بوجھ افسانہ

خوشنویس میر مشتاق

تعلیم سے فارغ ہوتے ہی شازیب منہ لٹکائے اپنا بوریا بسترا گول کرکے گھر جانے کی تیاریوں میں مصروف عمل تھا ۔ کتابوں سے پُر بیگ کاندھوں پہ لٹکاکر سیدھے سُومو اسٹینڈ جا پہنچے ۔ بستر سُومو کی چھت پر رکھ کر خود بیچ والی نشست پر آکر بیٹھ گیا۔ سُومو روانہ ہونے میں ابھی چند منٹ باقی تھے جب تک شازیب پاس ہی میں ایک دُکان پر ٹھنڈا پینے لگا۔ ابھی بوتل کا ڈھکن کھولنے ہی والا تھا کہ ڈرائیور نے ہارن بجا کر شازیب کو اشارہ کیا اور شازیب سُومو میں بیٹھ کر اپنے منزل کی اور روانہ ہو گیا۔
سومو روانہ ہوتے ہی سواریاں ایک دوسرے سے محو گفتگو ہونے لگیں ۔ ایک شازیب ہے جو منہ لٹکائے اپنی بیچ والی نشست پہ اُداس بیٹھا تھا ۔ چہرے سے اُداسی کے آثار خوب ٹپک رہے تھے۔ معلوم نہیں گھر جانے کی فکر کھائی جا رہی تھی یا دوستوں سے جدائی کا غم کھائے جا رہا تھا۔ شازیب کے چہرے سے جو اُداسی کی کیفیت نمایاں تھیں اس کو محسوس تو کیا جا سکتا تھا لیکن ان کا اظہار ایک مشکل امر تھا۔
آخر نا چاہتے ہوئی بھی شازیب کو دوستوں کی سنگت کو خیرباد کہنا پڑا۔ کچھ رشتے محض وقتی ہوتے ہیں، وقتی ہی سہی لیکن ہوتے بڑے ہیں عزیز۔۔۔!!!
دو تین گھنٹے کا سفر بڑی آسانی سے طے ہوا تھا۔ شازیب کے گھر والے بیٹے کے استقبال میں پہلے سے ہی منتظر بیٹھے تھے ۔ پورا محلہ کونوں کھدروں سے دیکھ رہا تھا۔ کہ فلاں کا بیٹا یونیورسٹی سے پڑھائی کرکے آنے والا ہے۔ بیٹے کو دیکھ کر گھر والے خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے ۔ ایسے موقعوں پر خوشیوں کا مظاہرہ کرنا ایک فطری بات تھی ۔
گھر والوں سے سلام و دُعا کے بعد شازیب اپنے کمرے میں چلے گٸے۔ جسم تھکن سے چور تھا اور دل پر ایک بوجھ سا محسوس ہو رہا تھا۔ کچھ دیر آرام کرنا چاہتا تھا۔ ابھی آنکھ لگنے ہی والی تھی کہ دفعتاً دروازے پر آکر کسی نے دستک دی۔
’’بھائی! امی چائے کیلئے پوچھ رہی ہے۔ چائے وہیں آکر پئیں گے یا بہیں کمرے میں لاکر دو۔‘‘
’’ کیا ہوا ؟ تم لوگ ٹھیک سے آرام بھی نہیں کرنے دیتے ہو۔ یہاں بندہ تھوڑی دیر کیلئے چین سے بھی نہیں رہ سکتا۔ میں ابھی بہت تھکا ہوا ہوں تھوڑا سا آرام کرکے میں خود ہی آئوں گا۔ اور پلیز۔ تب تک مجھے تنگ مت کرنا۔ ‘‘
کچھ دیر آرام کرنے کے بعد شازیب فریش ہو کر کچن میں داخل ہوا ۔ سب گھر والے کچن میں سہہ پہر کی چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ شازیب کے کچن میں داخل ہوتے ہی سب گھر والے ایسے خاموش ہو گئے۔ جیسے کوئی سانپ سونگھ گیا ہو۔
والد :۔ ’’ آئو بیٹا ! میرے پاس آکر بیٹھو ۔ ‘‘
’’ آپ کے آنے سے قبل ہم آپ کی ہی باتیں کر رہے تھے۔ماشا اللہ سے آپ اتنے بڑے اِدارے سے تعلیم حاصل کرکے آئے ہیں ،یہ نہ صرف ہمارے لئے فخر کی بات ہے بلکہ پورا محلہ عَش عَش کرنے لگا ہے۔
اب آگے کا کیا پلان ہے۔۔۔۔۔؟؟؟؟والد نے شازیب سے پوچھا لیا۔
’’کیا مطلب ! آگے کا کیا پلان ہے میں سمجھا نہیں۔‘‘شازیب پریشان سا ہوا۔
دیکھو بیٹا ! میں اب گھر کے اخراجات اٹھا اٹھا کر تھک سا گیا ہوں ۔ میرے کہنے کا مطلب صاف ہے۔ اب آپ نے ہی گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنی ہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب تم کوئی جاب وغیرہ کرو گے۔ ‘‘
شازیب :۔ ابو ! میری خواہش ہے کہ میں مزید پڑھائی کروں۔ میرا مطلب ہے پی ۔ ایچ۔ ڈی وغیرہ ۔۔۔۔۔۔!!!
شازیب کی بات ابھی مکمل بھی نہ ہوئی تو والد نے بیچ میں اُس کی بات کاٹ کر اُس کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
’’ دیکھو بیٹا ! تمہیں اس بات کا کچھ احساس ہے کہ تمہاری پڑھائی پر ابھی تک کتنا خرچہ آیا ہے۔ تم تصّور بھی نہیں کر سکتے ہو۔ تمہاری پڑھائی کے اخراجات پورے کر کر کے میں قرض کے بوجھ تلے دب گیا ہوں ۔ جن لوگوں سے میں نے قرضہ لیا ہے اُن سے میں اب نظریں بھی نہیں ملا پا رہا ہوں ۔ میری اتنی اوقات نہیں ہے کہ میں تمہیں مزید پڑھا سکوں۔ بس بیٹا ! اتنا پڑھنا کافی ہے۔ اب تمہیں صرف نوکری کا سوچنا چاہیے۔ جب تک سرکاری نوکری کا کوئی انتظام نہ ہو جائے تب تک کوئی پرائیوٹ جاب ہی کر لو تاکہ میری کچھ امداد ہو جائے۔‘‘
پڑھائی کو لے کر جو ارمان شازیب اپنے دل میں بسائے پھر رہا تھا والد کی ضد کے آگے اپنی اس نیک خواہش کا آخر گلا گھونٹنا ہی پڑا اور سر تسلیم خم کرکے والد کی بات کو اہمیت دینی پڑی۔
شازیب :’’میں جاب کا کیا کہہ سکتا ہوں۔ ابھی ابھی تو میں یو نیورسٹی سے فارغ ہوا ہوں اتنی جلدی میں جاب کہاں سے لائوں گا۔ کوئی فارم بھر کر ہی تو جاب ممکن ہو سکتی ہے ایسے کیسے جاب مل سکتی ہے۔ یہاں کے حالات کا تمہیں پتہ تو ہے کہ میرے جیسے ہزاروں کی تعداد میں پڑھے لکھے بے روز گار گھروں میں نکّمے بن کر بیٹھے ہیں۔ ویسے بھی یہاں کے ناقص نظام کا کوئی بھروسہ نہیں ہے، جو پڑھے لوگوں کو اسامیاں پُر کرنے کے نام پر سبز باغ ہی دکھا رہاہے ۔ اور اگر خُدا نخواستہ کچھ اسامیاں نکل بھی جائیں ان اسامیوں کے امتحان دینے کیلئے لڑکوں کو سالوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ رہی بات پرائیوٹ اسکولوں کی، رہی سہی کسر وہ پورے کرتے ہیں۔ پرائیوٹ اسکول میں بھی جاب کا ملنا محال سا ہو گیا ہے۔ اگر تم کہتے ہو تو میں کسی پرائیوٹ اسکول میں جاب کرکے تمہارے کاندھوں کا بوجھ کچھ حد تک کم کر سکتا ہوں۔ جب تک ان شا ٕ اللہ مستقل نوکری کا بھی کچھ نہ کچھ حل نکل آئے گا۔“
والد :۔ ” یہی تو میں تمہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔“
شازیب یہ کہہ کر کچن سے نکل کر سیدھے اپنے دوستوں سے ملنے کیلئے چلے گئے۔ دوپہر دیر تک دوستوں کو یونیورسٹی اور ہوسٹل کے قصے سناتے رہے۔ باتوں باتوں میں وقت کا کچھ اندازہ ہی نہیں رہا۔ گھر سے مُسلسل فون بجتے جارہے تھے لیکن شازیب باتوں میں اس قدر مگن تھے کہ فون کا کچھ پتہ بھی نہ چلا۔ شازیب جوں ہی گھر پہنچے ۔ والد نے بھنویں ماتھے پر چڑھا رکھی تھی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی شازیب والد کی نوکدَار باتوں کا نشانہ بنے۔
والد :۔’’ بیٹا ! ابھی تم کو آئے ہوئے ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا۔ تم ابھی سے آوارہ گردیاں کرنے لگے ہو۔ یہ جو تم دیر تک آوارہ دوستوں کے ساتھ مل کر چِھچھوری حرکتیں کرتے پھر رہے ہو، یہ اب تمہارے شایانِ شاں نہیں ہے۔ صبح سے تم گھر سے غائب ہو ۔ تمہیں کچھ احساس ہے کہ نہیں ۔ میں نے تمہیں اس لئے نہیں پڑھایا کہ تم دیر گئے تک اپنے آوارہ گرد دوستوں کے ساتھ گپیں ہانکتے رہو۔ کم از کم گھر کے کسی کام میں ہمارا ہاتھ بٹاتے۔ لیکن ! نہیں تمہارے تو عیش ہی ختم نہیں ہوتے۔‘‘
شازیب :۔ ’’ ابو ! آج بہت عرصے بعد دوستوں سے ملا ہوں باتوں باتوں میں وقت کا کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔ آئندہ خیال رکھوں گا۔ “
والد :۔ ” دیکھو بیٹا ! میں کب تک گھر کے بوجھ تلے دبا رہوں گا۔ آخر تم نے ہی تو اس گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنی ہیں۔ گھر کے اخراجات تبھی پورے ہو سکتے ہیں جب تم میرا کوئی کام کرو گے۔ میں اکیلا انسان کب تک گھر کے مسئلوں میں اُلجھتا رہوں گا۔ ‘‘
والد کے کہنے پر شازیب کئی سال تک پرائیوٹ اسکول میں برائے نام نوکری کرتا رہا ۔ گھر کے مسئلوں میں کسی حد تک کمی تو آگئی تھی لیکن شازیب کا مزید نہ پڑھنا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ خیر ! قسمت کے آگے بھلا کس کی چلتی ہے ۔ شازیب اور اس کے گھر والوں کا پرائیوٹ جاب سے کسی حد گھر کے مسلوں کا اِزالہ تو ہوا ہے لیکن بد قسمتی سے شازیب اس پرائیویٹ اسکول سے تنگ آکر اس جاب کو ہی خیر باد کہنے پر مجبور ہو گیا ہے۔
شازیب کے ساتھ ساتھ ان کے گھر والے بھی شازیب کی نوکری کو لے کر سخت پریشان ہیں۔ جاب چھوڑنے کے بعد کوئی شازیب سے سیدھے مُنہ بات بھی نہیں کرتا۔ شازیب بیچارہ کرے بھی تو کیا کرے۔ آج کل کے دور میں نوکری ملنا جوئے شیر لانے سے کم نہ ہے۔
حیران و پریشان شازیب دن بھر دوستوں کے ساتھ رہ کر بالآخر شام کو تھک ہار کے گھر پہنچ ہی جاتا ہے ۔ لیکن بیچارے کو گھر میں بھی کہاں چین نصیب ہے ۔ گھر پہنچتے ہی گھر والوں سے روز طعنے سننے پڑتے ہیں۔ والد اور دوسرے گھر والوں کی جلی کٹی باتیں روز سننی پڑتی ہیں۔ ۔گھر والے ہی کیا گھر کے باہر بھی ایرے غیرے مذاق مذاق میں بے روزگاری کے ڈنک مار ہی دیتے ہیں ۔ بے روز گاری کے طعنے بھی ایسے لوگوں کی زبانی سننے پڑتے ہیں جو کسی گنتی میں بھی شمار نہیں ہوتے ۔ شازیب کو اِن باتوں سے اب کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کیونکہ شازیب ایسی باتیں سننے کے عادی بن چکے تھے۔
شازیب کا لگاتار گھر سے باہر رہنا گھر والوں کو سخت ناگوار لگتا ہے۔ ایک روز شازیب ٹھیک دو پہر کے کھانے پر گھر آگئے تو والد نے بڑے ہی سخت لہجے میں شازیب کو اپنی طرف مخاطب کیا۔۔۔۔!!!
والد :۔’’ تمہیں کچھ شرم بھی آتی ہے کہ نہیں ۔ تمہاری عمر کے سب لڑکوں کو نوکری مل گئی ہے۔ پورے گاؤں میں صرف تم ہی بےروزگار اور نکّمے بیٹھے ہو۔ پورا دن تم گھر سے باہر رہتے ہو اور گھر بھی اسی وقت آتے ہو جب مفت کی روٹیاں توڑنی ہوتی ہیں۔ اس سے بہتر تھا کہ تم پیدا ہی نہ ہوتے ۔ ایک تو میں گھر کا بوجھ اٹھا اٹھا کر تنگ آچکا ہوں اوپرسے تم جیسے پڑھے لکھے بے روزگارکا بوجھ بھی میرے سر ہی آن پڑا ہے۔ ‘‘
شازیب بیچارہ یہ سب باتیں سن کر دم بخود ہو گیا ہے۔ والد کے روز روز کے طعنے سننے کے بعد شازیب کی آنکھوں سے موتیوں کی طرح آنسو چھلک پڑے۔ شازیب کی تذلیل گھر والوں کا روز کا معمول بن چکا تھا ۔ روز روز کی ذلّت سے بیچارہ شازیب بھی کافی تنگ آچکا ہے۔ والد کی بے تکی باتیں سننے کے بعد شازیب بیچارہ آنکھوں میں آنسو لئے اپنے کمرے میں چلے گئے اور کمرہ اندر سے لاک کرکے زور زور سے چِلانے لگے۔۔۔!!!

���
ایسو اننت ناگ، کشمیر
موبائل نمبر؛ 9682642163