یوں تو سردیاں شروع ہوتے ہی موسم سرما کی آمد کا اعلان ہوتا ہے ۔وادی میں بھی اگر چہ سردیوں کی شدت ہی سرما کا آغاز مانا جاتا ہے لیکن یہاں چند اور ایسی چیزیں بھی ہیں جو سرما کی آمد کا اعلان کرتی ہیں ۔ان علامات میں بجلی کٹوتی شیڈول میں بے پناہ اضافہ اور پانی کی قلت سر فہرست ہیں ۔جونہی بجلی کی آنکھ مچولی عروج پر پہنچتی ہے تو لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ حکومت نے موسم سرما کا اعلان کردیا ہے۔امسال بھی حسب روایت اس شیڈول پر خاموشی سے عمل شروع کیا گیا لیکن اس سے قبل بجلی کی سپلائی پوزیشن انتہائی ناگفتہ بہہ بن جائے ،حکومت نے ذمہ داریوں سے دامن جھاڑنے کیلئے رسم ِ دنیا نبھانے کی خاطر لوگوں کو خبردار کیا کہ وہ صبح اور شام کے اوقات میں بجلی کا منصفانہ استعمال کریں تاکہ لوڈ شیڈنگ کی کم سے کم ضرورت پڑے۔
سرکار کا ماننا ہے کہ اگر صارفین اپنے ایگریمنٹ کے مطابق بجلی کا استعمال کریں گے تو بجلی کٹوتی کی ضرورت نہیں پڑسکتی ہے۔ بظاہر یہ الفاظ کہنے میں بہت اچھے لگتے ہیں لیکن عملی دنیا میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ارباب اقتدار و اختیار نے جن اوقات کے دوران بجلی کے منصفانہ استعمال کی تاکید کی ہے ،کیا ان اوقات کے دوران کفایت شعاری ممکن ہے؟۔جہاں تک عقل و فہم کا تقاضا ہے تو یہ ایسے اوقات ہیں جب صارفین کو بجلی کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔شام کے وقت بجلی کا استعمال تو ویسے بھی عام ہے لیکن جب سردی کا موسم ہو تو بجلی کی ضرورت اور زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کی جاتی ہے ۔جہاں تک صبح کے وقت کا تعلق ہے تو اس وقت بھی افراد خانہ گرم پانی سے نہا نے کے بعد صبح کا ناشتہ لیتے ہیں جس کے بعد وہ معمول کے کام پر نکل جاتے ہیں۔دن میں تو ویسے بھی بجلی کی کھپت بہت کم ہوتی ہے ۔
ان دلائل کے ہوتے ہوئے محکمہ کی جانب سے صبح و شام بجلی کے کفایت شعارانہ استعمال کی تاکید کرنے سے صرف یہی مطلب لیا جاسکتا ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہوناچاہتی ہے ورنہ انہیں بھی معلوم ہے ان کی دلیل میں زیادہ وزن نہیں ہے ۔بین السطور اپنے بیان میں انہوں نے لوگوں کودبے الفاظ میں اس بات کیلئے ذہنی طور تیار رکھنے کی سعی کی ہے کہ وہ سرما کے دوران کٹوتی کی بھاری خوراک کیلئے تیار ہوجائیں۔ آج کل بجلی کی بے حالی عروج پرہے۔حالیہ برف باری کے بعدبیسیوں مقامات پر بجلی ٹرانسفارمر ہفتوں اور مہینوں سے خراب پڑے ہیں ،انکاکوئی پرسان حال نہیں ہے حالانکہ دعویٰ کیاگیاتھا کہ حکومت نے وادی میںٹرانسفارمروں کا بنک قائم کرنے کیلئے الگ سے رقومات مختص کررکھی ہیں۔کیا متعلقین سے پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر ٹرانسفارمروں کا بنک قائم کرنے کی بات کی گئی ہے تو وہ ٹرانسفارمر کہا ں ہیں ۔لوگ بجلی کو کیوں ترس رہے ہیں۔اتنا ہی نہیں محکمہ بجلی کے افسران یہ کہتے ہوئے تھکتے بھی نہیں کہ میٹر والے علاقوں میں بیشتر اوقات بجلی سپلائی دستیاب رہتی ہے، لیکن کیا ان افسران سے پوچھا جاسکتا ہے کہ شہر کے کئی علاقوں میں میٹر ہونے کے باوجود کیوں کرکئی گھنٹوں کی کٹوتی ہوتی ہے ۔
اس صورتحال میں متعلقین کو چاہئے کہ وہ کاغذی گھوڑے دوڑانے کی بجائے زمینی حقائق کا ادراک کریں اور زمینی حقائق یہ ہیں کہ بجلی شعبہ کی صحت انتہائی خراب ہے ۔بجلی کے منصفانہ استعمال کی تاکید کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو باتوں ہی باتوں میں یہ بات بھی نکل کر آتی ہے کہ لوگ بجلی چوری سے اجتناب کریں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کہیں کہیں ابھی بھی بجلی کا ناجائز اور غیر قانونی استعمال ہوتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ محکمہ بجلی کا فیلڈ عملہ اس سے ناواقف ہوبلکہ فیلڈ عملہ کی حوصلہ افزائی اور اعانت سے ہی صارفین بجلی چوری کرنے کی جرأت کرتے ہیں ،ورنہ اگر فیلڈ عملہ فرض شناس ہوتو کس صارف کی اتنی ہمت ہے کہ وہ ہوکنگ کرے۔یہ بھی سچ ہے کہ دیہات سے لیکر قصبوں اور شہرتک جہاں میٹر نہیں لگے ہیں ،بیشتر صارفین ایگریمنٹ کے تحت ماہانہ بجلی فیس ادا کررہے ہیں۔
اس صورتحال میں محکمہ ہٰذا کے غلط کاروں اور چند بجلی چوروں کی سزا تمام بجلی صارفین کو نہیں دی جاسکتی ہے ۔صارفین ،جو میٹر یا ایگریمنٹ کے تحت باضابطہ فیس اداکررہے ہیں ،ان کا حق بنتا ہے کہ انہیں بوقت ضرورت وافر مقدار میں بجلی فراہم کی جائے اور سرما سے زیادہ صارفین کو بجلی کی سب سے زیادہ ضرورت کب پڑ سکتی ہے ۔کپکپاتی سردی میں جہاں گرم پانی کا انتظام لازمی ہے وہیں گرمی کے آلات کا استعمال بھی ضروری ہے ،لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ وہ بہانے تراشنے کی بجائے صارفین کے حقوق کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے سردیوں کے ان ایام میں صارفین کو مناسب مقدار میں بجلی کی سپلائی یقینی بنائیں تاکہ انہیں باربار بجلی کی عدم دستیابی کو لیکر سڑکوں پر آکر احتجاج نہ کرنا پڑے ۔