ کمانے کے علاوہ کچھ اور بھی تقاضا کررہی ہے۔ اور یہ جبھی ممکن ہے جب اُن کی پرورش اور تربیت میں الہامی تعلیمات کو پیش نظر رکھا جائے۔ حکیم اُمت علامہ اقبالؒ کا بھی خیال یہی تھا کہ اسلام ہماری زندگی اور تعلیم کا مقصد ہونا چاہیے۔ اُنہوں نے خواجہ غلام سعدین کو ایک خط میں لکھا تھا کہ :’’علم سے میری مراد وہ علم ہے جس کا دارومدار حواس پر ہوں ، عام طور پر میں نے علم کا لفظ اِن ہی معنوں میں استعمال کیا ہے ، اس علم سے وہ طبعی قوت ہاتھ آتی ہے جس کو دین کے ماتحت رہنا چاہیے، اگر یہ دین کے تحت نہ رہے تو محض شیطانیت ہے ، مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ علم کو مسلمان کرے۔‘‘عصری و دینی علوم کے سنگم کے لیے علمائے اسلام شروع سے ہی فکر مند رہے ہیں امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ’’طلبہ فقہ تو پڑھتے ہیں لیکن طب، ہندسہ کوئی نہیں پڑھتا ، ‘‘اس لیے انہوں نے لوگوں کو دین کے ساتھ ساتھ دوسرے علوم حاصل کرنے کی جانب بھی راغب کیا ہے۔
ہماری نوجوان نسل میں دین بیزاری کی ایک اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ والدین اپنے اولاد کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو نظر انداز کررہے ہیں۔ اُن کے نزدیک دینی تعلیم کی اہمیت نا ہونے کے برابررہ گئی ہے۔ چنانچہ وہ اپنی تمام تر توانیاں ، وسائل وغیرہ اپنے اولاد کی عصری تعلیم پر صرف کرتے ہیں ،اس کام کو انجام دینے کے لیے وہ ہر طرح کی مشقت برداشت کرتے ہیں ۔ دن رات محنت مزدوری کرکے وہ اپنی اولاد کو دنیا دار اور دنیاوی کامیاب زندگی کے لیے اپنا سب کو کچھ داؤ پر لگا لیتے ہیں ، پھر اُن کی یہی اولاد اپنے والدین کو دُھتکار دیتے ہیں ، بیٹا باپ کی گریباں پکڑنے اور ماں کو گھر کی دہلیز سے باہر نکال دینے میں بھی عار محسوس نہیں کرتا اور لڑکیاں اپنی ماؤں سے ایسی بات کرتی ہیں کہ جیسے اُنہوں نے اُن کی کوکھ سے جنم نہیں لیا ہو بلکہ وہ اُن کی نوکرانیاں ہوں۔اللہ کے کلام و احکامات سے دوری نوجوان نسل کو اندر ہی اندر ایک ایسے ناسور میں مبتلا کررہی ہیں جس کا خمیازہ والدین کو خصوصاً اور پوری ملت کو عموماً بھگتنا پڑتا ہے۔ کیونکہ قرآن ہی ہماری دنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی کا ضامن اور مکمل دستورحیات ہے۔ والدین کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ دینی و اخلاقی تعلیم سے آراستہ کریں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’باپ کا اپنے بچے کو کوئی ادب سکھانا ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے، کوئی باپ اپنے بچے کو اس سے بہتر کوئی عطیہ نہیں دے سکتا کہ وہ اس کو اچھی تعلیم دے۔‘‘
(جاری)