اِکز اِقبال
تعلیم کو دنیا بھر میں برابری کی سب سے بڑی قوت کہا جاتا ہے، تعلیم وہ نعمت ہے جو خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں ایک تلخ حقیقت اب بھی قائم ہے۔ معیاری اسکولوں اور ممتاز اداروں کے دروازے اکثر اُن بچوں پر بند رہتے ہیں جن کے والدین کے پاس محض صلاحیت تو ہوتی ہے، مگر جیب میں وہ گنجائش نہیں ہوتی جسے داخلہ کمیٹیاں’’اہلیت‘‘ کہتی ہیں۔
ہماری وادی کے کسی بھی ضلع میں نکل جائیں،سوپور سے کپواڑہ تک، بارہمولہ سے بڈگام تک ،ایک واضح تقسیم آپ کا استقبال کرے گی۔ایک طرف وہ بچے ہیں جو ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں داخل ہوتے ہیں، سمارٹ بورڈز کے سامنے بیٹھتے ہیں، غیر ملکی اسٹیشنری اور چمکتے یونیفارموں میں اپنی صبح کا آغاز کرتے ہیںاور دوسری طرف وہ بچے ہیں جو کمزور روشنی والے کمروں میں، سلگتی ہوئی لکڑی کے چولہے کے پاس، ایک ہی کتاب کو تین بھائی بہنوں میں بانٹ کر پڑھتے ہیں۔ ان کے ارادے مضبوط ہوتے ہیں، مگر ان کے راستے سب سے پہلے غربت روک لیتی ہے۔
ملکی اعداد و شمار چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ کم آمدنی والے خاندانوں کے تقریباً 38 فیصد بچے آٹھویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے تعلیم چھوڑ دیتے ہیں، اس لیے نہیں کہ وہ پڑھ نہیں سکتےبلکہ اس لیے کہ تعلیم اُن کے لیے معاشی طور پر ناممکن ہو جاتی ہے۔جموں و کشمیر کے بڑے نجی اسکولوں کا سالانہ خرچ اکثر 70 ہزار سے لے کر 1 لاکھ 20 ہزار روپے کے درمیان ہوتا ہے۔ یومیہ مزدوری سے گھر چلانے والے والدین کے لیے یہ صرف رقم نہیں،یہ ایک مستقل شکست ہے۔ ان کے لیے نا ممکن ہے۔
تعلیم خدمت سے کاروبار تک :
گستاخی معاف مگر بد قسمتی سے گزشتہ برسوں میں بہت سے نامور ادارے تعلیم کے مراکز کم اور منافع کے مراکز زیادہ دکھائی دینے لگے ہیں۔ دفتروں میں مشورہ کم، حساب کتاب زیادہ نظر آتا ہے۔ تعلیمی گفتگو کم،’’ڈویلپمنٹ چارجز، ٹیکنالوجی فیس، ایکٹوٹی فنڈ‘‘ زیادہ سنائی دیتے ہیں۔جیسے تعلیم نہیں، کوئی ’پیکیج‘ بیچا جا رہا ہو۔والدین داخلے کے لیے فارم بھرتے ہوئے امید باندھتے ہیں کہ شاید اس بار ادارہ ان کے خوابوں کو جگہ دے دے، مگر ان کے سامنے اکثر وہی پرانی عبارت رکھی جاتی ہے:’’سیٹیں محدود ہیں‘‘،
’’میرٹ کی بنیاد پر داخلہ‘‘۔مگر اصل میرٹ وہی ہوتا ہےجیب کی گہرائی۔میدانِ مقابلہ غیر برابر ہے۔
دولت مند گھرانوں کے بچوں کے پاس کوچنگ سینٹرز، ٹیبلیٹس، ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ، باقاعدہ نگرانی، زبان سیکھنے کے کورسز اور مختلف سرگرمیوں کے مواقع موجود ہوتے ہیں اور اسی مقابلے میں کمزور گھرانوں کے بچے ایک پرانی کتاب اور دیوار پر پڑتی زرد روشنی میں اپنا مستقبل تراشتے ہیں۔ پھر ہم کہتے ہیں،’’مقابلہ سب کے لیے برابر ہے!‘‘نہیں — یہ سچ نہیں۔ یہ وہ دوڑ ہے جس میں ایک بچے کے پاؤں میں جوتے ہیں، دوسرے کے پیر ننگے ہیں۔
سب سے تکلیف دہ بوجھ نفسیاتی زخم:
میں نے ایسے والدین دیکھے ہیں جو فیس لسٹ ہاتھ میں لیے ڈھیر ہو جاتے ہیں، آہستہ سے کہتے ہیں:’’کاش ہم بھی اپنے بچے کو ایک بہتر اسکول دیکھنے کا حق دے پاتے۔‘‘میں نے ماؤں کو شام کے وقت چھپ کر روتے دیکھا ہے،اس خوف سے کہ کہیں ان کے بچے ان کی بے بسی نہ سمجھ لیں۔
میں نے ننھے بچوں کو یہ کہتے سنا ہے:
’’امّی، شاید میں اتنا اچھا نہیں ہوں۔‘‘یہ الفاظ دل کو کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔یہ بچے ’نااہل‘ نہیں ہوتے،انہیں نظام نااہل بنا دیتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے، ذہانت کبھی صرف آسائشوں میں نہیں پھلتی۔دنیا کی بڑی شخصیات غربت کے اندھیروں سے نکل کر آئیں۔ علم، تخلیق اور ذہانت کبھی صرف بڑے اسکولوں کی ملکیت نہیں رہی۔ ہمارے گاؤں کے کھیتوں میں بیٹھا ہوا چرواہا بھی وہی ذہانت رکھتا ہے جو کسی بڑے شہر کے اسکول میں بیٹھا بچہ رکھتا ہے۔فرق صرف ایک موقع کی ہے۔
وادی کی کھوئی ہوئی روشنیاں:
جب ایک غریب بچہ ایک نامور اسکول کے دروازے سے لوٹا دیا جاتا ہے تو صرف ایک انسان نہیں—ایک مستقبل واپس کیا جاتا ہے۔پتہ نہیں وہ بچہ کل کا ڈاکٹر بن سکتا تھا، استاد بن سکتا تھا، شاعر بن سکتا تھایا کوئی ایسا ذہن بن سکتا تھا جو وادی کا نام دنیا بھر میں روشن کرتا۔ یہ محرومیاں صرف انفرادی نہیں،یہ اجتماعی نقصان ہے۔اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ تعلیم امتیاز نہیں، ترقی کا ذریعہ بنے، تو ہمیںمعاشی اعتبار سے کمزور بچوں کے لیے ضروری اسکالرشپس فراہم کرنی ہوں گی۔اسکولوں کی فیس ڈھانچے کو سادہ اور شفاف بنانا ہوگا۔داخلہ پالیسیوں میں کمزور طبقے کے لیے خصوصی نشستیں رکھنی ہوں گی۔ ضرورت سے زیادہ فیس میں اضافہ عملی طور پر ریگولیٹ کرنا ہوگا۔ سماجی اداروں اور کمیونٹی کو ایسے بچوں کی کفالت کے لیے آگے آنا ہوگا۔ اور سب سے بڑھ کر سوچ بدلنی ہوگی۔تعلیم کسی بچے کے یونیفارم یا اس کے جوتوں کی قیمت سے نہیں، اُس کی لگن اور ذہانت سے پہچانی جاتی ہے۔
آخری سوال :ہم کیسا معاشرہ بنا رہے ہیں اگر صرف دولت ہی شہرت یافتہ درسگاہوں کا قفل کھول سکتی ہے؟ ہر بند دروازہ ایک ٹوٹا ہوا خواب ہے۔ ہر انکارایک دفن شدہ صلاحیت اور ہر محرومی وہ نقصان ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔ اگر واقعی یہ ادارے مستقبل کے رہنما تراشنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ اپنے دروازے وسیع کریں تاکہ کل جب وادی ترقی کی بات کرے تو کوئی بچہ، کسی فیس لسٹ کا یتیم نہ محسوس ہو۔تعلیم حق ہے اور حق صرف امیروں کا نہیں ہوتا۔
(کالم نگار مریم میموریل انسٹیٹیوٹ پنڈت پورا قاضی آباد میں پرنسپل ہیں)رابطہ۔ 7006857283
[email protected]