۔6دسمبر بہ روزِ جمعرات ۲۰۱۸ء کو محسن ِ اردو جناب شام سندر آنند لہر کچھ مدت کی علالت کے بعد انتقال کرگئے ۔یہ خبر جوں ہی ادبی حلقوں میںپھیلی تونہ صرف وہ لوگ رنجیدہ خاطر ہوئے جو ان کے کارناموں سے مستفید ہوئے ہیںبلکہ وہ لوگ بھی رنج و غم میں مبتلا ہوئے جو ان کے کارناموں سے واقف ہیں اور ان کی اہمیت و افادیت کو سمجھتے ہیں۔محض سڑسٹھ سال کی عمر میں ان کا انتقال ان کی فیملی کے ساتھ ساتھ اردو ادب اور سماج کے لئے ایک ایسا ادبی نقصان ہے جوآسانی سے پُر نہیں ہوسکتا،لیکن موت کا ذائقہ ہر ایک کو چکھنا ہے جس سے ہم انکار نہیںکر سکتے ۔موت اگرچہ انسان کو بظاہر زندہ لوگوںکی نظروں سے اوجھل کر دیتی ہے مگر اس کے اُن کارناموں سے محروم نہیں کر پاتی جو اس نے اپنی حیات میں انجام دئے ہوتے ہیں ۔انسانی تاریخ میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو اگرچہ اس جہان ِ فانی سے صدیوں پہلے کوچ کر گئے لیکن اپنے لافانی و لازوال کارناموں کی بدولت نزندہ و پائندہ ہیںاور موجودہ صدی کے لوگوںکو بھی فیض رسائی کر رہے ہیں ۔ان ہی لوگوں کی صف میں شام سندر آنند لہر بھی ایک ہیں جن کا نام تاریخ اردو ادب میں ہمیشہ زندہ جاوید رہے گا اور اردو کی ادبی تاریخ اُنھیں کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔
آپ کا اصل نام شام سندر اورقلمی نام آنند لہر ہے ۔آپ ۲جولائی ۱۹۵۱ ء کو پونچھ میں پیدا ہوئے ۔۱۹۷۲ ء میںآپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج پونچھ سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی اور ۱۹۷۵ ء میں کشمیر یونیورسٹی سے ایل ایل بی پاس کیا۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا اور اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ کرکے نہ صرف ریاستی ہائی کورٹ کے سینئرو کلاء کی صف میں شامل ہوگئے بلکہ سپریم کورٹ کے وکلا ء میں بھی اپنی جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کی ۔
آنند لہر کی ادبی زندگی مختلف ادبی اصناف پر محیط ہے ۔انہوں نے افسانہ ،ناول ،ڈراما کی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے اور تینوں اصناف میں اپنے گہرے نقوش مرتب کئے ۔وہ اردو فکشن کے اُفق پر ایک چمکتا ہوا ستار ہ بن کر سامنے آئے ۔اگرچہ وہ ایک ایسے پیشے سے تعلق رکھتے تھے جس میں منہمک اور مصروف ہوکردوسرے کاموں کے لئے وقت نکالنابہت مشکل ہوجاتا ہے لیکن اس کے باوجود آنند لہر نے ادب سے محبت اور دلچسپی کا جو عملی ثبوت دیا ہے وہ قابل تحسین ہے ۔ انھوں نے ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا ۔’’پتھر کے آنسو‘‘ ان کا پہلا افسانہ تھا جو کالج میگزین میں شائع ہوا ۔اس کے بعدان کے قلم نے کئی کتابوں کے اوراق کو اپنی روشنائی سے مزین کیا ۔ان کی تخلیقات بیشتر ناول ،افسانے اور ڈرامے پر مشتمل ہیں اُن میں سے بعض تصانیف کو ناقدین نے کافی سراہاہے اور انھیںمستند فکشن نگار قرار دیاہے ۔ان کے کمالات کا اعتراف کرتے ہوئے کئی ادبی وغیر ادبی تنظیموں نے انھیں ا نعام و اکرام سے بھی نوازاتھا ۔ اُن کے افسانوی مجموعے ’’بٹوارہ‘‘کے دیباچہ نگار اشرف حسین لکھتے ہیں:
’’آنند لہر کا تعلق سرزمین ِجموں سے ہے جو تخلیقی اعتبار سے ہمیشہ ہی زرخیز رہا ہے ۔وہ ادب سے خاص شغف رکھتے ہیں ۔جب بھی ذہن کی بے قرار موجیں اظہار خیال کے لئے اُکساتی ہیں وہ جذبات واحساسات کو قلم بند کرنے کے لیے کمر بستہ ہوجاتے ہیں ۔اُن کا اظہار خیال ناولوں ،افسانوں اور ڈراموں کی شکل اختیار کرتا ہے ۔سپریم کورٹ کے ایک نامور ایڈوکیٹ ہونے کے ناتے آپ کی مصروفیات کا جو عالم ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔اس کے باوجود ادبی دلچسپیوں کے لیے کس طرح وقت نکال پاتے ہیں ،یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے ۔ ادبی ذوق وشوق نے اس دورجدید میں وہ مقام انھیں عطا کیا ہے جس کو بیان کرنا مشکل ہے ۔ اُن کے ڈراما’’بٹوارہ‘‘ پر صدر جمہوریہ ہند نے پچاس ہزار روپے کی ایک چھوٹی سی رقم سے انھیں سرفراز کیا ۔اُنھوں نے ’’اگلی عید سے پہلے ‘‘ ،’’سرحدوں کے بیچ‘‘،’’مجھ سے کہا ہوتا‘‘اور یہی سچ ہے‘‘ جیسے عمدہ اور بے مثال ناول لکھے ۔ساتھ ہی ساتھ ’’انحراف ‘‘،’’سرحد کے اُس پار‘‘ اور’’ کورٹ مارشل ‘‘ جیسے افسانوی مجموعے مختلف موضوعات پر لکھ کر اپنی بے پناہ فکری و فنی صلاحیتوں کا اعتراف کرایا ہے ۔‘‘
بٹوارہ (افسانوی مجموعہ)،آنندلہر ، اردو بک سوسائٹی ،دریاگنج نئی دہلی، ۲۰۰۹،ص ۹
آنند لہرنے صنف افسانہ کواپنے فکر و فن ،گہرے مطالعے و مشاہدے اوراحساسات و جذبات سے کئی عمدہ اور بہترین افسانے دئے جو فنی اور موضوعاتی اعتبار سے کامیاب اور مؤثر ہونے کے باعث قاری کو داد دینے پر مجبور کردیتے ہیں ۔ آنند لہر کے پانچ افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے ۔ ـ’’انحراف ‘ان کا پہلا افسانوی مجموعہ تھا جو ۲۰۰۲ء میں شائع ہوا۔اس کے بعد ’’سرحد کے اُس پار‘‘،’’ کورٹ مارشل ‘‘،’’بٹوارہ ‘‘ اور ’’سریشٹا نے بھی یہی لکھا ہے‘‘ کے عنوانات سے ان کے چار اور مجموعے شائع ہو ئے ان سب کوارباب ِ نقد و نظر نے کافی سراہا ۔ آنند لہر فن ِافسانہ نگاری کے اسرار و رموز سے نہ صرف بہ خوبی واقف تھے بلکہ انھیں برتنے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے ۔وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کوبھی افسانوی شکل دیدیتے تھے۔ ان کے افسانوں کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ مختصر اور چھوٹے ہونے کے باوجود زندگی اور سماجی کی کڑوی سچائیوں کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔ان کے موضوعات نت نئے،دلچسپ اور جاذب ِ نظر ہوتے ہیں۔ وہ زندگی سے اس قدر قریب ہوتے ہیں کہ ان کا مطالعہ کرتے وقت کبھی کبھار ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ہم سب کی کہانی ہے اور کرداربھی جیتے جاگتے افراد کی طرح اپنے آس پاس کے ماحول کے ہی معلوم ہوتے ہیں ۔ ان کی افسانہ نگاری کے بارے میں انور کمال حسینی لکھتے ہیں:
’’آنند لہرایک جانے پہچانے قلم کار ہیںوہ اپنے افسانوں میں زندگی کے رنگا رنگ رویوں کی عکاسی کرتے ہیں کیوں کہ وہ زندگی کے بہاؤ میںسے ہی اپنے تھیم چنتے ہیں ،اسی لیے ان کے افسانوں کو زندگی کے رواں دواں بہاؤ کی دین کہا جاسکتا ہے۔مجھے کہنے دیجئے کہ افسانے زندگی کی قاشیں ہوتے ہیں جو زندگی کی طرح کھٹے ، میٹھے ،کڑوے ،تیکھے ،کسیلے اور تیز ہوتے ہیں اور ان افسانوں کے کردار کسی دوردیس کے اجنبی نہیں ہوتے بلکہ ہمارے معاشرے کے جانے پہچانے افراد ہوتے ہیں ۔ان کے افسانے زندگی کے کسی نہ کسی کمزور پہلو یا مسئلے کو سامنے لاتے ہیں مگر تھیم پران کی گرفت کی وجہ سے وہ قاری کے ذہن پر بارنہیں بنتے ۔آنند لہر کے افسانے مختصر ہوتے ہیں لیکن مختصر ہوتے ہوئے بھی زندگی پر محیط ہوتے ہیں ۔ان پر کسی تحریک یاازم کا اثر نہیں ہے اسی لیے ان کا ادب برائے زندگی ہے اور ادب برائے زندگی ہونے کی وجہ سے ان کے افسانے زندگی کی افرا تفری کی عکاسی کرتے ہیں اور انسانی رشتوں ،سماجی رابطوں اور اخلاقی قدروں کو بھی سامنے لاتے ہیں ۔ آنند لہر کے افسانے زندگی کی مختلف قدروں اور مسائل سے جڑے ہوتے ہیں اور آنند لہر چونکہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اس لئے تجزیاتی ذہن رکھتے ہیں اور اس وجہ سے وہ مدلل طریقہ ٔ اظہار پر قادر ہیں ۔ان کی اس خوبی نے ان کے اسلوب کو نکھار دیا ہے ۔وہ حالات کا ماتم نہیں کرتے بلکہ وہ حالات کو بدلنے کی خواہش رکھتے اور کاوش کرتے ہیں ۔زندگی پر ان کی نظر گہری ہے اور افسانہ نویسی کے فنی رموز سے بھی خوب واقف ہیں ۔‘‘
انحراف (افسانوی مجموعہ)،آنند لہر، انیس آفسیٹ پرنٹرس ، کوچہ چیلان،دریاگنج،نئی دہلی،۲۰۰۲ء ، ص۴
آنند لہر اردو ادب کے اُن تجربہ کار فن کاروں میں سے تھے جنھوں نے اردو افسانہ کے ساتھ ساتھ ناول اور ڈراماکو بھی برابر کی اہمیت دی اورتینوں اصناف میں کئی معیاری تخلیقات پیش کیں۔جس طرح انھوں نے اپنی مختصر کہانیوںمیں زندگی اور سماج کے کئی سنگین مسائل کو جامع اور منفرد انداز میں بیان کیاہے اسی طرح انھوں نے اردو ناولوں میں بھی ایسے مسائل کو اُجاگرکیا ہے جوایک مہذب سماج اور تہذیب یافتہ قوم کے ماتھے پر کلنک کی مانند ہیں ۔’’اگلی عید سے پہلے‘‘ ان کا پہلا ناول ہے جو ۱۹۹۷ء میں شائع ہوا تھا۔ناول کا موضوع اس کے انتساب سے ہی ظاہر ہوتا ہے ’’کشمیر کی لڑائی میں مرنے والے اُن لوگوں کے نا م جنھیں سیکورٹی فورسز کے سپاہی یا اُگروادی کہا گیا حالانکہ وہ بھی رشتوں ،ناطوں ،سلسلوںاور تعلقات میں بندھے تھے اورگھروں کے دروازے ان کے انتظار میںبھی کھلتے تھے ‘‘۔مصنف نے اس ناول میں کشمیر کے بدلتے ہوئے حالات کو موضوع بنایا ہے۔انھوں نے ۱۹۴۷ء اور۱۹۹۰ ء کے حالات کا موازنہ کرکے دکھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح کشمیرمیں ہندو ،مسلم اور سکھ اتحاد نے قبائلیوں کو ۱۹۴۷ ء میںناکامیاب بنا دیا اور پھر کس طرح۱۹۹۰ ء کے بعدعسکری تنظیموں نے اس اتحاد کا گلا گھونٹ کریہاں کے لوگوں کو مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے خلاف بھڑکایا ۔ان کا دوسرا ناول’’سرحدوں کے بیچ ‘‘۲۰۰۲ء میں منظر عام پر آیا ۔ناول نگار نے اس ناول میں جموں وکشمیر کے سرحد ی علاقوں کے مکینوں کے مسائل کو مو ضوع بنایا ہے جو سرحد کے قیام سے پہلے مفلوک الحال زندگی بھی خوشگوار انداز میں بسر کرتے تھے لیکن جب ان کے گاؤں کے قریب سے سرحد کی لکیر کھینچ دی جاتی ہے تو وہ پریشانیوں اور مصیبتوں کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں ۔ناول نگار نے ان کے مسائل کی بڑی عمدہ ترجمانی کی ہے اور ان کے مسائل سے ہم سب کو متعارف کرایا ہے ۔ ان کا تیسرا ناول’’یہی سچ ہے‘‘ ۲۰۰۸ء میں منصہ شہود پر آیا ۔یہ ناول زندگی کے نشیب وفراز ،بدلتے وقت اور حالات، شدائد و آلام ،جذباتی بے کیفی ،ذات کا درد و کرب ،خودغرضی اور استحصال وغیرہ جیسے مسائل کو موضوع بنا کر لکھا گیا ہے ۔ مصنف کا چوتھا ناول ’’مجھ سے کہا ہوتا ‘‘۲۰۰۵ء میں ادبی منظرنامے پر آیا ۔ اس میں انھوں نے عراق اور امریکہ کی جنگ کو موضوع بنایاہے۔ جس سے ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ان کے وسیع مطالعے اور گہری سیاسی بصیرت کا بھی اندازہ ہو تا ہے۔ سید احمد قادری اُن کی تعیین قدر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اردو فکشن میں جن فنکاروں نے اپنے فکر وفن ،مطالعے و مشاہدے اور احساسات وجذبات سے قابل قدر اضافہ کیا ہے ،ان میں آنند لہر کا نام ہے جو اہم اور معتبر ہے۔انھوں نے کئی معیاری افسانوں کے ساتھ ساتھ ’’اگلی عید سے پہلے ‘‘،’’سرحدوں کے بیچ ‘‘اور’’ مجھ سے کہا ہوتا ‘‘جیسے ناول مختلف اہم موضوعات پر لکھ کر اپنی بے پناہ فکری وفنی صلاحیتوں کا اعتراف کرایا ہے ۔ ‘‘
یہی سچ ہے ،آنند لہر،اردو بک سوسائٹی،دریا گنج نئی دہلی،۲۰۰۸،ص ۶
آنند لہر کی ان کا وشوں کو اردو ادب کے مختلف ناقدین نے کافی سراہاہے اورانھیں ایک کامیاب ناول نگار قرار دیا ہے ۔موصوف کے تقریباً سبھی ناول موضوعاتی اعتبارسے دلچسپ ہونے کے علاوہ فنی معیار پر بھی کھرے اُترتے ہیں ۔جس کے عوض کئی ادبی تنظیموںنے ان کو انعامات و اکرامات سے بھی نو ازا ۔ انھوں نے ناول اور افسانہ کے علاوہ کچھ ایسے ڈرامے بھی تحریرکئے جن کوکافی مقبولیت حاصل ہوئی ۔ ’’ بٹوارہ ‘‘ نام کے ڈرامے کو صدر جمہوریہ ہند نے پچاس ہزار روپے سے سرفراز کیاتھاجو آج تک کم ہی تخلیق کاروں کو نصیب ہوسکا۔ اس طرح آنند لہر نے اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کرکے اردو ادب بالخصوص اردو فکشن کو ایسے قیمتی اثاثوں سے نوازا ہے جن کی بازگشت دور تک اور دیر تک سنائی دے گی اور ان کی یاد کو تازہ کرتی رہے گی۔
ریسرچ اسکالر ڈاکٹر ہری سنگھ گور سنٹرل یونیورسٹی ،ساگر
موبائل نمبر 9826357617