سبزار بٹ
سمیر دوران کالج ہی شہر میں پیر جمانے میں کامیاب ہوگیا تھا پھر وہیں اُس نے شگفتہ نام کی لڑکی سے شادی کرلی، اب شگفتہ اور سمیر کی شادی کو چار سال ہو گئے تھے ۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا ۔سمیر شگفتہ کا بے حد خیال رکھتا تھا۔ گھر میں کسی بھی قسم کی کمی نہیں تھی ۔ یوں تو سمیر ٹھیکیداری کا کام کرتا تھا ۔لیکن پس پردہ کچھ اور ہی چل رہا تھا۔ ایک دن شگفتہ کو اس بات کی بھنک لگ گئی کہ اس کا شوہر سمیر ٹھیکیداری کا کام لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے کرتا تھا اصل تو اس کا زہر کا کاروبار تھا۔ وہ ملک کی نئی نسل کو زہر بیچتا تھا ۔
شام کو جب سمیر گھر آیا تو شگفتہ نے بڑے ہی شگفتہ انداز میں کہا ” میں نے آپ کے بارے کچھ سُنا ہےخُدا کرے وہ جھوٹ ہو ،شگفتہ کی بات سُن کر سمیر پسینہ پسینہ ہو گیا اور کہنے لگا نہیں شگفتہ ایسا کچھ نہیں ہے میں تو محنت کی کمائی کھاتا ہوں۔ شگفتہ نے اس وقت بات ختم کی لیکن اب وہ سمیر کی جاسوسی کرنے لگی، وہ ایک پہرے دار کی طرح سمیر کی حرکتوں پر نظر رکھنے لگی ۔ اور سمیر بھی اب بڑی ہوشیاری سے یہ کام کرنے لگا لیکن کہتے ہیں نا کہ خوشبو ہو یا بدبو زیادہ دیر تک نہیں چھپ سکتی لوگوں کو پتہ چل ہی جاتا ہے _ خیر اس وقت بات ٹل گئ لیکن شگفتہ بے قرار رہنے لگی ۔ ایک دن کالج کے چند لڑکے سمیر سے ملنے گھر آئے اور سمیر نے انہیں ایک الگ کمرے میں لیا اندر سے کنڈی لگائی تو شگفتہ سمجھ گئی کہ سمیر نے اپنا کام جاری رکھا _ہے۔
شام کو جب دونوں ڈائنگ ٹیبل پر کھانا کھا رہے تھے کہ شگفتہ نے پھر بات چھیڑی، سمیر ۔۔۔۔! دن کو جو لڑکے تم سے ملنے آئے تھے وہ کون تھے؟
شگفتہ کی بات سُن کر سمیر سخت تیش میں آ گیا،
تم کیا میری جاسوسی کرتی رہتی ہو۔
وہ وہی لینے آئے تھے جو تم سمجھ رہی ہو بس……… اور کچھ سُننا ہے تمہیں _،،
یہ جو تم عیش و عشرت کی زندگی گزار رہی ہو ۔ گھر میں جو جدید آلات اور نوکر چاکر ہیں یہ سب اسی کاروبار کی وجہ سے ہے جسے تم زہر کا کاروبار کہتی ہو۔
تمہارا مطلب ہے کہ تم دوسروں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلتے رہو گے ،یہ میں کسی بھی قیمت پر نہیں ہونے دوں گی۔
رہی بات عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کی تو میں تم سے وعدہ کرتی ہوں کہ اگر تم یہ زہر کا کاروبار چھوڑ دو گے تو میں تم سے کبھی کسی چیز کی فرمائش نہیں کروں گی۔ میں گھر کا ہر کام خود کروں گی۔
میں غربت کی زندگی گزارنا پسند کروں گی۔ تمہیں کبھی بھی شکایت کا موقع نہیں دوں گی لیکن میں نئی نسل کو تباہ برباد ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔ یہی نسل تو ہماری قوم کا سرمایہ ہے، یہ وہ چنار ہیں جو کل قوم کو گھنا سایہ فراہم کریں گے، تم انہی چناروں کو زہر آب سے سیراب کررہے ہو۔
اُس کی زہر بھری باتیں سُن کر سمیر اور آگ بگولہ ہوگیا۔ _میں یہ کاروبار نہیں چھوڑ سکتا _یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔
سمیر تم آگ سے کھیل رہے ہو _ یاد رکھنا یہ آگ کی آنچ کل ہمارے گھر تک آ سکتی ہے، شگفتہ نے اپنے تین سال کے معصوم بچے کو سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔
نہیں اس آگ کی آنچ میں اپنے گھر تک کبھی نہیں آنے دوں گا _ ۔
تو یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے کہ تم یہ کاروبار نہیں چھوڑو گے۔
ہاں!! ہاں!!! ہاں!!!!
تو میرا بھی فیصلہ سن لو _
تمہیں یا مجھے چھوڑنا ہوگا یا اس زہریلے کاروبار کو ۔شگفتہ نے فیصلہ کن لہجے میں کہا اور گھر سے نکل گئی۔ اس کے بعد شگفتہ نے ایک سال اپنے مائیکے میں گزارا اسی امید کے ساتھ کہ سمیر زہر کا کاروبار چھوڑ کر اسے واپس بلائے گا لیکن سمیر کی آنکھوں پر لالچ کی پٹی تھی ۔ وہ حقیقت کا سامنا کرنا ہی نہیں چاہتا تھا، نتیجہ یہ نکلا کہ دو سال بعد سمیر نے اپنی نیک سیرت اور سلیقہ مند بیوی کو بذریعہ ڈاک طلاق کے کاغذات بھیج دیئے _۔
پھر کیا تھا کچھ وقت کے بعد شگفتہ نے ایک چھوٹے چھوٹے موٹے کاروباری احسان کے ساتھ شادی کی جس کی بیوی انتقال کرچکی تھی، احسان زیادہ امیر نہیں تھا لیکن صوم صلوات کا پابند تھا حلال کمائی پر گزارا کرتا تھا ۔ اس کا یہ مزاج شگفتہ کو راس آیا اور دونوں ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے۔شگفتہ نے ہر حال میں احسان کا ساتھ دیا اور چند سالوں میں ہی ان کا کاروبار بام عروج پر پہنچ گیا۔ اس کا ایک بیٹا بھی ہوا جس کا نام شمس رکھا۔دونوں نے شمس کی بہت اچھے سے تربیت کی۔ وہ نہ صرف ایک اچھا اور با اخلاق انسان بنا بلکہ اس نے ایم بی بی ایس کا امتحان اچھی پوزیشن کے ساتھ پاس کیا اور ایک عمدہ ڈاکٹر بن گیا۔
اس دن شمس نے ڈاکٹری کے میدان میں کوئی زبردست کارنامہ انجام دیا تھا جس کے عوض آج اسے قومی سطح کا انعام ملنے والا تھا ۔ اس نے اپنی ماں سے کہا
“ماں میری یہ کامیابی، عزت یہ ڈاکٹری اللہ کی مہربانی سے ہے اور اس کے بعد ابا اور آپ کی محنت اور تربیت کا نتیجہ ہے ۔ ابا چونکہ کاروبار کے سلسلے میں ملک سے باہر گئے ہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ جب میں یہ انعام حاصل کروں آپ میرے ساتھ ہو۔
ماں نے بھی حامی بھر لی اور دونوں اپنی گاڑی میں بیٹھے اور کانفرنس ہال روانہ ہوئے جہاں یہ تقریب طے ہونی پائی تھی _ کانفرنس ہال کے باہر چند ایک بھکاری بیٹھے تھے۔ _ کار سے اترتے ہی ایک مسافر نے شگفتہ کے پاؤں پکڑ لئے،
اللہ کے نام پر کچھ دے دے، میں دو دن کا بھوکا ہوں
شگفتہ نے جیب سے کچھ پیسے نکالے اور بھکاری کو دے دیئے۔ بھکاری نے سر اٹھا کر شکریہ کہنا چاہا تو اس خاتون پر نظر پڑتے ہی اس نے اپنا چہرہ چھپا لیا _۔
شگفتہ کو شک ہوا _ اس نے بڑے نرم لہجے میں پوچھا ” کون ہو تم اور چہرہ کیوں چھپا رہے ہو‘‘
بھکاری پانی پانی ہو گیا اور کچھ نہیں بولا ۔ شگفتہ ذرا پاس ‘گئی. تم ……….؟؟؟
تم سمیر تم؟
تمہاری یہ حالت؟ شگفتہ نے حیرت زدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
ہاں میں بد نصیب سمیر ہی ہوں
شگفتہ نیچے بیٹھ گئی _۔ سمیر یہ سب کیسے ہوا _ ،
بس تمہارے نکلتے ہی اس اپنی ہی لگائی ہوئی آگ نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور میرا سب کچھ ختم ہوگیا _۔
پولیس نے مجھے منشیات سمیت رنگے ہاتھوں گرفتار کرلیا اور مجھے اپنی زندگی کے قیمتی دن جیل کی فصیلوں میں گزارنے پڑے۔ _ سرکار نے میری تمام جائیداد قُرق کرلی۔ چند روز پہلے ہی جیل سے چھوٹ کر آیا ہوں _۔
اور میری وہ امانت جو آپ کے پاس تھی ۔ شگفتہ نے دھیمی آواز میں پوچھا۔
کیا بتاؤں ……! میں لوگوں کے گھر جلانے میں اس قدر مگن ہوا کہ اپنے گھر کی خبر ہی نہیں رہی ۔ ایک شام کو گھر آیا تو بیٹا کمرے میں بے ہوش پڑا تھا ۔ میں نے اسے فوراً ہسپتال پہنچایا تو وہ ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دیا۔ مردہ لفظ سنتے ہی شگفتہ چکرا کر دھڑام سے زمین پر گر پڑی،،
���
اویل نورآباد، کولگام
موبائل نمبر؛700684436