عبدالرحمن مخلصؔ جو ۷مارچ ۲۰۱۴اس دارِ فانی سے عقبیٰ کی طرف کوچ کرگئے۔آج کئی روز سے اس فکر میں تھا کہ اُن پر ایک طویل مضمون لکھوںلیکن اسے میری بدقسمتی سمجھئے کہ غمِ روزگار سے فرصت نہ ملی ، میر ی یہ خواہش صفحئہ قرطاس پر نہ آسکی اورمیں اپنے قلبی جذبات کو الفاظ کا جامہ پہنانے سے رہا۔اب کچھ لمحوں کے لئے اپنی ذاتی مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر ان سطور کو رقم کررہا ہوں،جن کو لکھنے سے اگرچہ میں اپنے مدعا اور مقصد کو نہ پہنچ پائوں لیکن دل کی تسکین کاسامان تو کرسکتا ہوں۔ ؎
دل کے بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے
عبدالرحمن مخلص ؔ قلم کے دھنی تھے ۔مخلص محض اُن کا تخلص (psudonym)نہ تھا بلکہ ان کی تحریروں سے اُن کا اخلاصِ نیت نمایاں ہے۔وہ صنفِ انشائیہ اور افسانہ پر غضب کی پکڑ رکھتے تھےبلکہ حق تو یہ ہے کہ اُن کی تحریروں میں جو چاشنی اور لطف ہے ،وہ اُن کی لطیف شخصیت کا غماز ہے۔وہ زہرِہلاہل کو قند کہنے قائل تھے اور نہ لوگوں سے داد وتحسین وصول کرنے کے خواہاں ۔انہوں نے حق کو ہمیشہ حق ہی کے روپ میں پیش کیا ہے ۔اُن کے قلم میں ضربِ کلیمی کی تاثیر تھی کہ سماج میں پنپ رہی ہر برائی پر ایسی ضرب لگائی ہے کہ حق اور باطل کو بالکل واضح کردیا ہے۔بقول اقبالؒ۔ ؎
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نہ ابلۂ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِہلاہل کو کبھی کہ نہ سکا قند
عبدالرحمن مخلصؔ کی تحریروں میں انسان کی سماجی زندگی کو محور کی حیثیت حاصل ہے۔اُنہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے ہر شعبہ کی بگڑی صورت کو آئینہ دکھایا ہے ۔آپ اُن کی کوئی بھی تصنیف اُٹھا کر دیکھ لیجئے وہ ادیب کم اور ناصح زیادہ نظر آتے ہیں،گویا کہ وہ ایک انسان شناس قلم کار تھے۔
انشائیہ اور افسانہ اگرچہ مرحوم کی محبوب اصناف رہی ہیںلیکن وہ ایک اعلیٰ پایہ کے تنقید نگار بھی تھے۔اُن کی تصنیف ’’سر شہنائی کے‘‘ اُن کی ایک بہترین تنقیدی کاوش ہے۔اس تصنیف میں انہوں نے جناب رفیق رازؔ کے کشمیری شعری مجموعہ’’نَے چھے نالاں‘‘کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔اسی طرح اُن کی دوسری تصنیف ’’سخن ہائے گفتنی‘‘اُن کی ایک عمدہ تنقیدی کاوش ہے۔جس میں مختلف تنقیدی مضامین کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنا وہ تنقیدی مقالہ بھی شامل کیا ہے،جو موصوف نے سن ۲۰۰۰ میںاقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر یونیورسٹی کی جانب سے منعقدہ دوروزہ سیرتی سیمنار میں پڑھاتھا۔مذکورہ مقالہ میں مرحومؔ نے اقبالؒ کے تصورِ عشق کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے لفظ’’عشق‘‘ پر جوسیر حاصل بحث کی ہے وہ اُن کی اقبال شناسی اور علمی قابلیت کو خوب درشاتی ہے۔انہوں نے اہلِ تصوف کی عشق سے متعلق خود ساختہ توجیہات پر جرح کرتے ہوئے صوفیاء کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں’’وائے بدنصیبی !روح اسلام’’عشق‘‘کو یار لوگوں نے لونڈی سمجھ لیا۔صوفی اور شاعر نے اسے لپک کر لے لیااور اپنی پسند کا رنگین لباس پہنا کر جھروکے میں بٹھا دیا۔عوام النّاس اس کی رنگینیوں کو دیکھ کر مچلنے لگے۔جب وہ کچھ زیادہ ہی بے قرار ہوئے تو صوفی نے اپنے انداز میں اور شاعر نے اپنے انداز میں اُن سے کہا،جو چاہے وہ اس پری پیکر کو حاصل کرسکتا ہے۔لیکن شرط یہ ہے کہ وہ پہلے قرآن و حدیث کی نفی کرے،صوم و صلوٰۃ کو تج دے،بھنگ اور شراب پی کربد مست ہوجائے، گھرگرہستی اور دنیا کاطوق گلے سے اتار پھینکے‘‘(سخن ہائے گفتنی۔صفحہ؍10)۔اقبال کی عشق پرستی سے متعلق اُن کی رائے البتہ قدرے مختلف ہے۔وہ خود لکھتے ہیں’’اقبال کا عشق مومنانہ ہے صوفیانہ نہیں‘‘۔
راقم الحروف اگر چہ ’’عشق‘‘ کی اصطلاح کے تئیں شدیداختلاف رکھتا ہے تاہم مخلصؔ مرحوم کی علمی اور تحقیقی کاوش کابے حد احترام کرتا ہوں۔اُن کا یہ تحقیقی اور تنقیدی مقالہ اب تک بیسیوں بار پڑھ چکا ہوں۔انہوں نے بہت ہی عمدہ انداز میں اقبالؒ کے تصورِ عشق پر روشنی ڈالی ہےبلکہ اگر یہ کہوں کہ انہوں نے اقبال کی عشق پرستی کی صحیح تصویر کھینچی ہے تو بیجا نہ ہوگا۔چنانچہ علامہ اقبال کے فرزند ارجمد ڈاکٹر جاوید اقبال نے بھی مخلصؔ کے نام ایک مکتوب میں انہیں لکھاہے کہ ’’آپ نے واقعی حضرت علامہ اقبال ؒ کے تصور عشق کی خوب وضاحت کی ہے‘‘۔آپ کویہ بھی بتادوں کہ عبدالرحمن مخلصؔہر اُس تصور اور عمل سے بے زار تھے جوصراطِ مستقیم سے دوری کا سبب بنے۔
بہرحال مخلصؔ مرحوم کی تصانیف میںاس کے علاوہ اُن کا پہلا ناول ’’سنگ دل باپ‘‘ اور پھر ’’دعوتِ فکر‘‘’’زندگی کے رنگ‘‘اور ’’پروائی‘‘خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔جموں و کشمیر کلچرل اکادمی مرحوم پر ’’شیرازہ‘‘ کا ایک گوشہ شائع کرنے جارہا ہے۔جو فی الحال ز یر طباعت ہے۔