ش شکیل
آپ لوگ اس بات کو مانتے ہیں یا نہیں معلوم نہیں ۔انسان اپنے آپ سے باتیں کرتا ہے ۔وہ باتیں ایسی ہوتی ہیںجنہیں کوئی نہیں سُنتا ہے اور نہ ہی کسی کو سنائی دیتی ہیں۔صرف خود کو سُنائی دیتی ہیں۔ ایک انسان اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھاشاید آپ نے بھی ایسی باتیں اپنے آ پ سے کی ہونگی۔ وہ جو باتیں اپنے آپ سے کر رہا تھا وہ کچھ اس طرح کی تھیں۔’’ مجھے ایک خوبصورت اور فرمانبردار بیوی ملی ہے۔بچے بھی خوبصورت اور فرمانبردار ہیں۔ یعنی اچھی بیوی بچوں سے لے کر دھن دولت تک سب کچھ ہے میرے پاس۔ میں نے ہر چیز خریدی اور کھائی ہے اب کوئی خواہش اور آرزو نہیں ہے۔میں بڑا ہی خوش نصیب انسان ہوں ۔‘‘اپنے آپ سے کہہ کر معنی خیز انداز میں مسکرا کر خاموش ہوگیا۔پھر خود سے باتیں کرنے میں محو ہو گیا۔ ’’کیا میں موت سے زندگی خرید سکتا ہوں؟ نہیں خرید سکتا۔۔۔ یہ تو یہ تو نا ۔۔۔نا ممکن ہے۔‘‘جو باتیں اپنے آپ سے کرکے خوش ہو رہا تھا وہی باتوں سے اب بے چین و بے قرار ہو کر ادھر اُدھر ٹہل رہاتھا ۔سب کچھ اُس کے پاس تھا لیکن سکون نہیں تھا کیونکہ اب اسے اسی کی شدید ضرورت تھی۔
ذہنی تبدیلی
جیسے جیسے وہ ترقی کرتا گیا اُس کے سوچ اور خیال میں تبدیلی آتی گئی۔ جب اُسکی نئی نئی نوکری لگی تھی تو گھر سے آفس پیدل جایا کرتا تھا۔ایک دن و ہ چلتے چلتے بڑبڑا رہا تھا۔’’یہ موٹر سائیکل چلانے والے پیدل چلنے والوں کے درمیان اچانک سے آجاتے ہیں۔ انہیں الگ سی سڑکیں ہونی چاہئے۔‘‘کچھ دنوں کے بعد اُس کی آمدنی میں بڑھوتری ہوئی تو اُس نے ایک موٹر سائیکل خرید لی۔ اب وہ موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے بڑ بڑارہا تھا۔’’یہ کار والے بھی عجیب ہیں۔نہ خود سے آگے بڑھتے ہیں اور نہ ہم موٹر سائیکل والوں کو آگے بڑھنے دیتے ہیں۔ ان کے لئے بڑی سی الگ سڑکیں ہونی چاہئیں۔‘‘اس کے بعد خدا کے فضل و کرم سے اُس کی آفس میں ترقی ہو گئی ۔اسی کے ساتھ دوگنا اُس کی تنخواہ میں اضافہ ہوا۔اب وہ اپنی موٹر سائیکل بیچ کر اپنے لئے ایک کار خرید لی تھی۔ اب کار میں بیٹھا آفس جاتے جاتے بڑبڑا رہا تھا ۔’’موٹر سائیکل چلانے والے اور پیدل چلنے والے کہاں سے آرہے ہیں کہا ں جارہے ہیں بالکل بھی سمجھ میں نہیں آتا‘ذرا کسی کو کار کا دھکا لگا تو کار والے کو کار سے باہر نکا ل کر پیٹتے ہیں۔سرکار ان تمام کے لئے الگ الگ سڑکیں کیوں نہیں بناتی ۔‘‘
اورنگ آباد ،مہاراشٹرا،موبائل نمبر9529077971