سید مصطفیٰ احمد
میں بڑی معذرت کے ساتھ یہ بات لکھ رہا ہوں کہ وزیر اعلیٰ جناب عمر عبداللہ اور اس کی کابینہ کے وزراء، خاص کر محترمہ سکینہ ایتو، نے تعلیمی سیشن کو تبدیل کرتے ہوئے اول جماعت سے لے کر نویں جماعت تک کے امتحانات مارچ ۲۰۲۵ میں منعقد کرنے کے بجائے دسمبر ۲۰۲۴ میں منعقد کروانے کے فیصلے سے طلباء کی زندگیوں میں پریشانیوں کے دروازے کھول دے ہیں۔ میں ایک عام شہری ہونے کے ناطے یہ بات جموں و کشمیر کی حکومت کے سامنے رکھنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ کیسے لوگوں کے مسلسل مطالبات کو مدنظر رکھتے ہوئے مگر معصوم اور بےبس طلباء کی امنگوں کو پاؤں تلے دباتے ہوئے جلدبازی میں ایسا فیصلہ لیا گیا کہ بیشتر طلباء دلاب میں ہیں کہ کیسے سالانہ امتحانات میں اچھے نمبرات سے پاس کرکے گھر والوں کے علاوہ سماج کی توقعات پر بھی کھرا اترا جائے۔ جب ہم پورے حالات کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ اس فیصلے سے طلباء میں خوشی کم مگر انتشار زیادہ پیدا ہوا ہے۔ ۲۰۲۴ میں طلباء نے پچھلے کلاس کے امتحانات پاس کرنے کے علاوہ نئی جماعت میں بھی قدم رکھیں اور اب اگلی جماعت میں بھی داخل ہونی کی تیاریاں زور و شور سے جاری و ساری ہیں۔ میں قاریوں سے سوال کرتا ہوں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طالب علم ایک ہی سال میں ایک سے زیادہ جماعتوں کا امتحان بھی دے اور اس بات پر کھرا اتر سکے کہ ہاں! اس نے اس جماعت کی بنیادی باتوں کا صحیح سے ادراک کر لیا بھی ہوں۔ اس بچے میں critical thinking اور looking above the surface کا مادہ پیدا ہوا ہے۔ نویں جماعت کے طلباء کا حال بیان کرتے ہوئے مجھے ہنسی کے علاوہ دکھ بھی ہوتا ہے۔ پہلے تو ان کے آٹھویں جماعت کے سالانہ امتحانات لگ بھگ ایک مہینے تک چلتے رہے۔ کھینچتے کھینچتے ان طلباء نے لگ بھگ اپریل کے آخر پر اور مئی کے ابتدائی دنوں میں نئی جماعت میں داخلہ لیا۔ آج ہم نومبر ۲۰۲۴ میں سانس لے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تعطیلات اور دوسری قسم کی افراتفری کو نظرانداز کرکے ان بےبس طلباء نے صرف پانچ مہینے کی تعلیم حاصل کی ہیں۔ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کیسے پانچ یا چھ مہینوں میں نویں جماعت کا سیلابس مکمل ہوسکتا ہے۔ Mathematics اور Science کا سیلابس اتنا پھیلا اور conceptual-based priorities کا حامل ہیں کہ ایک ایک نقطے کو سمجھانے میں ہفتوں کے ہفتے درکار ہیں۔ لیکن یہاں ہمیشہ الٹی گنگا بہتی ہے۔ لوگ کی جائز مطالبات کے سامنے ہمیشہ حکومت نے ایسے فیصلے صادر کئے ہیں کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔ تعلیمی سیشن بھی اسی زنجیر کی ایک کڑی ہے۔
چھ سالوں کے بات بننے والی حکومت کو سب سے پہلے جو چیز دکھائی پڑی وہ تعلیمی میدان ہے۔ کچھ دنوں کی بنی ہوئی سرکار نے اپنے پیر بھی نہیں سنبھالے تھے کہ بیشتر طلباء کو شش و پنج میں ڈالنا ان کا حسین مشغلہ بن گیا۔ ایک ہی آن میں ۲۰۲۲ کی طرح ایسے فیصلے عوام کے سامنے واشگاف الفاظ میں بیان کئیں کہ اب ہم چھپ بھی نہیں رہ سکتے اور نہ ہی بےجا مخالفت کر سکتے ہیں۔ میں خود ایک طالب علم ہونے کے ناطے کشمیر میں افراتفری کے درمیان تعلیم حاصل کرنے کے ادوار سے گزرا ہوں۔ نصف سیلابس کے ساتھ میں نے کئی جماعتوں کو پاس کیا ہے۔ Guess papers کے سہارے میں نے the most important questions کی ایسی لمبی تاویلیں پیش کی ہیں کہ اساتذہ بھی حیران ہوجاتے ہیں۔ اس بےباکی کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔ افراتفری لگتا ہے ہمارے نصیب میں ہے۔ جب بھی اس زمین کے ٹکڑے پر امن و سکون کی ملائم ہوائیں چلنی لگتی ہیں، عین اسی وقت خزاں اپنے لمبے ڈھیرے اٹھائے سارے چمن کو تباہی کے منہ میں دھکیل دینا ہے۔ اب چھ سالوں کے بعد حکومت بنی تھی۔ اب لگ بھگ سارے لوگ خوشیاں منا رہے تھے کہ آخرکار اپنی حکومت نے جنم لیا ہے، اب ہمارے مسائل کا کسی حدتک ازالہ ہوجائے گا۔ لیکن حکومت نے میرے حساب سے کسی سے پوچھے بغیر اور all-encompassing attitude کو بالائے طاق رکھ کر بیشتر طلباء کو پریشانیوں کے حوالے کردیا۔ فیصلے پر دستخط کرنے سے پہلے ایک جامع نظام کو ترتیب دیا جانا چاہیے تھا تاکہ انتشار کے مواقع کم ہو۔ واضح الفاظ میں ہر نکتے کی وضاحت کرنا حکومت کی ترجیحات میں ہونا چاہیے تھا۔ مہنگائی اور بےچینیوں کے عالم میں جی رہے کشمیری والدین کچھ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر یہ کیا ہورہا ہے۔طلباء کی زندگیوں میں پہلے سے ہی رکاوٹوں کے ڈھیر ہیں۔ Cut-throat competition نے بہتوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ میں خود کچھ طلباء کو پڑھاتا ہوں، ان کی افسردہ زندگیوں سے میں کماحقہ واقف ہوں۔ لاکھوں کی تعداد میں طلباء پڑھ رہے ہیں لیکن مواقع بہت محدود ہے۔ Industrialization کی مار کے بعد اب Generative AI کی مار باقی ہے۔ انسان کے پیٹ پر آخری لات مارنے کے لیے یہ اعلیٰ قسم کی مصنوعی ذہانت کافی ہے۔ اب حکومتوں کا دھیان capital-intensive jobs کے بجائے labour-investive jobs پر مرکوز ہیں۔ اس کی خالص وجہ ہے پڑھے لکھے بےروزگار نوجوان اور جوانوں کی بڑی تعداد۔ ان حالات میں ایسے اقدامات اٹھانا کہ جس سے frustration کے بڑھنے کے مواقع زیادہ ہو بے معنی نظر آتا ہے۔ اب میں اور کتنا بولو اور کیا کیا بولو۔ کس کس بات پر زیادہ زور دے کر گلا پھاڑ پھاڑ کر اپنی آواز اُن وزراء تک پہنچاؤں جو خود حالات کے مارے ہوئے ہیں۔ اصل میں جیسے کہ اس بات کا اوپر کا ذکر گیا ہے، ہمارے ساتھ بھی ایسے ایسے حادثے تعلیم کے نام پر ہوئے کہ میں سوچتا ہوں کہ دوسرے طلباء کے ساتھ ایسا نہ ہو۔ تیس سال کی زندگی گزارنے کے بعد بھی ہمیں پرائمری درجے کی کتابوں کا مطالعہ پھر سے کرنا پڑتا ہے تاکہ ان خامیوں کی بھرپائی ہوسکے جو خامیاں تعلیم کے پہلے سالوں میں ہماری زندگیوں میں رہ گئی تھیں۔
اپنی بات کو اختتام پر پہنچا کر میں وزیر تعلیم سے درخواست کرتا ہوں، مہربانی کرکے اس سال کے طلباء پر ترس کھائیں۔ سب سے زیادہ ترس آٹھویں جماعت کے طلباء پر کھائیں۔ان کے سیلابس میں کچھ کٹوتی کی جائے کیونکہ وہ چکے کے دو پاٹوں میں سب سے زیادہ پس رہے ہیں۔ یہ کٹوتی کچھ دنوں میں ہی لوگوں کے درمیان آنی چاہیے تاکہ آٹھویں جماعت کے معصوم طلباء سکون سے سالانہ امتحانات کے لیے تیاری کریں۔ وہ بوجھ کے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان پر رحم کھاکر syllabus میں کچھ فیصدی کی کٹوتی کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دوسرے طلباء کی بھی ضروریات کو مدنظر رکھا جائے۔ اس کے علاوہ یہاں کے تعلیمی نظام میں سدھار لانے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔ Audit اور cross-examination کے parametres کا چلن عام ہونا چاہیے۔ ایک کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے جو حالات پر گہری نظر رکھتی ہوں۔ ان کو موجودہ زمانے کی ضروریات سے لیس کرے۔ ان کی موجودگی جموں و کشمیر کے ہر کونے میں یقینی بنائیں تاکہ وہ ایک think tank کا کام کرے۔ پورے نظام کو overhaul کرنے کی اشد ضرورت ہے اور تعلیمی سیشن کی تبدیلی بھی اسی زنجیر کی ایک کڑی ہے۔ اور جاتے جاتے ایک ضروری بات وہ یہ ہے کہ مستقبل میں سوچ سمجھ کر تعلیم کے متعلق فیصلے لیے جائیں۔طلباء کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے intellectuals اور academicians سے صلح مشورہ کرکے ہی
فیصلوں پر دستخط کئے جائیں۔ اگر اس مضمون سے کسی بھی شخص کی دلآزاری ہوتی ہے، میں اس کے لئے معافی چاہتا ہوں۔ میرا مقصد کسی کو ہدف تنقید بنانا نہیں ہے۔ میری طرف سے ایک چھوٹی سی کوشش کی گئی ہے تاکہ بات اعلیٰ حکام تک پہنچے اور وہ بھی جذبات اور بھیڑ کی رو میں بہنے سے مستقبل میں پرہیز کرے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے!
(رابطہ:۔ 7006031540)
[email protected]