ڈاکٹر جگ موہن سنگھ،جموں
بلراج بخشی (پیدائش: 10دسمبر1949ء وفات: 29 نومبر 2024 ء )جموں کشمیر کی ایک کثیرالجہت ادیب اور دانشور تھے۔ان کا اصل نام بلراج کمار بخشی تھا لیکن بلراج بخشی کے قلمی نام سے مشہور ہوئے۔ ان کی ولادت 10دسمبر1949ء کوہوئی تھی۔اصل میں ان کا تعلق پونچھ (مقبوضہ پاکستان) سے تھا لیکن ہجرت کا سانحہ بلراج بخشی اور ان کے خاندان کوبھی جھیلنا پڑا۔ اِدھر اُدھر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد آخر کار جموں کشمیر کے ضلع اُدھمپور(ادھرش کالونی) میں مکمل طور پر سکونت پذیر ہو کر اُردو زبان و ادب کی گراں قدر خدمات انجام دیتے رہے۔ شاعری، افسانہ نگاری اور تحقیق وتنقید کے علاوہ صحافتی خدمات کے حوالے سے ان کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ شاعری میں وہ جدید رُجحان کے حامل تھے، نِت نئے موضوعات شامل کرنا ان کی شعر گوئی کی خوبی تھی۔ اسی طرح بلراج بخشی نے عصرحاضر کے سیاسی ،سماجی ، تہذیبی اور اخلاقی موضوعات کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ ان کے افسانوی مجموعہ ’’ایک بوند زندگی‘‘ (2014) میں ایسے کئی افسانے ہیں جن کو بلراج بخشی سے پہلے کسی اور نے نہیں چھوا تھا۔ نئے طبی ایجادات اور عدالتوں میں ہونے والی بے انصافیوں کو انہوں نے اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ بنیادی طور پر بلراج بخشی ایک ایسے ادیب تھے جن کی علمی اور ادبی شخصیت کے کئی پہلو ہیں تھے۔ انہوں نے ’’آسانیات‘‘(2020-2021) کے عنوان سے دو جلدوں میں ایک غیر روایتی لغت بھی لکھی ہے۔جس میں آج کے زمانے میں استعمال ہونے والے بعض کلیدی الفاظ، تراکیب اور اصطلاحات کی آسان لفظوں میں معنی و مفہوم کے ساتھ وضاحت کی ہے۔ بلراج بخشی عرصہ قبل سے ایک ادبی رسالہ ’’زبان و بیان‘‘ بھی شائع کر رہے تھے لیکن اپنی بیماری کی وجہ سے وہ یہ رسالہ جاری نہ رکھ سکے۔اردوزبان و ادب کے معتبر ادیبوں، نقادوں اور شاعروں مثلاً: کرشن کمار طور،پروفیسر قدوس جاوید، پروفیسر احمد علی جوہر، پروفیسر ارتضیٰ کریم ، پرتپال سنگھ بیتاب،نور الحسنین، وحشی سعید،صادقہ نواب سحر،پروفیسر اسلم جمشید پوری ، ڈاکٹر اجے مالوی اورسہیل انجم وغیرہ کی تخلیقات بھی رسالہ’’ زبان و بیان‘‘ کی زینت بن چُکی ہیں۔ ان کی تازہ ترین تصنیف (شعری مجموعہ) ’’مٹی کے موسم‘‘ کے نام سے 2021 ء میں منظر عام پر آئی ہے۔اس کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلراج بخشی کی شاعری کسی خاص رجحان یا نظریہ تک محدود نہیں ہے۔’’مٹی کے موسم‘‘ میں شامل غزلیں اور نظمیں اْردو غزل و نظم کے ہر موسم کا ساتھ نبھاتی نظر آتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، ان کے یہاں کلاسیکیت بھی ہے، ترقی پسندی بھی اور جدید و ما بعد جدید ادبی تصورات کے سائے بھی۔ مثال کے طور پر دو اشعار درج ذیل ہیں :
ماضی و حال کے ہر غم سے سبکدوش رہوں
ہوش میں آنے سے بہتر ہے کہ بے ہوش رہوں
جان کر بھی نہیں پہچانتے ہیں لوگ اگر
یہی اچھا ہے کہ میں خود سے بھی روپوش رہوں
’’مٹی کے موسم‘‘ میں نظمیں بھی ہیں اور غزلیں بھی۔ چھوٹی اور بڑی ہر طرح کی بحر میں غزلیں ملتی ہیں۔ زبان و بیان پر بے پناہ قدرت کے سبب بلراج بخشی کے شعر میں معنی کے علاوہ کیفیت اور تاثر کے بھی دائرے بنتے ہیں۔ بلراج بخشی یہ جانتے ہیں کہ کس طرح کے موضوع کے لیے کیسے الفاظ کا انتخاب کرنا چاہیے۔ اس لیے کتاب میں شامل غزلوں میں اور نظموں میں موضوعاتی تنوح بھی ہے اور اسلوبیاتی انفرادیت بھی۔’’مٹی کے موسم‘‘ میں غزلوں کی طرح نظموں میں بھی انفرادیت ہے۔ موضوع اور اسلوب کے اعتبار سے ان کی ایک نظم ” قرض ” بے حد اہم ہے۔ جس میں انھوں نے آج کے انسان کو اپنے اجداد کے اعمال کا قرض دار بتایا ہے اور یہ تاثر دیا ہے کہ اپنے آبا و اجداد کے نقش قدم پر چل کر ہی ہم اپنی آئندہ نسلوں کے لیے کوئی روشن راہ کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔بلراج بخشی کی ایک نظم ’’میرے گناہ سبھی‘‘ پابند نظم کی عمدہ مثال ہے۔ لیکن اس نے نظم میں غزل کا انداز بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ نظم کے یہ چارمصرعے قابل توجہ ہیں :
دعائیں آپ کی ہیں بدعائیں میری ہیں
جفائیں آپ کا حق ہے وفائیں میری ہیں
خلوص و دوستی اور اعتماد و پاس قرار
یہ لغزشیں ہیں مری یہ خطائیں میری ہیں
جہاں تک بلراج بخشی کی افسانہ نگاری کا تعلق ہے وہ ریاست جموں و کشمیر کے واحد ایسے افسانہ نگار ہیں جنہیں واضح طور پر جدید اور مابعد جدید افسانہ نگار کہا جا سکتا ہے۔ بلراج بخشی جتنے معتبر شاعر ہیں اتنے ہی بڑے افسانہ نگار بھی۔ ان کا افسانوی مجموعہ ’’ایک بوند زندگی‘‘ 2014ء میں برسوں کی ریاضت کے بعد شائع ہوا ہے۔ اس مجموعے میں شامل سبھی 12 افسانوں کے عنوانات کے مطالعے سے ہی اندازہ ہوتا
ہے کہ یہ افسانے جدیدیت سے آگے کے افسانے ہیں کیوں کہ ان افسانوں میں عصری سماجی اور ثقافتی اقدار کی بدلتی ہوئی تصویر کی پیشکش ملتی ہے۔ ان کے افسانوں میں موضوع کے ساتھ ساتھ الفاظ کا بھی ایک نیا لسانی برتاؤ ملتا ہے۔اکیسویں صدی کا افسانہ اپنی فکری اور تخلیقی انفراد کی وجہ سے روایتی اور کلاسیکی کہانیوں سے قصہ گوئی کی ایک الگ صورت ہے جس میں افسانہ کی بنیاد کسی مخصوص کردار یاواقعہ پر نہیں بلکہ منفرد وژن پر رکھی جاتی ہے اس لیے کہانی اور افسانے میں فرق ہے۔اس اعتبار سے بلراج بخشی کے افسانے افسانہ کی ذیل میں آتے ہیں۔ انہیں کہانی نہیں کہا جا سکتا لیکن چونکہ افسانہ وژن کے باوجود کہانی پن کو لچک دار انداز میں ہی سہی ضرور برتتا ہے۔ اس لیے بلراج بخشی کے افسانوں میں کہانی پن کی سیال صورتیں بہرحال نمایاں ہوتی ہیںاور ان کی کردار نگاری میں اشاراتی انداز ملتا ہے یعنی وہ اپنے افسانوں میں کرداروں کو پیش کرتے ہوئے ان کے شخصی حالات سے زیادہ نفسیاتی کیفیات کو پیش کرتے ہیں ۔بلراج بخشی کے زبان و بیان میں سنجیدگی ہوتی ہے لیکن بحیثیت مجموعی ان کا اسلوب بیان خشک اور بے رس نہیں ہوتا کئی افسانوں مثلاً ’’فیصلہ‘‘ اور’’ایک بوند زندگی‘‘ میں افسانہ کا اختتامیہ چونکانے والا بھی ہوتاہے، مثال کے طور پر افسانہ’’فیصلہ‘‘ اور’’ایک بوند زندگی‘‘ ایسے افسانے ہیں جن میں افسانوں کا انجام قاری کی توقع کے خلاف سامنے آتا ہے۔ بلراج بخشی کو جنسی نفسیات سے بھی دلچسپی ہے اور اپنے افسانوی مجموعہ’’ایک بوند زندگی‘‘ کے کئی افسانوں مثلاً: ’’ڈیتھ سر ٹیفکیٹ‘‘، ’’مکتی‘‘، ’’گرفتہ‘‘، ’’چور‘‘ اور ’’زِچ‘‘ وغیرہ میں انہوں نے اپنے کرداروں کی جنسی گُھتیوں پر بڑے ہی ماہرانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے جو افسانے کا لازمی حصہ بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں جدید سائنس اور علم نفسیات کی ترکیبوں اور اصطلاحوں کا بھی دریغ استعمال کرتے ہیں مثلاً: Semen, Male infertility, Ovum, estrogens, azospermia, artifical insemination, medical fraternity, fertilized embruo, negotiator, body scanner, threat perception, وغیرہ چند مثالیں ہیں۔
بحیثیت مجموعی بلراج بخشی عصر حاضر کے ایک ایسے منفرد افسانہ نگار ہیں جو اپنے موضوعات، بیانیہ، واقعات اور کرداروں کے انتخاب کے علاوہ زبان و بیان کے اعتبار سے اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں مشرف عالم ذوقی، پرویز شہریار، اسلم جمشیدپوری اور ذکیہ مشہیدی کے فن سے قریب ہوتے ہوئے بھی ان سے الگ شناخت رکھتے ہیں اور اکیسویں صدی کی افسانہ نگاری کے کسی بھی جائزہ میں بلراج بخشی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔بلراج بخشی کے یہاں ماحول اور معاشرہ کے ڈسکورسز اور نیرٹیوز کو گرفت میں لے کر کہانی بُننے کی عمدہ مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً: افسانہ ’’زِچ‘‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’آپ شاید سمجھے نہیں… ڈاکٹر سامی نے کھنکار کر کہا ’چلیے… پہلے میں ٹیکنیکل زبان میں بات کر رہا تھا… اب میں آسان زبان میں بات کرنے کی کوشش کروں گا… دیکھیے اتنا تو آج کل سبھی جانتے ہیں کہ پیڑ پودے یا جانور، یعنی کوئی بھی جاندار چیز نر یا مادہ کے ملن کا نتیجہ ہے… جنسی ملاپ… Sexual Union سے مرد کا مادئہ تولید یعنیSemen عورت کیUterus … کوکھ میں پہنچتا ہے جہاں ایک… Ovum… انڈا… ہمیشہ مادئہ تولید میں موجود Sperms… کے انتظار میں رہتا ہے… Sexual Act … جسمانی ملن کے دوران…Semen کے ایک بار کے اخراج میں دس لاکھ سے زیادہ Sperms ہوتے ہیں… اور ان میں سے صرف ایکSperm ہیOvum کو چھید کر اس میں ضم ہونے میں کامیاب ہوتا ہے اور اسے… میرا مطلب ہے انڈے کو Fertilize … کرتاہے … یعنی… اس کی تخم ریزی کرتا ہے… اور اس طرح…Pergnancy ہوجاتی ہے… آپ میری بات سمجھ رہے ہیں؟‘‘
(افسانہ زِچ، ص 47)
(مضمون جاری ہے،اگلی قسط اگلی سنیچر وار کو شائع کی جائے گی)
فون نمبر۔7889762542
ای میل۔[email protected]