مختار احمد قریشی
تعلیم ایک ایسا ذریعہ ہے جو انسان کی شخصیت کو نکھارنے، کردار سازی اور فکری ترقی کے لیے بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن تعلیم کا مقصد صرف نصابی علم فراہم کرنا نہیں بلکہ ایسی فضا قائم کرنا ہے جس میں ہر بچہ اپنی صلاحیتوں کو پہچان سکے اور آزادانہ طور پر اپنی زندگی کے فیصلے لے سکے۔ والدین کا کردار اس عمل میں سب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ بچے کی پہلی درس گاہ اس کا گھر ہوتا ہے۔آج کل کے والدین اپنے بچوں کو ضرورت سے زیادہ سہولت فراہم کر رہے ہیں۔ دس سال کے بچوں کو خود نہانے کی اجازت نہ دینا، انہیں اپنے کپڑوں کے بٹن اورجوتے کے تسمےخود باندھنے نہ دینا، ان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہونے سے روکتا ہے۔ یہ رویہ بچوں کو عملی زندگی میں خود کفیل ہونے سے باز رکھتا ہے۔ ہم اپنے بچوں کے لیے ہمدردی اور محبت کا مظاہرہ تو کرتے ہیں، لیکن اُن کی شخصیت کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری عملی اقدامات کم کرتے ہیں۔
والدین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر چھوٹا بچہ اپنی عمر کے مطابق مختلف ذمہ داریاں انجام دے سکتا ہے۔ پانچ سال کا بچہ اپنے کھلونے سمیٹ سکتا ہے، سات سال کا بچہ اپنا بیگ تیار کر سکتا ہےاور دس سال کا بچہ اپنے کپڑے پہن سکتا ہے۔ لیکن اکثر والدین ان آسان ذمہ داریوں کو خود انجام دے کر بچوں کو ان کے کاموں سے بے نیاز کر دیتے ہیں۔
ہمارا معاشرتی رویے اکثر بچوں کو انفرادی زندگی گزارنے سے روکتا ہے۔ والدین کو اس بات پر زور دینا چاہیے کہ بچے اپنی زندگی کے چھوٹے چھوٹے فیصلے خود کریں، مثلاً کیا پہننا ہے، کون سے کھیل کھیلنے ہیں یا اسکول میں کون سے موضوعات پر زیادہ توجہ دینی ہے۔ لیکن اس کے برعکس والدین اپنی مرضی بچوں پر تھوپ دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں بچے اپنی صلاحیتوں کو مکمل طور پر بروئے کار نہیں لا پاتے۔والدین کو چاہیے کہ بچوں کی ہر مانگ کو قبول کرنے کے بجائے ان کے مطالبات کے جائز اور ناجائز ہونے کا فیصلہ کریں۔ اگر بچہ کوئی غیر ضروری یا نقصان دہ چیز مانگے تو اُسے سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ کیوں ممکن نہیں۔ اس کے بجائےاگر وہ کوئی تعلیمی یا تخلیقی چیز مانگے تو اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔بچوں کو اُن کی عمر کے مطابق روزمرہ کے کاموں کی ذمہ داری دیں تاکہ وہ خود مختاری کا تجربہ حاصل کریں۔اُن کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ اپنے فیصلے خود کریں اور ان کے نتائج کو سمجھیں۔ والدین کو خود بھی عملی زندگی میں خود انحصاری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ بچے ان سے سیکھیں۔
بچوں کی تعلیم صرف اسکول تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔بلکہ گھر کے اندر ایسا تعلیمی ماحول تشکیل دیا جائے جہاں بچے سوال کرنے، تحقیق کرنے اور تخلیقی طور پر سوچنے کی حوصلہ افزائی محسوس کریں۔ والدین بچوں کے لیے مثالی کتابیں فراہم کریں اور ان سے متعلقہ موضوعات پر تبادلہ خیال کریں تاکہ ان کا شعور وسیع ہو۔اکثر والدین بچوں کو غلطیاں کرنے سے روکنے کے لیے زیادہ محتاط رہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ غلطیاں انسان کے سیکھنے کا اہم ذریعہ ہیں۔ بچوں کو اپنی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کے نتائج کا سامنا کرنے دیں تاکہ وہ اپنی زندگی میں درست فیصلے لینے کے اہل بن سکیں۔والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو اپنی زندگی کے معمولی فیصلے خود کرنے دیں۔ جیسےکہ کون سے کپڑے پہننے ہیں؟کون سا مضمون زیادہ دلچسپ ہے؟فارغ وقت میں کون سا کھیل کھیلنا ہے؟یہ چھوٹے فیصلے بچوں کی زندگی کے بڑے فیصلوں میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔گویا اُن میں
ایسی عادات پروان چڑھائیں جو خود انحصاری کو فروغ دیں۔والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو زندگی کے بنیادی کاموں میں شامل کریں، جیسے،اپنی الماری کی ترتیب کرنا،اپنے کھانے کے برتن دھونا،اسکول بیگ تیار کرنا، یہ عادات نہ صرف خود انحصاری کو فروغ دیتی ہیں بلکہ بچوں کے اندر ذمہ داری کا احساس بھی پیدا کرتی ہیں۔
والدین بچوں کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ اگر والدین خود کفیل ہوں، نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں اور محنتی ہوں تو بچے خود بخود ان کے نقش قدم پر چلیں گے۔ لیکن اگر والدین خود اپنے روزمرہ کے کام دوسروں پر چھوڑ دیں تو بچوں کو یہ سیکھنے کا موقع نہیں ملتا کہ خود مختاری کیا ہوتی ہے۔ والدین کو خود ان عادات کا مظاہرہ کرنا چاہیے جو وہ بچوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ بچوں کی محنت اور کامیابی کی تعریف کریں تاکہ وہ مزید بہتر کارکردگی دکھانے کی تحریک محسوس کریں۔ بچوں کے ساتھ نہ بہت زیادہ سختی کریں اور نہ ہی بے جا نرمی برتیں۔ متوازن رویہ بچوں کی شخصیت کو بہتر بناتا ہے۔
جدید دور کی تعلیم کا مقصد بچوں کو تخلیقی، تحقیقاتی اور مسائل حل کرنے والا بنانا ہے۔ لیکن والدین کا کردار یہاں بھی بہت اہم ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی روایتی سوچ کو بدلیں اور بچوں کے لیے تعلیمی سہولتیں فراہم کریں جو ان کی دلچسپی کے مطابق ہوں۔ٹیکنالوجی آج کے دور کا اہم حصہ ہے، لیکن اس کا درست استعمال سیکھنا بھی ضروری ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو تعلیمی ایپس اور گیمز فراہم کریں۔ٹیکنالوجی کا زیادہ استعمال کرنے سے بچائیں اور جسمانی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کریں۔تعلیم کا ایک اہم مقصد بچوں کے جذباتی پہلوؤں کی پرورش کرنا بھی ہے۔ صرف عقلی یا ذہنی نشوونما کافی نہیں بلکہ بچوں کے جذبات کو سمجھنا اور ان کی دیکھ بھال کرنا بھی ضروری ہے۔
بچے اکثر اپنے جذبات کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے۔ والدین کو ان کے رویے کو سمجھنا چاہیے اور ان کے جذبات کا احترام کرنا چاہیے۔والدین اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں، ان کی دلچسپیوں کو سمجھیں اور ان کی باتوں کو اہمیت دیں۔ یہ عمل بچوں کے اندر خود اعتمادی پیدا کرتا ہے۔اگر بچے کسی کام میں ناکام ہو جائیں تو اُن پر تنقید کرنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کریں اور اُنہیں دوبارہ کوشش کرنے کا موقع دیں۔تعلیم جو سب کے لیے لسانیات پیدا کرے، وہی اصل تعلیم ہے۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ بچوں کو زندگی کی حقیقتوں کے لیے تیار کریں، ان کی خود مختاری کو فروغ دیں اور انہیں جذباتی طور پر مضبوط بنائیں۔ معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی اور بچوں کی پرورش کے روایتی طریقوں کو جدید تعلیمی اصولوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں ہر فرد اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر بنا سکے بلکہ دوسروں کے لیے بھی مثال بن سکے۔
رابطہ۔8082403001
[email protected]