محمد خالد خان
دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ، اس وقت قدرت کے قہر کا سامنا کر رہی ہے۔ ایک طرف شدید برف باری سے کئی ریاستوں میں زندگی مفلوج ہو چکی ہے، تو دوسری طرف لاس اینجلس کے جنگلات میں لگی بے قابو آگ نے کئی شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس سانحے سے اب تک تقریباً 250 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ برف باری اور جنگلات کی آگ دونوں کے پیچھے وجوہات کی تلاش جاری ہے۔ ماہرین ان واقعات کو موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں، لیکن کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ سب قدرت کا عذاب ہے جو غزہ میں بے گناہ شہریوں پر امریکی حمایت سے ہونے والی اسرائیلی بمباری اور ظلم کے جواب میں نازل ہوا ہے۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق لاس اینجلس میں14 جنوری تک آگ کی زد میں آکر 26 افراد ہلاک ہو چکے ہیںاور 16 افراد لاپتہ ہیں،3,400 سے زائد عمارتیں خاکستر ہو چکی ہیںاور صرف8 دنوں میں 200 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے۔یہ المیہ یاد دہانی ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں یہ نہ بھولیں کہ تمام انسانی طاقتیں مل کر بھی خدا کی قدرت کے سامنے بے بس ہیں۔ غزہ کو برباد کرنے والی حکمت عملیاں صرف انسانی تباہی کا پیش خیمہ ہیں، لیکن قدرت کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ برف اور آگ جیسی مخالف قوتیں مجموعی طور پر 40,000 ایکڑ زمین راکھ میں تبدیل ہو چکی ہے۔یہ تمام واقعات ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں کی شدت اور انسانی غلطیوں کے سنگین نتائج سے سبق لینے کی تاکید کرتے ہیں۔ قدرت کے ان پیغامات کو سمجھنا اور ان سے سبق حاصل کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔
مغربی امریکہ میں برف اور جنگل کی آگ کا ایک انوکھا اور تشویش ناک امتزاج سامنے آ رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق جنگل کی آگ اور برف تیزی سے ایک دوسرے کو متاثر کر رہے ہیں۔ آگ کی شدت سے برف کی تہہ کم ہو جاتی ہے، کیونکہ جنگل کی اوپری سطح جل جانے سے سورج کی روشنی براہ راست برف تک پہنچ کر اسے پگھلا دیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ان علاقوں میں جہاں عام طور پر برف پڑتی ہے، آگ لگنے کے واقعات بڑھ جاتے ہیں۔ ان شدید حالات کے باعث امریکہ کی کئی ریاستوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔یہ حالات ان لوگوں کے لیے عبرت کا مقام ہیں جو غزہ میں بے گناہ شہریوں پر بمباری کر کے خوشیاں مناتے ہیں۔ معصوم بچوں، ضعیف بزرگوں اور بے سہارا عورتوں کو جلتا دیکھ کر بھی صہیونی رہنما اور ان کے معاون ممالک کی بے حسی جاری ہے۔ عالم اسلام سمیت پوری دنیا نے غزہ کے بے گناہ شہریوں کے قتل عام پر اپنی آنکھیں اور زبان بند کر رکھی ہیں۔ یہ خاموشی اور بے عملی انسانیت کے ضمیر پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ یہ واقعات یاد دلاتے ہیں کہ قدرت کی عطا کردہ خوبصورتی، دولت اور شہرت سب زوال پذیر ہیں۔لاس اینجلس میں آگ بجھانے کے لیے 84 ہوائی جہاز، 7,500 فائر فائٹرز اور 15,000 رضاکار تعینات کیے گئے ہیں، لیکن آگ پر قابو پانا اب بھی مشکل نظر آ رہا ہے۔ یہ قدرتی آفت انسانیت کے لیے ایک سبق ہے کہ قدرت کے قوانین کو نظرانداز کرنے اور ظلم کی حمایت کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔اطلاعات کے مطابق امریکی ریاست کیلیفورنیا میں جنگلات میں لگی آگ نے مقامی انتظامیہ اور امدادی ٹیموں کو سخت چیلنجز کا سامنا کروا دیا ہے۔ امدادی کارروائیاں جاری ہیں، لیکن کئی مقامات پر آگ بجھانے کے آلات یعنی ’فائر ہائیڈرنٹس‘ خشک ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے پانی کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ اسکولوں، کمیونٹی مراکزاور دیگر عمارتوں کو ہنگامی پناہ گاہوں میں تبدیل کیا گیا ہے تاکہ بے گھر ہونے والے افراد کو عارضی رہائش فراہم کی جا سکے۔ ماہرین کے مطابق آگ لگنے کی بنیادی وجوہات تین ہو سکتی ہیں۔خشک موسم، موسمیاتی تبدیلی اور سینٹا اینا ہوائیں۔ سینٹا اینا ہوائیں عموماً 100 سے 130 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں، لیکن بعض اوقات یہ شدت اختیار کر کے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ جاتی ہیں جو آگ کو مزید بھڑکانے کا باعث بنتی ہیں۔یہ تمام حالات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ انسان قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے نتائج سے بچ نہیں سکتا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور انسانی غفلت کے باعث پیدا ہونے والے یہ سانحات دنیا کو قدرتی وسائل کی حفاظت کی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے کافی ہیں۔ قدرت کے ان اشاروں کو سمجھنا اور ان سے سبق لینا ہی انسانیت کی بقا کے لیے ضروری ہے۔
دنیا کے سب سے امیر ترین ملک امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں آگ پر قابو پانے کے لیے بے مثال اور جدید ترین انتظامات موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ قدرتی آفت 250 ارب ڈالر کے نقصان کا باعث بن چکی ہے۔ اس آگ میں ہزاروں عمارتیں اور کئی مشہور شخصیات کے قیمتی گھر جل کر خاکستر ہو گئے ہیں۔ ان نقصانات اور تباہی کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں کے لوگوں پر کیا گزر رہی ہوگی۔ بے شک یہ ایک المناک سانحہ ہے جو ہر درد دل رکھنے والے کو غمگین کر دیتا ہے۔ یہ حادثہ دنیا بھر کے لوگوں کو ہمدردی، تعاون اور انسانیت کے جذبے کو اجاگر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ لیکن یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا یہی فکر، ہمدردی اور انسانیت کا مظاہرہ غزہ کے معصوم لوگوں کے لیے کیا جاتا ہے، جو کئی دہائیوں سے ظلم و ستم، بمباری اور ناانصافی کا شکار ہیں؟ غزہ کے بے گناہ بچے، بوڑھے اور عورتیں ہر روز اس آگ کا سامنا کرتے ہیں جو انہیں زندہ جلا رہی ہے۔ ان کے گھروں پر بم برسائے جاتے ہیں اور وہ اپنی زمین پر رہتے ہوئے بھی بے گھر اور بے یار و مددگار ہیں۔
لاس اینجلس کی آگ پر پوری دنیا کی نظریں ہیں اور اسے بجھانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن غزہ میں برسوں سے جلتی اس آگ کو بجھانے کے لیے نہ عالمی طاقتیں آگے آ رہی ہیں اور نہ ہی اس کے لیے عالمی ہمدردی کا وہ مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے جو لاس اینجلس کے لیے ہو رہا ہے۔ دنیا کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسانیت کا درد اور جذبہ ہر ایک کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔ غزہ کے معصوم شہری بھی اسی طرح کی فکر اور مدد کے مستحق ہیں جیسے لاس اینجلس کے متاثرین۔ قدرتی آفات ہوں یا انسانی ظلم ان کے متاثرین کی مدد کرنا اور ان کے لیے آواز بلند کرنا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔
رابطہ۔9122396250
[email protected]