عمر فاروق
شعور کی آنکھ کھولتے ہی انسان اپنے گرد و نواح میں موجود لوگوں اور مختلف اشیاء کو پہچاننا شروع کرتا ہے اور عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس عمل میں پُختگی کا عُنصر بھی شامل ہوجاتا ہے ۔اس دنیا میں ہر حسّاس ذہن کا حامل انسان اس کائنات کے وجود کے متعلق اپنے ذہن کو حیراں و پریشاں پاتا ہے تا وقتیکہ اسے ان سوالات کا تسلی بخش جواب ملے جو اس کے ذہن میں اُبھرتے ہیں۔اگر انسان کا رشتہ وحیِ الٰہی سے اُستوار ہو تو وہ جلد ہی خودی اور خُدا کی معرفت حاصل کرتا ہے اور اگر وہ ’’ من ہستم ‘‘ کے پِندار میں مبتلا ہوکر صرف اپنی عقل کے گھوڑے ہی دوڑانے میں لگا رہے تو وہ کبھی بھی کمالِ معرفت یعنی توحیدِ باری تعالیٰ کا ادراک نہیں کرسکتا اور دنیا جہاں کا علم پڑھنے کے بعد بھی اس کی تشنگی برقرار رہے گی اور دلِ بے قرار کی بے قراری میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔ علامہ محمد اقبال نے کیا ہی خوب لکھا ہے :
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنيا ميں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پيچ ميں الجھا ايسا
آج تک فيصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کيا
زندگي کی شب تاريک سحر کر نہ سکا !
ڈاکٹر الطاف حسین یتو صاحب بھی اسی معرفت کی راہ کے راہی ہیں جو کئی سالوں سے اپنے سیّال قلم اور مضبوط فکر کے ذریعے تشنگانِ علم و معرفت کو سیراب کرنے کے لیے کوشاں ہیں ۔اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر چند ماہ پہلے ان کی منظرِ عام پر آنے والی کتاب ’’ تجلیّاتِ معرفت‘‘ کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔موصوف محکمۂ اعلی تعلیم میں بطورِ اسسٹنٹ پروفیسر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور ان چند خوش نصیب اہلِ علم میں سے ہیں جنہوں نے قلم و قرطاس کے ساتھ اپنا رشتہ قائم رکھا ہے، ورنہ یہاں عموماً مروجہ تعلیمی اداروں سے ’’پی ایچ ڈی‘‘ اور دینی مدارس سے ’’درسِ نظامی‘‘ کی تکمیل کے بعد بھی لوگ قلم اٹھانا ہی بھول جاتے ہیں اور یوں پڑھے لکھے جاہلوں کی رجسٹر میں اپنا نام درج کرتے ہیں۔
۲۳۰ صفحات پر مشتمل اس کتاب کو ولر پبلشنگ ہاؤس نے اعلی طباعت کے ساتھ شائع کیا ہے۔اس میں مصنف نے مختلف اوقات میں لکھے گئے ۳۳ مضامین کو عمدہ ترتیب کے ساتھ جمع کیا ہے۔اس کتاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کے مضامین میں تنوّع پایا جاتا ہے اور یوں مصنف نے مختلف عنوانات پر خامہ فرسائی کی ہے ۔کتاب میں قرآنِ مجید ‘ حدیث ‘ سیرت ‘ علم الکلام ‘ فلسفہ اور شعر و ادب کے نمونے جابجا نظر آتے ہیں۔متقدمین میں وہ جہاں ابنِ اسحاق ‘ ابن کثیر ‘ امام غزالی ‘ ابن العربی ‘ ابن ہشام اور مولانا رومی وغیرھم سے استفادہ کرتے نظر آتے ہیں تو وہیں متاخرین میں مولانا ابوالکلام آزاد ‘ مولانا سید ابوالاعلی مودودی ‘ مولانا وحیدالدین خان ‘ علامہ محمد اقبال اور ڈاکٹر علی شریعتی جیسے اہلِ علم و فکر کے افکار کی چھاپ بھی مختلف مضامین پر نظر آتی ہے۔فاضل مصنف کو جہاں اردو زبان و ادب پر عبور حاصل ہے تو وہیں ان کا مطالعہ بھی کافی وسیع ہے۔
’’ میں خانۂ سُخن کا گدائے قدیم ہوں
ہر رنگ کی شراب پیالے میں ہے میرے ‘‘
اس کتاب کے اکثر مضامین اگر چہ فلسفیانہ انداز میں لکھے ہوئے ہیں البتہ مصنف نے اپنے ان خیالات کو ادیبانہ طرز دیا ہے، جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔ فاضل مصنف کس عمدگی کے ساتھ اپنے ما فی الضمیر کو بیان فرماتے ہیں ‘ ملاحظہ فرمائیں :’’ در اصل جہلِ مرکب کے مریضوں نے سید الانبیاء کے اعلانِ بعثت کے ساتھ ہی اپنے آپ کو علم کے زعمِ باطل میں صرف اس وجہ سے مبتلا کیا کہ نورِ حق سے ان کے دلوں کا انشراح تو نہیں ہوسکا ‘ لیکن ان کی آنکھیں ضرور چندھیاگئیں ۔حسد و عناد نے ان کے سینوں کو کچھ اس طرح سوختہ کیا کہ وہ اسی آگ میں اندر ہی اندر جل بھن گئے۔ نورِ حق نے جہاں اپنی ضیاء پاشی سے ان گنت لوگوں کی راہوں کو روشن کیا وہاں عقل کے ان اندھوں کی بصارت اسی روشنی سے سلب ہوگئی۔ جہاں آوازۂ حق کی گونج نے اوروں کی رہنمائی کی وہاں ان کی سماعت اسی آواز پر ختم ہوگئی اور اور یہ لوگ دھرے کے دھرے رہ گئے ( صفحہ ۳۷)
ہمارے معاشرے میں عموماً تقوی کو چند مظاہر میں قید کیا جاتا ہے اور خدا کی نافرمانی میں بڑے بڑے اونٹ نگلنے والوں کو صرف اس وجہ سے پروانۂ نجات تھما دیا جاتا ہے کہ وہ مچھروں کو بڑے ہی احتیاط سے چھاننے کا ہنر جانتے ہیں ۔مگر فاضل مصنف کو اس طرزِ فکر سے اختلاف ہے اور وہ تقویٰ کو ایک ہمہ جہت رویہ قرار دیتے ہیں۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں : ’’ یہ تو ایسا رویہ جو پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ کسی خاص وضع قطع کا نام ہے اور نہ ہی کسی امتیازی شکل و صورت اختیار کرنے کو اہمیت دیتا ہے۔تقویٰ دراصل انسان کو اتنا حسّاس اور سنجیدہ بنادیتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ہر پل احساسِ خداوندی میں گزارنا سکیھ جاتا ہے۔تقویٰ انسان کے ہر عمل کو آخرت رُخی اور خُدا رُخی بنا دیتا ہے۔انسان کسی بھی راہ پر چلے لیکن اس کا زادِ راہ ہمیشہ تقوی ہوتا ہے۔‘‘ (صفحہ :۱۰۹ )
فاضل مصنف کا ماننا ہے کہ جس طرح انسان کا چہرہ اس کے دماغ کا اشاریہ ہے ( Face is the Index of Mind ) ٹھیک اسی طرح اگر چہرے کا بھی کوئی اشاریہ ہے تو وہ جبین ہی ہے۔اس بات کو بنیاد بنا کر انہوں نے ’’جبینِ نیاز اور دلنشین شخصیت کے خد و خال ‘‘ کے عنوان سے ایک بہترین مضمون رقم فرمایا ہے جو کہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔زندہ قومیں اپنی تاریخ کو یاد رکھتی ہیں اور اس سے حاصل شدہ تجربات کی روشنی میں آگے کا سفر طے کرتی ہیں۔وہیں مردہ قومیں اپنی تاریخ سے نابلد رہتی ہیں اور یوں بار بار پرانی غلطیوں کا اعادہ کرکے ذلت و خواری کو اپنا انجام بنا دیتی ہیں۔جہاں اسلاف پرستی ایک مذموم عمل ہے ‘ جس کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی ہونی چاہیے وہیں اسلاف شناسی اور ان کی قدردانی ایک محمود عمل ہے، جس کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ڈاکٹر صاحب بھی اپنے مضامین میں محسنینِ کشمیر شاہِ ہمدان حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی اور شیخ العالم شیخ نور الدین نوارانی کو نہیں بھولے ہیں اور ان عظیم شخصیات پر کئی عمدہ مضامین رقم فرمائے ہیں ۔
مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی صاحب نے اپنی کتاب ’’نقوشِ اقبال ‘‘ میں علامہ اقبال کی شخصیت کی تعمیر میں مولانا جلال الدین رومی کی ’’ مثنوی ‘‘ کو بھی ایک اہم عُنصُر قرار دیا ہے۔فاضل مصنف نے دونوں شخصیات پر بہت عمدہ مضامین لکھے ہیں ۔
حسن انظر صاحب نے کتاب کے آغاز میں اگر چہ رقم فرمایا ہے کہ ڈاکٹر الطاف صاحب کا اسلوب پہلے خواص پسند لگتا تھا اور اس پر ’’ابوالکلامیت ‘‘کا غلبہ تھا۔میرا ماننا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا اسلوب ممکن ہے کہ اب پہلے سے سہل ہو مگر بہرحال مطالعہ کا ذوق رکھنے والے ہی ان مضامین کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔جس قاری کا ذوقِ مطالعہ ابھی ابتدائی نوعیت کا ہو ‘ کئی مقامات پر بہت ساری باتیں اسکے سر سے اوپر گزریں گی۔مجھے یوں محسوس ہوا کہ فاضل مصنف کا یہ اسلوب فطری ہے اور اس میں تصنّع اور غیر ضروری لفّاظی نہیں ہے، لہٰذا انہیں اسی طرح لکھتے رہنا چاہیے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مصنف کی مساعیِ جمیلہ کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے، ‘ انہیں زیادہ سے زیادہ علم و ادب کی خدمت کی توفیق دے اور ہمارے قلب و نظر کو بھی اپنی معرفت کے نور سے منور کرے۔آمین
برگِ درختانِ سبز در نظر ہوشیار
ہر ورقے دفتریست ‘ معرفتِ کِردگار