مشتاق مہدی
عجب دھند کا ہے سماں دوستو
میں کس دیپ کا ہوں دھواں دوستو
میں حیران ہوں
وہ بھی حیران ہے
کون ہے وہ۔۔۔۔۔۔؟
آو کتاب کھول دیں
کہاں سے وہ آیا۔۔۔
کہاں جا رہا ہے
کیا لے کے۔۔۔۔۔اور کیا کچھ دے کے۔۔۔؟
کئی دہائیوں پہلے کا قصہ ہے۔تب وہ نہیں تھا اس زمین پر۔۔۔۔آج ہے۔۔۔۔اور کل۔۔۔؟
کہانی یوں سنائی جارہی ہے ۔
ایک جسم نے دوسرے جسم کی آگ چھولی ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک شعلہ لپکا۔۔۔۔
ایک لمحہ مہکا
ایک سسکی۔۔۔ایک صدا
ایک آہ۔۔۔ایک کراہ ۔۔۔اور پھر ایک جسم کا پیٹ پھولنے لگا ۔ دوسرے جسم نے پھولے ہوئے پیٹ کو دیکھ کرکچھ خواب بُنے۔کچھ کہانیاں جوڑدیں۔۔۔اور کچھ رنگ بھی چرائے ۔
وقت تھا کہ ٹھہرا نہ تھا
آنکھ تھی کہ کھوئی نہ تھی۔
وہ تھا۔۔۔۔کہ شکم مادر میں تھا ۔ جاگا نہ تھا۔۔۔۔ابھی
پھر ایک روز۔۔اُس دن۔دھوپ سویرے ہی آنگن میں اتر آئی تھی۔نئے موسم کی خوشبوپھیلی ہوئی تھی۔ پھولے ہوئے پیٹ کے گردکچھ عورتیں جمع تھیں۔کچھ منتر۔۔۔کچھ کلمات ہونٹوں پر تھرکےاور کہیں کسی اجنبی جہاں میں ایک گاین ہوا۔۔۔یا پھر کسی سمندر میںکوئی طوفان اٹھا یا، پھر کسی کی آنکھ ٹپ ٹپ برکھا برسانے لگی۔
ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔آہیں۔۔۔۔کراہیں۔۔۔۔صدائیں ۔۔۔۔دعائیں۔۔۔۔
اور پھر ایک ننھی سی چیخ۔۔۔۔۔۔چیں !
پھر وہ ننھے ہاتھ پیروں سمیت اس زمین پرتھا۔آس پاس کھڑی عورتوں نے خوشی کا اظہار کیا ۔نہلایا دُھلایا۔بلائیں لیں۔گھر کے کسی بزرگ نے کانوں میں متبرک الفاط ڈالے ۔ماںنے اپنی چھاتیوں سے لگالیا ۔پچکارا ۔۔۔۔۔پیارکیا۔۔۔۔اور دن ڈھل گیا۔
اُس کاسفر شروع ہوگیا۔چار ٹانگوں سے چل کے وہ تین ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا۔پھر دو ٹانگوں سے چلنے لگا۔دیکھتا رہا۔۔۔۔موسم موسم۔۔۔۔منظر منظر۔۔۔۔
کھیل بچپن کے بہاروں کے ُپر مسرت تھے
لیکن دکھ کا کانٹا بھی ساتھ اُگا۔
ایک لڑکی جو بے حدحسین تھی ۔اچھی لگی۔اپنے جسم کی بناوٹ سے حیرت زدہ کرگئی ۔اظہار نہ تھا۔خط لکھا۔۔۔جیب میں ہی رہ گیا۔مایوسی چھا گئی۔موسم کی بے اعتنائی سے دکھی ہوگیا۔لیکن امیدکی کلی بھی کھلی رہی کہ ایک تلاش۔۔۔کسی کی میٹھی دھڑکن۔۔۔کوئی خواب اُسکے ساتھ پلا بڑھا جواں ہوااور وہ اُس ایک خواب کے جنون میںموسم موسم اپنے پیچھے چھوڑتا ہواچلا گیا۔
ہوا ئوں نے گیت گائے۔۔۔
کتنے رنگ بدلے۔۔
کتنے روپ دکھائے۔۔۔
جاننے والوں کی طرح۔۔۔۔اُس نے بھی اپنے اپنے وقت پر جانا۔۔۔پہچانا اور مانا کہ کہنے والوں نے جو کہانی سنائی۔
اُس میں جوکسی گاین کا ذکر تھا۔۔۔وہ کیوں تھا
اُس میں جو کسی طوفان کا شورتھا۔۔۔وہ کیسا تھا
اُس میں جو کسی کے آنسووئں کی دیوانی کہانی تھی۔وہ کیا تھی۔۔۔۔؟
تو کیا یہ جنم۔۔۔۔۔یہ تخلیق۔۔۔۔۔ایک آنسو کی تخلیق تھی۔
اُف۔۔۔وہ تنہا کتنا رویا۔۔۔کتنا تڑپا۔۔۔۔کتنا مچلا۔۔۔۔اور بے رحم آکاش نے اَگن اُگائی۔اندر باہر ۔۔۔۔اک عجیب۔۔۔۔ہاں آنکھ کو الجھانے کے لئے کہیں سے یہ آواز آئی۔آنگن کے یہ دوسرے بھی تیرے اپنے ہیں۔انہیں دیکھو اور دیکھو۔۔۔۔۔دکھ کے بادل کتنے گہرے ہیں۔
اور دیکھو۔۔۔۔پیاس کی اگن کتنے یگوں کی ہے
اور دیکھو۔۔۔۔چال کی چُبھن کتنی نوکیلی ہے
اور دیکھو۔۔۔۔اور مت دیکھو۔۔۔۔۔
اور دیکھو۔۔۔۔۔اور غور کرو۔۔۔
اور غور مت کرو
پاگل ہوجانے کا خطرہ ہے۔
میں حیران ہوں
وہ بھی حیران ہے
کون ہے وہ۔۔۔۔۔؟
اب وہ آنگن کی ایک میزان پر کھڑا ہوگیا ہے۔
میزان ایک طرف نہیں ہوئی
کہ دوسری طرف وزن برابر ہے۔
خواہشوں کی معصومیت پر،اپنی دیوانگی پر مسکرانا چاہتا ہے
لیکن مسکراہٹ کسی کی مٹھی میں قید ہے۔
وہ رونا چاہتا ہے
چیخنا چلاناچاہتا ہے ۔گانا چاہتا ہے۔
لیکن آواز کے بدن پر کالا کوئی لہرارہا ہے
وہ یار دوستوں سے پوچھتا ہے
’یہ جیون ہے یاموت کا سفر۔۔۔؟‘
یار دوست ہونقوں کی طرح اُسے دیکھتے ہیں ۔
لیکن ایک یار اپنی آواز اُگل ہی دیتا ہے
’’ یہ جنگل بڑا پُراسرار ہے ۔‘‘
’’ ہاں۔یہ جنگل پراسرار ہی ہے ۔۔۔۔۔تم بھی ہو میرے لئے۔۔۔۔اور میں بھی تمہارے لئے۔‘‘
وہ جواب دیتا ہے۔آگے بڑھتا ہے اور پھر سب کچھ بھول جاتا ہے ۔
رات ایک نئے سورج کو لے آتی ہے۔ وہی دن ۔۔۔۔۔ دھوپ۔۔۔بادل ۔۔۔بارشیںاور دوڑ۔
میں اُسے دیکھ رہا ہوں۔سرخ زرد پہاڑوں کے بیچ کھڑا۔۔۔کچھ سوچتا ہوا۔۔۔کچھ سہماہوا سا۔
آنگن میں اُس نے کئی کہانیاں سنی ہیں
سورجوں۔۔۔ستاروںکی۔۔۔ ماہ پاروں کی
اُس نے کتابیں پڑھیں۔
رسولوں پیغمبروں اور اوتارورں کی ۔۔۔اور ماں کے اچھے اچھے بیٹوں کی۔۔۔
فخر زمین
فخر آسمان
رحمت جہاں۔۔۔۔بہت شاندار،
وہ اپنے اندر سے نکلی ہوئی راہ روک نہ سکا۔دور تک چلاگیا۔ایک شعر ذہن میں کلبلایا۔
راز یگوں کے جانے مانے
ایک تجھی میں رہتا پانی
پھر اس نے آنگن میں دوسری کہانیاں سنیں۔
اندھی کھوپڑیوں کی
موت کے سوداگروں کی،
ظالم اور جابر حکمرانوں کی،
آئینوں میں ناچتے لہراتے ہوئے سانپوں کی،
ڈرے اور سہمے ہوئے کروڑوں انسانوں کی۔۔۔۔۔۔
ماضی اور حال ایک سا۔۔۔۔۔۔
ایک اور روپ کتاب کا ۔ اور کتنا سچا۔۔۔
شدّت غم سے وہ تلملا اٹھتاہے۔خوف کے بادل چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں۔
ڈرو مت۔دیکھو۔۔۔۔وہ سب آنگن میں آنے کی آگ پی چکے ہیں۔تم کو بھی پینی ہےاورخاموش پینی ہے۔ہنس ہنس کرپینی ہے۔۔۔۔وہ اپنے آپ سے باتیں کرتا ہے۔کچھ فیصلے کرتا ہے۔
اور اُس کے بدن کی بولتی ہوئی بلّی کوخاموش بھی کرنا چاہتا ہے کہ جنم کی پہلی چاہ تھی وہ ۔۔۔۔۔ایک سریلا میٹھا گیت ۔۔۔۔۔۔
لیکن وہ یہ گیت سن نہیں پاتا ہے۔
کہ اپنی سوچ کا حصار توڑ نہ پایا وہ ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ ادھورا رہ جاتا ہے۔اندھے دلدلوں میں قید سا ہو جاتا ہے۔اپنے آپ سے پوچھتا ہے ۔
’ جیون کیا ہے۔ریت پر لکھی اُداس کہانی ۔۔۔ایک بن باس۔۔۔؟‘
’ یہ کس مایا جال میں پھنس گیا ہوں میں۔۔۔۔ ؟ ‘
’ عجیب قید خانہ ہے یہ۔۔۔‘
اُس کے منہ سے ایک کراہ نکلتی ہے۔
دوسرے ہی پل اندر سے آواز آتی ہے
’ تم یہ کیا کہتے ہو۔۔۔۔اتنی بڑی دنیا۔۔۔یہ وسیع کھیت۔۔۔یہ میدان۔۔۔یہ جھرنے۔۔۔یہ پہاڑ ۔۔۔
یہ پارکیں۔۔۔یہ فضا۔۔۔یہ پھیلا آکاش۔۔۔۔۔تم اسے ،اتنی بڑی خدا کی دنیا کو قید خانہ کہتے ہو ۔‘
’پھر یہاں یہ گھٹن سی کیوں ہے ۔؟ ‘
وہ پوچھتا ہے ۔اُسے کوئی جواب نہیں ملتا ہے
پنجرے میں دیکھے ہوئے کسی پرندے کویاد کرتا ہے۔خود پر ایک نظر ڈالتا ہے۔اور پھر ایک
مری مری سی مسکراہٹ ہونٹوں پر لے آتا ہے۔
یہ کتاب ہے۔ اسکا ساتھ کسی بھی صورت میں دینا ہے۔اور دیتے رہناہے۔
میں حیران ہوں۔
وہ بھی حیران ہے۔
ہے تو وہ کون ہے آخر۔۔۔۔؟
اِدھر وقت کا گھوڑا کسی کے چاہنے سے رُکتا نہیں ہے۔آگے ہی آگے مسلسل چلتا رہتا ہے ۔
۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔ نامعلوم منزل کی جانب۔۔۔۔
اُس کے چہرے کی داڑھی جو سیاہ تھی۔
سفید ہوتی جارہی ہے۔
اُس کا چہرہ جو زرد تھا
گہرا زرد ہوتا ہوا سوکھا پتا ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر پتا شاخ سے ٹوٹ کر گرجاتا ہے
مٹی میں گُم ہوجاتا ہے۔مرجاتا ہے۔۔۔۔فنا ہوجاتا ہے۔تو پھر زندہ رہنے والا کون ہے۔۔۔؟
میں حیران ہوں
وہ بھی تو حیران ہی ہے
کون ہے وہ آخر۔۔۔۔۔۔۔؟
����
مدینہ کالونی۔مَلہ باغ حضرت بل
سرینگر کشمیر ۔ 190006
موبائل نمبر؛9419072053