سہیل بشیر کار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام کتاب : ‘اصول فقہ (حصہ اول و حصہ دوم )
منصّف : مولانا معین الدین خٹک
صفحات : حصہ اول, 432 حصہ دوم 400
قیمت : (حصہ اول، حصہ دوم) 1200روپے
ناشر : ملت پبلی کیشنز حیدر پورہ سرینگر کشمیر
فون نمبر 9419561922
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرآن کریم سورہ توبہ میں فقہ کے بارے میں حکم دیتا ہے : ’’اور مومنین کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ سب کے سب نکل پڑیں، ایسا کیوں نہ ہوکہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے، تاکہ وہ دین میں سمجھ بوجھ حاصل کریں اور جب وہ ان کی طرف واپس لوٹ آئیں تو انہیں ڈرائیں،تاکہ وہ بچتے رہیں۔‘‘ فقہ دراصل اسلامی قانون کی تدوین ہے۔فقہ سے مراد ایسا علم جس میں اُن شرعی احکام سے بحث ہوتی ہو جن کا تعلق عمل سے ہے اور جن کو تفصیلی دلائل سے حاصل کیا جاتا ہے۔ فقہ شریعت اسلامی کی ایک اہم اصطلاح ہے۔
مولانا معین الدین خٹک لکھتے ہیں: فقہ کی تعریف میں یہ قید بھی ہے۔ ’’معرفة الاحكام الشرعية العملية‘‘ ایسے احکام شرعیہ کی معرفت اور ایسے احکام شرعیہ کا علم، جن کا تعلق انسان کے جوارح اور اعضاء سے ہو۔
وہ احکام شرعیہ جن کا تعلق عقائد اور نظریات سے ہو، اُن کی معرفت علم فقہ سے باہر ہے۔ اسی طرح اُن احکام شرعیہ کا علم بھی، جن کا تعلق ملکات انسانیہ اور نفسیاتی کیفیات سے ہو، علم تصوف کہتے ہیں،یہ بھی علم فقہ سے باہر ہے۔اس کے بعد پھر یہ لفظ ہے کہ ’’من ادلتها التفصيلية‘‘ احکام شرعیہ عملیہ کی معرفت جو اُن کے تفصیلی دلائل سے حاصل ہو۔ من ادلتها‘ کے لفظ کے ذریعے سے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اگر کوئی شخص علم فقہ کے مسائل کو سیکھ لے اور فقہی احکام کو یاد بھی کرلے ،لیکن جب تک اُن احکام کے دلائل کا اعلی علم سے حاصل نہ ہو تو اصولیین کی اصطلاح میں اُسے فقیہ نہیں کہا جا سکتا، چاہے وہ تمام احکام شرعیہ کا عالم ہو جائے۔فقہ کے تمام مسائل اُسے یاد ہوں لیکن جب تک اُسے یہ معلوم نہ ہوگا کہ فقہ کے یہ مسائل کن دلائل کے ذریعے معلوم ہوئے ہیں، تو ایسی صورت میں صرف مسائل کا علم اور صرف احکام کی معرفت فقہ نہیں ہے اور نہ اس قسم کے شخص کو اصولیین اپنی اصطلاح میں فقیہہ کہتے ہیں۔
عام طور پر یہ سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہیں کہ قرآن و سنت کی موجودگی میں آخر فقہ کی تدوین کی ضرورت کیوں پڑی؟اس کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر محمود احمد غازی لکھتے ہیں: ’’جب دوسری صدی ہجری کا آغاز ہوا اور دنیائے اسلام کی حدود، دن بدن پھیلتی چلی گئیں تو روزانہ ایسے مسائل پیش آتے تھے جن کے جوابات شریعت کی روشنی میں درکار تھے۔ آئے دن ہر بڑے چھوٹے شہر اور بستی میں نئی رہنمائی کی ضرورت پیش آتی رہتی تھی۔ ان حالات میں اس بات کا خطرہ موجود تھا کہ کسی قابل اعتماد اور مستند فقیہ کی عدم موجودگی میں لوگ کم علمی سے غلط فیصلے نہ کردیں، یا کسی کم علم آدمی سے جا کر پوچھنے لگیں اور کوئی غلط رائے قائم کر لیں۔ اس زمانے میں دنیائے اسلام کی حدود چین سے لے کر اسپین تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اسپین اور فرانس کی سرحد کے درمیان ’لے پیرینے‘ نام کا ایک پہاڑی سلسلہ آتا ہے۔ اس کی حدود سے لے کر پورا اسپین، آدھا پرتگال، پورا شمالی افریقہ، پورا مشرق وسطی، پور افغانستان، پورا وسط ایشیا، پورا ایران اور چین کی شمالی سرحد تک دنیائے اسلام کی حدود تھیں۔ اب یہاں اس بات کا امکان ہر وقت موجود تھا کہ کسی گاؤں میں، کسی دیہات میں، کسی سرحدی علاقے میں، نو مسلموں کے کسی بستی میں، کسی آدمی کو کوئی مسئلہ پیش آئے اور وہاں جواب دینے والا کوئی پختہ علم اور پختہ کار فقیہ دستیاب نہ ہو، یا موجود ہو لیکن کچا فقیہ ہو یا کچا بھی نہ ہو، لیکن اس معاملہ میں اس کے پاس رہنمائی موجود نہ ہو۔ ہو سکتا ہے کہ غلط جواب دے دے۔ یوں لوگ اللہ اور اس کے رسول ؐکی شریعت کو غلط سمجھ لیں اور غلط طریقے سے عمل کریں۔ ان حالات میں بعض فقہائے اسلام نے یہ محسوس کیا کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ نئے نئے مسائل، سوچ سوچ کر جواب دیا جائے۔ بجائے اس کے، ہم انتظار میں بیٹھیں کہ کوئی آکر صورت حال اور ممکنہ مسئلہ بیان کر کے شریعت کا مسئلہ پوچھے تو ہم جواب دیں گے۔ ہمیں از خودغور کر کے ممکنہ سوالات اور ممکنہ معاملات فرض کرنے چاہیں اور ان کا جواب تیار کر کے رکھنا چاہیے۔‘‘ (محاضرات فقہ؛ صفحہ نمبر ۴۸)
اگر قرآن اور سنت ایک ہے، تو فقہ کیوں الگ الگ مرتب ہوئی؟ مختلف مذاہب فقہ میں اس قدر اختلاف کیوں ہے، آخر فقہ کا قرآن و سنت سے استنباط کا طریقہ کیا تھا یہی جاننے کے لیے ہمیں اصول فقہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔اصول فقہ کے بارے میں مولانا معین الدین خٹک لکھتے ہیں: ’’یہ ایک علم ہے ایسے قواعد اور ضوابط کا ، جن کے ذریعے احکام شرعیہ کو اپنے دلائل تفصیلیہ سے معلوم کیا جا سکے۔علم بقواعد يترتب بها الى استخراج الاحكام على ادلة ایسے قواعد اور ضوابط کا علم جن کے ذریعے ایک شخص احکام شرعیہ کے اپنے دلائل مخصوصہ اور اپنے دلائل تفصیلیہ سے معلوم کر سکے ۔ اس فن کا نام علم اصول فقہ ہے۔‘‘
‘اصول فقہ حصہ اول حصہ دوم مولانا معین الدین خٹک کی اصول فقہ پر اہم ترین تصنف ہے۔عام طور پر اردو میں اصول فقہ پر اردو زبان میں آسان اسلوب میں اس اہم ترین فن پر کوئی کتاب دستیاب نہیں ہے،مولانا کی یہ کتاب اسی کمی کو دور کرتی ہے۔شیخ الحدیث مولانا معین الدین خٹک مدرسہ شاہی مراد آباد ہندوستان سے فارغ التحصیل ہے، چونکہ آپ کا تعلق جماعت اسلامی پاکستان سے تھا، وہ عوام سے جڑے ہوئے عالم دین تھے ،لہٰذا وہ عوام کی ضروریات کو سمجھتے تھے اور انہوں نے آسان اسلوب اختیار کیا ،انہوں نے بخاری شریف کی شرح بھی لکھی ۔اصول فقہ کا موضوع اگرچہ فنی ہے لیکن اس کو بھی آپ نے آسان اسلوب دیا، اصول فقہ پر اگرچہ ابتدائی دور سے ہی کام ہوا ہے۔امام ابوحنیفہ نے سب سے پہلے اس موضوع پر کتاب لکھی اس کے بعد علامہ اسنوعی، امام زرکشی، استاد ابوزھرہ، اور امام شافعی نے اصول فقہ پر کتابیں لکھی ،لیکن اردو میں آسان اسلوب میں کوئی کتاب دستیاب نہیں تھی ۔اس کمی کو زیر تبصرہ کتاب نے پورا کیا۔شیخ الحدیث حافظ محمد عارف صاحب کتاب کے دیباچہ میں لکھتے ہیں : ’’اب جب کہ تفسیر، حدیث، فقہ پر کافی لٹر پچر اردو زبان میں آچکا ہے مگر اصول فقہ پر ( میرے محدود علم کی حد تک ) کوئی مستقل اور جامع تصنیف ایسی منظر عام پر نہیں آئی جو اردو خواں طبقے کے لئے ان بڑی بڑی عربی کتب کا بدل ثابت ہو۔‘‘ (صفحہ 26) دو جلد کی یہ کتاب دراصل مولانا کے ان شاہکار خطبات کے مجموعے ہیں جو آپ نے ادارہ معارف اسلامی کراچی کے زیر اہتمام دیے، کتاب کے مرتب پروفیسر نورورجان لکھتے ہیں:’’علوم وفنون اسلامیہ میں اصول فقہ یعنی قوانین اسلامی کے استخراج ، انطباق اور اخذ نتائج پر مبنی علم دوسرے علوم کا سرتاج ہے، اس کا تعلق عقل و فکر سے ہے۔ چونکہ یہ انتہائی دقیق علم ہے، اس لئے صاحبان کمال ہی اس پر لب کشائی کرتے رہے ہیں۔ فقہ کا علم اور اس پر عمل درآمد دراصل اصول فقہ کے عظیم الشان علم کی روشنی میں قدم بڑھاتا ہے۔ اردو زبان میں اصول فقہ کو سہل انداز میں اب تک پیش کرنے میں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ جو مواد اس وقت اردوزبان میں موجود ہے، وہ عربی زبان سے ترجمہ کیا گیا ہے اور ان تراجم کی زبان بھی مشکل ثقیل اور گنجلک ہے۔ طالب علم اور اساتذہ اصول فقہ کے اتھاہ سمندر میں معانی و فہم کے مراد کے موتیوں کو مدتوں کی کوششوں کے بعد بھی حاصل کرنے میں ناکام رہتے تھے۔‘‘ (صفحہ 15)
فقہ کے عام طور پر چار ماخذ بتائے جاتے ہیں۔۱۔کتاب اللہ،۲۔ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،۳۔ اجماع،۴۔ قیاس اور کچھ لوگ استحسان کو بھی ماخذ مانتے ہیں۔مصنف نے ان سبھی مآخذوں پر تفصیل سے لکھا ہے. پہلی جلد میں پہلے ماخذ کو 11 باب میں اس طرح تقسیم کیا گیاہے۔۱۔ فقہ کیسے وجود میں آئی،۲۔ اصول فقہ کی تعریف ،۳۔کتاب اللہ کی تقسیم،۴۔ امر ونہی،۵۔ کتاب اللہ کی دوسری تقسیم (ظہور اور خفا کے مراد سے)،۶۔ کتاب اللہ کی تیسری تقسیم حروف و معانی،۷۔ حروف جارہ،۸۔ حروف شرط،۹۔کتاب اللہ کی چوتھی تقسیم،۱۰۔ احکام کے تقسیم۔ ذیلی عنوانات کو دیکھ کر بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ مولانا نے فقہ کے پہلے ماخذ کے کم وبیش ہر پہلو پر اظہار کیا ہے۔ ان عنوانات کے انتخاب میں مخاطبین کی ذہنی سطح کا خیال رکھتے ہوئے قدیم و جدید ضروریات کا بھی بھر پور لحاظ رکھا گیا ہے۔ یہاں قرآن کریم کے مختلف گوشوں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے اگرچہ یہ اصول فقہ کی کتاب ہے ،لیکن قرآن کریم کے مختلف گوشوں کو مصنف نے خوبصورتی سے قارئین کو آگاہ کیا ہے۔ (مضمون جاری ہے)
( رابطہ۔ 9906653927)
مولانا معین الدین کی ’’اصول ِفقہ‘‘کا ایک جائزہ