ایک دہائی قبل بھارت کے سیاسی حلقوں میں فائر برانڈ اور سخت گیر سمجھے جانے والے بھارتی جنتا پارٹی کے لیڈر ایل کے ایڈوانی نے اپنی سوانح حیات My Country My Life میں اندراگاندھی کی جانب سے۱۹۷۵ء میں لگائی جانے والی ایمرجنسی اور اس ایمرجنسی کی آڑ میں گرفتاریوں اور پابندیوں کا تفصیلاً ذکر کیا ہے۔ ۱۹۷۶ء میں اپنی انیس ماہ کی گرفتاری کے بعد رہا ہونے کے حوالے سے ایک جگہ موصوف رقم طراز ہیں :’’رہائی کے بعد جب میں اپنے کمرے میں واپس آیا تو اپنی میز پر خطوط کا انبار پایا جن کی تعداد چھ سو کے قریب تھی۔ یہ خطوط بیرون ِملک سے آئے تھے جو کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ممبروں یا ساتھیوں کے تھے۔ ان میں سے ایک خط ایمسٹرڈم سے لاری ہارڈنگس کا کرسمس پیغام تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا:’ آزادی اور اَرمان ساتھ ساتھ نہیں چلتے، وہ(اندراگاندھی) آپ کی آزادی چراسکتی ہیں لیکن آپ کے اَرمان نہیں چھین سکتیں۔ـ‘‘ لاری ہارڈنگس کے اس جملے پر ایل کے ایڈوانی نے آگے لکھا کہ’’ ہاں !انہوں نے ۶۰؍ کروڑ لوگوں کی آزادی چُرالی، لیکن وہ ان کی اُمیدوں کو ختم نہیں کرسکیں۔‘‘ ایل کے ایڈوانی بھارتی جنتا پارٹی کے بانی لیڈران میں شامل ہیں اور اٹل بہاری واجپائی کے دور حکومت میں بحیثیت نائب وزیراعظم کے اُن کی سخت گیریت ملکی معاملات پر چھائی رہتی تھی۔موصوف نے لاری ہارڈنکس کے کرسمس پیغام کو اپنی سوانح عمری میں تحریر کرکے گویااس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ وقت کے حکمران طاقت کے بل بوتے پر لوگوں کی شخصی آزادی کو چھین سکتے ہیں، اُن کو قید کرسکتے ہیں، اُنہیں تشدد کا نشانہ بنا سکتے ہیں لیکن وہ لوگوں کے اَرمانوں اور اُمنگوں کو اُن کے دل سے نہیں نکال سکتے ہیں۔ بی جے پی کی باگ ڈور آج جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے ،وہ ایک زمانے میں ایل کے ایڈونی کو اپنا ’’گرو‘‘ اور خود کو ان کا ’’چیلہ‘‘ مانتے تھے اور اُنہی کے سخت گیرانہ اور فرقہ پرستانہ نقوشِ قدم پر چل کر اُنہی کی سوچ اور فکر کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے تھے،لیکن ایل کے ایڈوانی نے طاقت کے بل بوتے پر’’ اَرمان اور اُمیدوں کو ختم نہ کرنے‘‘ کی جس بات اور فکر کو تسلیم کیا ہے، آج اُن کے چیلے وہی طریقہ کار اپناکر لوگوںکی شخصی آزادیاں سلب کر کرکے اُن کے خواب چھینے کی کوششوں میں ہر وہ اوچھا حربہ آزما رہے ہیں جو مختلف ادوارمیں مظلوموں کے خلاف قابض طاقتوں نے آزمائے ہیں۔ اس تعلق سے مشرق و سطیٰ میں فلسطین اوربرصغیرجموں وکشمیر کو مثال کے طور پیش کئے جاسکتے ہیں۔
دنیا جانتی ہے کہ ریاست جموں وکشمیر تقسیم ہند کے وقت سے ہی متنازعہ خطہ بن چلاآرہا ہے، اس خطہ کے کروڑوں عوام کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا ہے، گرچہ دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں میں وعدے بھی ہوئے ، قرادادیں بھی پاس ہوئیں، جنگیں بھی ہوئیں ، معاہدے بھی ہوئے، سمجھوتے بھی ہوئے ، صلح کی یقین دہانیاں بھی کرائیں گئیں ، تاہم تاحال نہ ہی وعدہ وفائیاں ہوئیںاور یقین دہانیوں کا ہی پاس ولحاظ ہوا ، نہ ہی قرادادوں پر عمل کیا گیا۔اس پر پوری دنیا اور عصری تاریخ گواہ ہے۔جب بھی ریاستی عوام نے جائز اور جمہوری طریقے سے اپنے سیاسی حقوق کی بازیابی کی بات کی تو اُن کی بات سننے اور مسئلہ حل کرنے کے بجائے وہ سب کچھ کیا گیا جو طاقت کے نشے میں مغرور طاقتیں کمزور قوموں کے خلاف کرتی رہی ہیں۔ اپنے حقوق کی مانگ کرنے والوں کے لیے جیل اور تعذیب خانوں کے دروازے وا کئے گئے، اُن کی نسلوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا، اُن کے پیرو جواں کے ساتھ ساتھ کم سن بچوں تک کو زنیت زنداں بنایا گیا، اُن کی اِملاک تباہ و برباد کی گئیں، اُنہیں ہر طرح کے حقوق سے محروم رکھا گیا۔گزشتہ ایک دہائی بالخصوص۲۰۰۸ء کی عوامی ایجی ٹیشن کے بعد سے یہاں حکام نے نئی نئی اصطلاحیں ایجاد کیں جن کا سہارا لے کر کم سن بچوں سے لے کر بڑے بزرگوں تک کو جیلوں میں ٹھونسا جارہا ہے۔شخصی آزادیاں اس خیال خام کے تحت سلب کرلی جاتی ہیں کہ لوگ تنگ آکر اپنی اُمیدوں اور اَرمانوں کی دنیاکو ہی ’’تیاگ‘‘ دیں اور یہ سب وہی لوگ کررہے ہیں جنہوں نے ستر کی دہائی میں ایمرجنسی کے نتیجے میں ہوئی گرفتاریوں کے بعد تسلیم کیا کہ جسموں کو پابند سلاسل بنانے سے نظرئے کمزور نہیں ہوتے ہیں اور نہ ہی قومیں اور جماعتیں خواب دیکھنا ترک کرتی ہیں۔
بی جے پی سر براہی والی دلی سرکار نے کشمیری عوام کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نپٹنے کو جو پالیسی شروع سے ہی اختیار کی ہوئی ہے، اُس پر وہ افسپا کی مددسے پوری طاقت اور شدت کے ساتھ عمل پیرا ہے۔ ایک جانب آوپریشن آل آؤٹ کے ذریعے سے آئے روز کشمیری نوجوانوں کو مارا جارہا ہے، ہر سال سینکڑوں سویلین ، بالخصوص ادھ کھلے نوجوان گولیوں کا نشانہ بنائے جارہے ہیں، آئے روز مقامی اخبارات میں بڑے بڑے جنازوں کی دل آزار خبریں اورخون کھول دینے والی تصویریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ مرنے مارنے کو شوق اور مشغلہ بنادیا گیا ہے، اس کے نتیجے میں کشمیری نونہالوں کی لاشوں سے قبرستان آباد ہورہے ہیں۔ کشمیر کے سیاسی حل کاارمان رکھنے والے نوجوانوں پر آئے روز بدنام زمانہ قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کا نفاذ عمل میں لایا جارہا ہے، سیاسی جدوجہد میں یقین رکھنے والی مزاحمتی جماعتوں کے اکثر کارکنان کو مسلسل جیلوں میں نظر بند رکھا جارہا ہے۔ وادی کے جیلوں کے علاوہ صوبے جموں کے کورٹ بلوال، ہیرا نگر، ادھم پور، امپھالہ نیز ہریانہ ، دلی، گجرات اور یوپی کی جیلوں میں بھی کشمیری قیدی برسوں سے پڑے سڑ رہے ہیں،جن میں اکثریت سیاسی قیدیوں کی ہے۔ آئے روز اخبارات میں خبریں اور تبصرے شائع ہوتی رہتی ہیں کہ جیلوں میں کشمیری قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا جارہا ہے، اُنہیں معقول غذا فراہم نہیں کی جارہی ہے، عدالتوں میں سرکاری وکلاء اُن کے کیسوں کو جان بوجھ کر طول دیتے رہتے ہیں ۔ ایک ایک قیدی پر بار بار پبلک سیفٹی عائد کرکے اُنہیں رہا ہی ہونے نہیں دیا جارہا ہے۔ اس طرح لوگوں کا قانونی اداروں سے وشواس ہی ختم کیا جارہا ہے اور وہ اپنے مستقبل سے بھی کوئی امید نہیں رکھتے۔ یہ سب دلی کے حکمران دیش بھگتی یا نیشنل انٹرسٹ کے نام پر کررہے ہیں ۔ اس ہدف کو ووٹ بنک سیاست کا منافع کاروبار بنانے کے لیے بکاؤ میڈیا کے ذریعے سے پورے انڈیا میں ایسا انسان دشمن ماحول بنایا گیا کہ عام بھارتی بھی کشمیریوں پر روا غیر انسانی مظالم اور افتادکو ’’جائز ‘‘ہی نہیں سمجھتے ہیں بلکہ کشمیریوں پر مزید سختیاں کرنے کا بھی مطالبے کئے جارہے ہیں۔
بی جے پی نے’’ نیشنل انٹرسٹ‘‘ نام کی شئے کو الہ دین کا چراغ بنادیا ہے، یہ وہ ’’جن ‘‘ ہے جس کے ذریعے سے بھارتی جنتا پارٹی ہر محاذ پر ناکام ہوجانے کے باوجود مخصوص زہر یلا مائنڈ سیٹ رکھنے والے عوام کا ووٹ حاصل کرتی ہے۔ بھارتیوں کے لیے کشمیریوں کی جائز اور مبنی برحق جدوجہد اور پاکستان دو ایسے ’’خطرات‘‘ کھڑا کئے گئے ہیں جن سے نپٹنے کے لیے وہ بغیر سوچے سمجھے سخت گیر پالیسی سازوں کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہی دیش بھگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے کونے کونے میں کبھی کشمیری طلباء کو نشانۂ عداوت بنایا جارہا ہے تو کبھی کشمیری تاجروں کے مال و جان پر حملے ہورہے ہیں، کبھی پولیس اور حکومتی ایجنسیاں ریاست سے باہر کشمیری نوجوانوں کو فرضی کیسوں میں ملوث کرکے نہ صرف اُن کی زندگیاں برباد کرتے ہیں بلکہ بیرونِ ریاست کشمیریوں کو ہراساں کرنے کے عمل کو ترقیاں اور پبلسٹی پانے کے ٹریڈ مارک کے طور بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ اس سال یکم جنوری سے ہی دلی سے خبریں موصول ہونے لگی ہیں کہ وہاں کے ہوٹلوں میں کشمیریوں کو کمرے کرایہ پر نہیں دئے جارہے ہیں، رات کے دوران پولیس ہوٹلوں میں گھس کر کشمیریوں کی تنگ طلبی کر نا اپنا ڈیوٹی سمجھ رہی ہے۔ گویا بیرون ریاست کشمیریوں کو’’مجرم اور باغی‘‘ ہونے کا منفی احساس دلایا جارہا ہے ۔اس سخت گیر رویے کی کہانی نوے سے آگے کسی نہ کسی صورت بنتی رہی ۔ مر کز میں چاہے یوپی اے بر سر اقتدار تھی ، دیوی گوڑ کا اتحادسنگھاسن پر براجماں تھا،این ڈی اے کی حکمرانی رہی، یہی واحد پالیسی اہل ِکشمیر کے تئیں اُنیس بیس کے معمولی ہیر پھیر کے ساتھ روارکھی گئی ۔ اب مودی سرکار اس پالیسی کو کرسی کا چھومنتر بناتے ہوئے سیاسی صنعت کاری میں بدل دیا ہے جس میں ’’آوپریشن آل آؤٹ‘‘ کو سرمایہ کاری کی حیثیت حاصل ہے ۔ یوں متواتر ہندوستانی عوام میں کشمیریوں کو خطرہ، دشمن، جنونی کے طور پر پیش کرکے اپنے اپنے الیکشن ایجنڈے میں رنگ بھرنے اور ووٹ بنک سیاست ہوتی رہی ہے اور صرف کرسی کی خاطر ایک پوری قوم کی زندگی اجیرن بنادی گئی ہے ۔
درونِ خانہ گزشتہ نصف دہائی سے اب ایک نئی رسم کو جنم دیا گیا ہے۔ اسمبلی الیکشن ہوں یا پارلیمانی انتخابات، پنجایتیں بنانی ہوں یا پھر مونسپلٹی کے لیے کونسلروں کا انتخاب عمل میں لانا ہو، سرکاری ورزش کو یقینی بنانے کے نام پر پہلے سے ہی شہر و دیہات میں گرفتاریوں کا اندھا دُھند سلسلہ شروع کیا جاتا ہے۔ جن نظر بندوںپر کسی وجہ سے ایک مرتبہ پبلک سیفٹی ایکٹ لگ چکا ہوتا ہے، اُنہیں ہر انتخاب سے قبل پھر تھانے بلاکر مہینوں تک کے لیے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ اس سرکاری کھیل تماشے کے چکر میں کچھ لوگ ایسے پھنستے رہے ہیں جن کے ماہ وسال زیادہ تر سلاخوں کے پیچھے ہی گزرتا ہے اور اُن لوگوں کے لیے الیکشن یا کوئی بھی بڑاسرکاریEvent وُبال جان ہی بن جاتا ہے۔۲۰۱۹ء میں ریاستی اسمبلی کے ساتھ ساتھ پارلیمانی انتخابات بھی ہونے کا پر وگرام بنایاجارہاہے ۔ مجوزہ انتخابات کے نتیجے میں’’ مشکوک کشمیریوں‘‘ کے سروں پر ’’طویل گرفتاریوں کے سلسلہ‘‘ کا خطرپ پھر سے منڈلا رہا ہے۔ آنے والے مہینوں میں بے گناہ لوگوں کو زینت ِزندان بنانے کی قیاس آرائیاںہورہی ہیں ،حکومتی پالیسی ساز اداروں میں کوئی یہ سوچنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے کہ ایسے ہی غیر مناسب اور انسان دشمن اقدامات کشمیری نوجوانوں کو جمہوری طور طریقوں سے متنفر کرتے ہیں۔عوامی سطح پر مجموعی طور پر اضطراب اور بے چینی پیدا ہوجاتی ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سرگرم ہوجاتے ہیں، جس کے نتیجے میں وردی پوشوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں سرزد ہوجاتی ہیں۔اس سخت گیری اور آہنی و استبدادی طریقے سے عوامی سطح پر وقتی طور منصوعی خاموشی پیدا کی جاسکتی ہے لیکن دلوں کے اندر پنپ رہی نفرت کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ فطری طور پر یہ نفرت مختلف طریقوں سے ردعمل کی صورت میں گاہے گاہے سامنے آہی جاتی ہے۔
عوام کو اپنی بات سامنے رکھنے کا حق حاصل ہے، لوگوں سے ہی حکومتیں بھی ہیں اور ملک بھی ہیں۔ لوگوں سے اگر جبراً اُن کی مرضی چھین لی جائے، اُن کی سانسوں پر پہرے بٹھائے جائیں، اُنہیں زبردستی فرمان بردار بنانے کی کوششیں کی جائے،اُن کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا جائے تو لازمی طور پر ردعمل بھی پیدا ہوجاتا ہے اور ایسی صورت میں دنیائے انسانیت کے بڑے بڑے ایوان بھی لوگوں کو اپنا احتجاج درج کرنے کا حق فراہم کرتے ہیں، اُنہیں اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جدوجہد کرنے کے لیے اُبھارتے ہیں او ر اکیسویں صدی میں یہ ہرگز ممکن نہیں کہ ایک پوری قوم کو بزورِ بازو خاموشی اختیارکرنے پر مجبور کیا جائے۔اس لیے بہتر یہ ہے کہ دلی سے سرینگر تک حکمران، فورسز ایجنسیاں، پالیسی میکرزاور سیاست دان زمینی حقائق کا فہم و ادراک کریں، وہ اپنے ذاتی اور حقیر مقاصد کو پانے کی خود غرضانہ سوچ ترک کرکے بڑے اور وسیع طریقوں سے سوچنا شروع کریں۔افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کریں، عوامی خواہشات کا احترام کریں، لوگوں کی بات کو سنیں اور لوگوں کی اکثریت جس طرح سے بھی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا چاہتی ہے اُنہیں اس کا حق فراہم کر یں۔ مذاکرات کی میز پربیٹھ کر ٹھنڈے دل و دماغ سے ہی مستقل اور ٹھوس بنیادوں پر کشمیر حل کی طرف بڑھا جاسکتا ہے ۔ بات چیت اور افہام و تفہیم ہی وہ واحد راستہ ہے جو کشمیری سمیت برصغیر کے کروڑوں عوام کو سکھ، شانتی اور آزادی کی زندگی عطا کرسکتی ہے، بصورت دیگر تباہ و بربای ہی دیکھنے کو ملے گی۔ اس لیے دلی کو ریاست جموں وکشمیر میں لوگوں کی شخصی آزادی چھینے کی روش کو ترک کردینی چاہیے اور اسے یہ جان لینا چاہیے کہ اس جارحانہ طرز عمل سے قومیں نہ اپنے دل کے اَرمانوں کو چھوڑ دیتی ہیں اور نہ ہی خواب دیکھنا اور اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے کوششیں کرنا ترک کرتی ہیں۔بہتر یہ ہے کہ کشمیر میں طاقت کی زبان میں بات کرنے کی پالیسی کو ترک کی جائے اور مسئلے کا اُس کے تاریخی پس منظر میں منصفانہ ، آبرومندانہ ، جمہوریت پسندانہ حل نکالا جائے۔ مار دھاڑ، قیدو بند ، تباہ کاریاں، بشری حقوق کی خلاف ورزیاں ہی اگر مسئلے کا حل ہوتیں تو نوے کی دہائی میں ہی یہ سارا قصہ ختم ہوا ہوتا لیکن لاکھ دبانے سے بھی کشمیر مسئلہ زندہ ہے کیونکہ حقائق اور سچائی قوت ِ بازو سے دبائے نہیں جا سکتے ہیں۔