ناممکن
خواجہ ناظم الدین پشاوری کشمیر کے دولت مندوں میں شمار ہوتا تھا اس کے پانچ بیٹے اس کا کاروبار سنبھالے ہوئے تھے وہ سب عدیم الفرصت تھے۔وہ کبھی کبھار باپ سے ملتے تھے۔ خواجہ صاحب ایک اعصابی بیماری میں مبتلا تھے ان کی بینائی پر منفی اثرات مرتب ہوئے تھے وہ قیمتی سے قیمتی عینک لگا کر بھی کچھ نہیں پڑھ سکتے تھے۔ اخبار پڑھنا ان کا شوق تھا، ان کا نشہ تھا۔
اخبار پڑھے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتے تھے، خاص کر اپنے پسندیدہ اخبار وطن کا مطالعہ کیے بغیر وہ جی نہیں سکتے تھے۔۔۔ان کے بیٹے یہ بات اچھی طرح جانتے تھے اس لیے ان کے سب سے بڑے بیٹے نے ان کے لیے ایک اردو جاننے والے استاد کا انتظام کیا تھا۔احمد علی نامی تیس سالہ شخص صبح آٹھ بجے آتا اور خواجہ صاحب کے سامنے ادب سے بیٹھ کر پہلے صفحہ سے آخری صفحہ تک کی ساری خبریں پڑھتا اور خواجہ صاحب آنکھیں بند کرکے کانوں کو کھلا چھوڑ کے ساری خبریں سنتے۔خواجہ صاحب کا دل کرتا کہ وہ خود اخبار پڑھے مگر اخبار ہاتھوں میں پکڑ کر اسے سب دھندلا نظر آتا تھا۔۔۔مجبور ہو کر وہ احمد علی سے ہی ساری خبریں سنتےا اور یہ سلسلہ اب نہ جانے کتنے برسوں سے چلا آرہا تھا۔۔۔۔۔آج بھی احمد علی خواجہ صاحب کو خبریں سنا رہا تھا۔۔۔خبریں سنتے سنتے خواجہ صاحب کی سانسیں پھولنے لگیں۔ اس کے سر میں درد ہونے لگا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اس پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہونے لگی۔۔۔۔کون سا اخبار پڑھ رہے ہو احمد علی۔۔۔
جناب آپ کے پسندیدہ اخبار وطن سے خبریں پڑھ چکا ہوں۔ حکم ہو تو پھر سے پڑھوں۔ احمد علی نے ادب کہا
ہاں پھر سے پڑھو کہیں کچھ گڑ بڑ ہے۔
احمد علی نے پھر اول سے آخر تک اخبار پڑھا۔
خواجہ صاحب اچانک کھڑا ہوئے اور غصے کی حالت میں احمد علی کی پیٹھ پر لات ماری۔ بیوقوف احمق غلط خبریں پڑھتے ہو۔ تم نے آج کسی کے شھید ہونے کی خبر نہیں پڑھی کسی بیگناہ کی ہلاکت کی خبر نہیں پڑھی ۔کیا کسی جگہ بے گناہوں کا خون نہیں بہایا گیا ہے۔ناممکن ہے یہ بالکل ناممکن۔۔۔
���
انتہا
وہ تڑپ رہا تھا۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے وجود کے اندر کانٹوں کا ایک وسیع جال پھیلا ہوا ہے اور وہ اندر ہی اندر سے لہولہان ہو رہا ہے۔ وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا۔۔مگر اس کی روح اسے الوداع کہنے کے لئے تیار نہیں تھی۔۔وہ درد سے تڑپ رہا تھا۔ موت کو آسان کرنے کے لئے کسی مقدس کتاب کی آیات پڑھی جاسکتی تھیں مگر وہ کسی بھی مذہب کو نہیں مانتا تھا۔ اس کا مذہب محبت تھا اور ان آخری لمحات میں بھی وہ اپنے مؤقف پر قائم تھا۔۔اس نے محبت کی تھی مگر اسے محبوبہ نہیں ملی۔۔۔وہ دونوں جدا ہوگیے۔۔اس نے تنہا زندگی گزاری اور اس کی محبوبہ بھی زندگی بھر تنہا رہی۔
آخری لمحات میں اس نے محبوبہ کو پکارا تاکہ اسے دیکھ کر اس کی روح آزاد ہو۔
طویل انتظار کے بعد کے بعد وہ آئی اور ۔۔۔۔۔اسے تکنے لگی دونوں کی آنکھوں سے آنسو چھلکے اور لبوں پر مسکراہٹ کے پھول بکھرے۔دونوں ایک دوسرے کو تکتے رہے۔ وقت جیسے تھم گیا۔۔۔
اور پھر جیسے وقت کا پہیہ چلنے لگا
اس نے اپنی بانہیں دراز کیں ۔۔ اوراس کے سینے پر جھک گئی اور آہستہ آہستہ اپنے ہونٹ اس کے کھردرے اور خشک ہونٹوں پر رکھ دیئے اسی وقت۔اس نے آخری ہچکی لی اور اس کی روح پرواز کر گئی۔۔۔۔۔اور محبوبہ کا سرد بےجان جسم ایک طرف لڑھک گیا۔۔۔
ایکٹر
ڈائریکٹر بھگوان داس کٹاریہ سامنے بیٹھے ہوئے فلم انڈسٹری کے مصروف ہیرو عادل خان سے کہہ رہا تھا۔
سر فلم ایک بھکاری کی کہانی ہے ایک یتیم لڑکا سڑکوں پر بھیک مانگتے مانگتے جوان ہوجاتا ہے اور بے اندازہ دولتِ کا مالک بن جاتا ہے۔دولت مل جانے کے بعد وہ انڈر ورلڈ گینگ میں شامل ہوجاتا ہے اور ایک خوبصورت لڑکی کی زلفوں کا اسیر ہوجاتا ہے۔حالات بگڑ جاتے ہیں اوراس کا اپنا قریبی دوست جس کی نظر اس کی محبوبہ پر ہوتی ہیں۔اس کا مخبر بن کر اسے انٹرنیشنل پولیس سے گرفتار کر وا لیتا ہے اور وہ جیل میں بند ہوکر قہقہہ لگاتے ہوئے کہتا ہے۔ سالا پھر سے بھکاری بن گیا۔
اس فلم میں آپ کو بھکاری کا رول ادا کرنا ہے اور ہیروئن کا انتخاب آپ خود ہی کریں گے۔معاوضہ بھی آپ کی مرضی سے طے ہوگا۔ مجھے اس فلم میں بس بھکاری کا یادگار رول چاہیے۔۔۔۔۔ہیرو نے کنٹریکٹ پر دستخط کر دیئے۔
بس میری ایک شرط ہے۔ ڈایریکٹر بھگوان داس کٹاریہ نے کہا۔۔۔ فلم کی شوٹنگ سے پہلے آپ چھ مہینے تک مختلف جگہوں پر بھیک مانگیں گے تاکہ آپ کو پورا تجربہ ہو اور فلم میں آپ ایک آیڈیل بھکاری لگیں اور فلم سُپر ہٹ ہو۔
فلم کا ہیرو عادل خان اب سڑکوں پر بھیک مانگنے لگا۔
اب وہ مسجدوں، مندروں اور گردواروں کے سامنے بھیک مانگتا رہا۔ پورے دن کی کمائی اتنی ہوتی تھی کہ ریزگاری اور نوٹ گنتے گنتے اسکی انگلیوں میں درد ہوتا۔ اس لئے اس کام کے لیے اس نے دو نوکر رکھ لیے۔
ڈائریکٹر بھگوان داس کٹاریہ نے فلم بنانے کی پوری تیاری کرلی۔ ہر چیز تیار تھی اب صرف ہیرو کا انتظار تھا۔
چھ ماہ گزر گیے۔ مگر ہیرو نہیں آیا۔۔آٹھ ماہ گزرے ہیرو نہیں آیا۔۔۔ ڈائریکٹر کا بلڈ پریشر آسمان کو چھونے لگا۔ اس نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ فوراً ہیرو کو تلاش کرو ورنہ میں سڑک پر آجاؤں گا۔
دس آدمی ہیرو کی تلاش میں نکلے۔۔۔۔تین دن تک شب و روز تلاش کرنے کےبعد ہیرو کو ایک زیارت گاہ کے ایک گوشے میں دیکھا گیا۔جب ہیرو کی نظر ان پر پڑی تو وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور تیزی سے بھاگنے لگا۔ ڈائریکٹر کے آدمی اس کا پیچھا کر رہے تھے اور وہ بھاگے جا رہا تھا۔ بھاگے جا رہا تھا۔۔۔
���
دھوکہ
شکیلہ کو شک ہوا تھا کہ اس کا شوہر غلط راستے پر چلنے لگا ہے۔اس نے بریف کیس اپنے شوہر سلیم کو تھما دیا اور اس سے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔آج کہاں جانا ہے۔؟
دفتر جانا ہے اور کہاں۔۔!سلیم نے جواب دیا اور کار کی طرف بڑھا۔۔۔دفتر میں ایک گھنٹہ باقی ملازموں کے ساتھ گپ شپ ہانکنے کے بعد وہ دفتر سے نکل کر اپنی کار میں سڑکوں پر کسی شکار کی تلاش میں بھٹکنے لگا۔
ایک جگہ ایک برقع پوش خاتون نے اس سے لفٹ مانگی۔
اس نے کار روک لی اور اپنے آپ سے کہا۔ چلو آج دیکھیں پردے کے پیچھے کیا ہے۔۔۔
کہاں جائیں گی آپ۔۔۔اس نے خاتون سے پوچھا۔
جہاں آپ لے چلیں۔۔۔خاتون کی آواز رس بھری تھی۔
ہوٹل کے ایک شاندار کمرے میں سلیم نے خاتون سے کہا،
اب تو رخ سے پردہ ہٹا لیجیے۔
ڈر ہے کہیں میرا چہرہ دیکھ کر آپ بےہوش نہ ہوجائیں خاتون نے پردے کے پیچھے مسکراتے ہوئے ۔کہا
ارے میں تو پہلے ہی بے ہوش ہوچکا ہوں ۔۔۔وہ آگے بڑھا اور خاتون کے چہرے سے پردہ ہٹا دیا۔۔۔ت ت مم تم۔ ؟ اسے یوں محسوس ہوا جیسے اسے کسی ناگن نے ڈس لیا۔
ہاں میں!آپ کی سالی آدھی گھر والی۔۔دیدی نے جاسوس بنا کر بھیجا اور میں جاسوس بن گئی۔ اب میں دیدی سے۔۔۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔ سلیم نے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔پلیز اس سے کچھ مت کہنا میں اس کی نظروں سے گر جاؤں گا۔۔پلیز۔۔
ارے جیجا جی گھبرائے مت میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گی۔۔چلیے بیٹھیے اور سمجھ لیں کہ میں ایک انجان لڑکی ہوں۔ میرے ساتھ بھی وہی سلوک کریں جو آپ اُس انجان لڑکی سے کرتے۔ جنکی تلاش میں آپ تھا۔ کیا سوچ رہے ہو جیجا جی۔۔کم آن لٹ اس انجوائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں تمہاری سالی نہیں جمیلہ ایک عام لڑکی۔۔۔۔۔یہ کہہ کر جمیلہ نے اس کی گردن میں اپنی باہوں کی گرفت مضبوط کرلی۔
ہوٹل سے نکل کر اپنی رپورٹ دینے جمیلہ اپنی بہن کے گھر پہنچی۔۔۔۔اور اپنی بہن سے کہا۔ دیدی تم خوامخواہ جیجا جی پر شک کرتی ہو۔ سب ٹھیک ٹھاک ہے۔ دیدی نے خوش ہوکر اسے گلے لگایا۔۔۔ایک عجیب قسم کی خوشبو جمیلہ کے نتھنوں سے ٹکرائی۔۔۔
وہ اپنے گھر پہنچی اور اپنے شوہر کا انتظار کرنے لگی۔
آدھ گھنٹے کے بعد اس کا شوہر آگیا۔ آتے ہی اس نے جمیلہ کو گلے لگایا۔۔۔جمیلہ اپنے شوہر کے سینے سے۔۔۔
لگی تھی۔۔۔ایک عجیب قسم کی خوشبو اس کے نتھنوں میں گھسی جارہی تھی ۔۔۔۔
���