لوگ اس کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرتے تھے۔ کچھ اُس کو ملنگ، کچھ فقیر اور کچھ اس کو اجنبی کہتے تھے۔ میرے لئے بھی وہ اجنبی ہی تھا۔ خود تو وہ اِن سب چیزوں سے بے نیاز تھا۔ صرف اپنی دُنیا میں مگن رہتا تھا اور کسی سے کوئی لینا دینا نہیں۔ تنہائیاں اُس کا مقدر بن گئی تھیں ۔ وہ دن بھر بازار میں گھومتا پھرتا تھا۔ اسکی حرکات سے لگتا تھا کہ ضرور اُس کا کچھ کھو گیا ہے اور کھونے کے اُس شدید احساس نے اس شخص کو اجنبی بنا دیا ہے!
جولائی کا مہینہ تھا۔ ہوا یوں کہ ایک دن اجنبی اچانک لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ بازار اب اُس کے بغیر سُونا سُونا سا لگتا تھا اور وہ فُٹ پاتھ، جس پر وہ اکثر دراز ہوتا تھا ، اُداس تھا۔ تعجب ہے کہ بازار میں کسی نے بھی اِس کو تلاشنے کی کوشش نہیں کی۔ اُس کی جدائی سے میں خود کو بڑا بے مصرف سا، بے کار سا محسوس کرتا تھا۔ کسی کام میں اب میرا جی نہیں لگتا تھا۔
’’اجنبی اچانک کہاں گیا؟ لوگ کیوں خاموش ہیں؟ میں ہی اکیلا کیوں اس اجنبی کے بارے میں اتنا فکر مند ہوں؟ مجھے ہی کیوں اُس کا غم ستا رہا ہے؟ اُس اجنبی سے میرا کیا رشتہ ہے؟‘‘ میں نے اپنے آپ سے پوچھا۔
’’اس لئے کہ تم ایک قلمکار ہو… ایک کہانی کار ہو۔ تمہارا اِس سماج کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے، ایک رشتہ ہے، ایک کٹمنٹمنٹ ہے…‘‘ اس غیبی آواز نے مجھے میرے ہر سوال کا جواب دیا۔
صبح کا وقت تھا۔ میں نے اپنے دوست اسلم سے پوچھا۔
’’یار اسلم! وہ بے چارہ اجنبی آخر کہاں چلا گیا‘‘۔ اجنبی کے ذکر سے میرے دوست کو غصہ آیا۔
’’تم تو عجیب ہو… مجھے اس اجنبی سے کیا لینا دینا ہے۔ یار تم تو خوامخواہ دنیا کے غمخوار بن بیٹھے ہو۔‘‘
’’یار! ایک انسان کھو گیا ہے‘‘ میں نے اسلم کو عاجزی سے کہا۔
اسلم پھر غصے سے غرایا۔
’’تمہارے بغیر اس بڑے شہر میں ہے بھی کون، جو اتنا حساس ہے! ایک اجنبی کے لئے تم اتنے فکر مند ہو، خدارا صبح سویرے میرا موڑ خراب مت کرو، مجھے اور بھی غم ہیں اس غم کے سوا!‘‘۔
’’یار! یہ مذاق کرنے کا وقت نہیں…میں اُس اجنبی کو ڈھونڈ کر ہی دم لوں گا، یہ میرا وعدہ ہے‘‘۔
’’میں بھی دیکھتا ہوں‘‘۔؟ اسلم نے بڑے ہی انہماک سے بولا۔
اس گفتگو اور بحث و تکرار کے صرفِ چند دن بعد میں ایک دوپہر کو شدید گرمی میں کسی کام کے لئے گھر سے نکلا۔ جھلسانے والی گرمی کی وجہ سے زیادہ تر لوگ گھروں میں ہی محصور تھے۔ دورانِ سفر مجھے اجنبی کی پرچھائیں دکھائی دی۔ یہ کسی کرشمہ سے کم نہیں تھا!۔ مجھے سے رہا نہ گیا۔ میں نے زور سے آواز دی …اجنبی!
بچے جو پاس ہی ندی میں نہا رہے تھے میری آواز سنکر فورا ً میرے ارد گرد جمع ہوگئے۔
’’انکل! کہاں ہے وہ اجنبی؟‘‘ اُن میں سے ایک بچے نے مجھ سے سوال کیا۔
’’تم اجنبی کو کیسے جانتے ہو!؟‘‘
’’انکل ہم اُس کو جانتے ہیں۔ وہ اس راستے سے ہر دن آتا تھا۔ وہ خود کو اجنبی کہتا تھا‘‘
بچوں کے ساتھ میری گفتگو سُن کر ایک راہگیر ہمارے سامنے آکر ٹھہر گیا۔ اور مجھے سے کہنے لگا۔
’’وہ …وہ رہا آپ کا اجنبی‘‘۔ اُس قبرستان میں بیٹھا۔‘‘
میں نے جب قبرستان کی جانب نظر دوڑائی تو میں چونک پڑا۔ وہ اجنبی قبرستان کی ایک قبر کے سامنے خاموش بیٹھا ہے۔ اجنبی کو دیکھ کر مجھے یوں لگا گویا کہ وہ اُس قبر سے محو گفتگو ہے!۔
’’اس قبر میں اس اجنبی کی بیوی دفن ہے۔‘‘ راہگیر مجھ سے بولا۔
’’کیا…!؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’ہاں… دراصل اجنبی ایک بڑا انجینئر تھا۔ اُس نے خوب دولت کمائی۔ اُس کے دو بیٹے تھے، دونوں کو اس نے ڈاکٹر بنایا، دونوں بیٹوں کے لئے دو عالیشان محل تعمیر کروائے۔ دھوم دھام سے دونوں بیٹوں کی شادی کی۔ بیٹوں کی شادی کے صرف ایک سال بعد انجینئر کی بیوی اچانک اس دارِ فانی سے رخصت ہوئی۔ بے چارے انجینئر کی دُنیا اُجڑ گئی۔ بیٹے روگرداں ہوئے۔انہوں نے جائیدار تقسیم کی… باپ کسی کے حصے میں نہیں آیا!‘‘
یہ غمناک واقعہ ایک والد کے لئے ایک بڑا صدمہ تھا۔ وہ یہ صدمہ برداشت نہ کرپایا اور آخر کار اپنی احسان فراموش اولاد سے راہِ فرار اختیار کی!!‘‘۔
���
رابطہ: آزاد کالونی پیٹھ کا نہامہ
موبائل نمبر؛9906534724