ملک کے حالات روز بہ روز دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں جن کا مشا ہدہ ایک ایک شہری کر رہا ہے۔وہ اس لئے خاموش ہے کہ اس کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ۔چند سرپھرے لوگ حکومت ِ وقت کو آئینہ دکھاتے رہتے ہیں لیکن وہ بھی بے سود اور بے نتیجہ ثابت ہو رہا ہے۔جمہوریت میں ُپریس‘ کو چوتھا ستون کہا گیا ہے یعنی جمہوریت کی بقا کے لئے پریس کا مکمل آزاد ہونا ضروری ہے لیکن اس تعلق سے ملک اور بیرونِ ملک جوشبیہ بن رہی ہے وہ کم خوفناک نہیں ہے۔صرف اور صرف ہندوتوا کے نفاذ کے لئے ہندوستانی میڈیا نے گزشتہ ۴؍ برسوں سے جس طرح کا رول ادا کیا ہے وہ جمہوریت کے لئے نہ صرف تازیانہ ہے بلکہ جمہوریت کے خاتمے کی طرف ایک قدم بھی ہے۔ چند ایک معاملات اور چند ایک میڈیا ہاؤسز کو چھوڑ کر تمام کا ایجنڈا ایک ہے کہ کس طرح ہندتوا کا بول بالا قائم ہواور مودی کا تاج برقرار رہے۔اس کے علاوہ جمہوریت کی بقا کے لئے ’عدلیہ‘ کا خود مختار ہونا بھی اشد ضروری ہے کیونکہ عدلیہ کو جمہوریت کے تیسرے ستون سے تعبیر سے کیا جاتا ہے لیکن حالیہ دنوں کے چند اہم فیصلوں پر جس طرح ملک کی اہم شخصیات نے اندیشہ ظاہر کیا ہے،وہ انصاف پر یقین رکھنے والوں کی نیند اُڑا دینے کے لئے کافی ہے۔جسٹس لویا معاملے میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر پرشانت بھوشن ،ابھیشیک منو سنگھوی اور پی چدمبرن جیسے قانون دانوں نے حیرت ظاہر کرتے ہوئے کچھ خدشات کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے شک ظاہر کیا ہے کہ کہیں تو کوئی ہے جو اِن فیصلوں کو متاثر کر رہا ہے۔کچھ اسی طرح کے خدشات کا اظہار کچھ دنوں قبل جسٹس چیلا میشور اور ان کے ساتھیوں نے بھی کیا تھا۔
جھوٹ جھوٹ ہے اور سچ، سچ۔اتنی سی بات سمجھ سے بالا تر نہیں ہو سکتی۔اب یہ اور بات ہے کہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کیسے بنایا جاتا ہے ، اس میں کچھ لوگ مہارت رکھتے ہیں اور اپنی ذہانت کا استعمال اِن تخریبی کاموں کے لئے کرتے ہیں ۔یہ محاورہ یوں ہی نہیں وجودمیں آیا کہ ایک جھو ٹ کو چھپانے کے لئے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں یا بلوانا پڑتے ہیں لیکن جیت تو ہمیشہ سچ ہی کی ہوتی ہے ،بھلے ہی اس کے لئے انتظار کرنا پڑے۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج بی ایچ لویا کی موت سے متعلق عدالتی فیصلے پر بی جے پی کے علاوہ کوئی بھی مطمئن نظر نہیں آرہا ہے۔۔۔۔۔۔کانگریس اورحزبِ اختلاف کی دیگر ۶؍ پارٹیوں نے چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف مواخذہ کی عرضی راجیہ سبھا کے چیئر مین وینکیا نائڈو کو پیش کر دی ۔آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی چیف جسٹس کے مواخذہ کی تحریک پیش کی گئی ہواور یہ بھی مودی حکومت میں ہی انجام دیا جا رہا ہے۔یعنی کہ مودی حکومت جس طرح ہر کام کا کریڈت لیتی رہتی ہے اور ہر بار یہی کہتی ہے کہ یہ کام یا فلاں کام پہلی بار مودی حکومت ہی انجام دے رہی ہے اس لئے ’مواخذہ‘ کا بھی کریڈت لینے میں بھی اسے پیچھے نہیں رہنا چاہئے۔مواخذہ کی تحریک کامیاب ہوتی ہے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن بہر حال یہ ایک داغ ہے جسے مودی حکومت دھو نہیں سکے گی۔
عوام کے حافظے سے وہ واقعہ ابھی تک محو نہیں ہوا ہوگاکہ کس طرح سپریم کورٹ کے چار ججوں نے اسی سال جنوری میںچیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف ایک پریس کانفرنس کیا تھا اور مقدمات کے الاٹمنٹ کے تعلق سے تشکیل دی جانی والی بنچوں پر اعتراض جتایا تھا۔اُن چاروں ججوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جمہوریت خطرے میں ہے اور عدالتِ عظمیٰ میں اگر یہی رویہ برقرار رہا تو وہ دن دور نہیں جب سپریم کورٹ کے اعتبار پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔اُس وقت بھی درِ پردہ معاملہ جج لویا کی موت والے مقدمے کی شنوائی کرنے کے لئے تشکیل دینے والی ممکنہ بنچ کا ہی تھا ۔جسٹس دیپک مشرا نے اپنی پسند کی بنچ تشکیل دی تھی جس کے سربراہ وہ خود تھے اور باقی دو جج جسٹس چندر چوڑ اور کھانولکر تھے۔چیف جسٹس دیپک مشرا کے بعد جو سب سے سینئر جسٹس جے چلامیشور ہیں اُنہوں نے یہ اعتراض جتایا تھا کہ مقدمات سیرئل سے کیوں نہیں الاٹ کئے جاتے ۔اُن کے دیگر ۳؍ ساتھی جسٹس رنجن گگوئی ،کورین جوسف اور مدن لوکور بھی پریس کانفرنس میں ساتھ تھے۔اُس وقت بی جے پی نواز میڈیا نے اِن ۴؍ ججوں کے عمل کو عدالت کی ساکھ مجروح کرنے کا نام دیا تھا لیکن آج کے فیصلے کو دیکھیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو شبہات ان چار ججوں نے ظاہر کئے تھے ،اس کے نتائج سامنے آگئے اور جج لویا کی موت سے متعلق تمام مقدمات کو یہ کہہ کر خارج کر دیا گیاکہ کیس میں کوئی ’میرٹ‘ نہیں ہے اور اس مقدمے کی پیروی گویا وقت کا ضیاع ہوگا۔ یہ مفاد عامہ کی عرضی نہیں ہے بلکہ کسی خاص مقصد کے تحت پیش کی گئی عرضی ہے جس سے سیاسی نوعیت کا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔
عدالت عظمیٰ کے اِس فیصلے سے کس کو فائدہ ہوگا یہ ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے۔بی جے پی صدر امیت شاہ ،سہراب الدین جعلی انکاؤنٹر کیس میں ایک ملزم تھے جس کی شنوائی جسٹس لویا کر رہے تھے۔یکم دسمبر ۲۰۱۴ء کو اُن کی موت ناگپور میں پر اسرار حالت میں ہوئی۔اس کے بعد جسٹس لویا کی جگہ پر جو آئے اُنہوں نے امیت شاہ کو اس مقدمے سے بری کر دیا۔ دہلی کے ایک میگزین ’کارواں‘ نے تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی جو آج بھی انٹر نیٹ پر موجود ہے۔جسٹس لویا کی بہن نے ان کی موت پر اپنے کچھ خدشات کا اظہار کیا تھا۔اس کے بعد ۲؍مختلف پٹیشن بمبے ہائی کورٹ میں داخل کئے گئے کہ جج لویا کی موت کی تفتیش کرائی جائے لیکن ٹھیک اُنہی دنوں ایک پٹیشن سپریم کورٹ میں بھی اسی نوعیت کا داخل کیا گیا ۔کہا جاتا ہے کہ امیت شاہ کی ایما ء پر ایسا کیا گیا تاکہ بمبئی والے پٹیشن کو سبوتاژ کیا جا سکے۔بمبئی ہائی کورٹ میں اسی نوعیت کے پٹیشن رہتے ہوئے سپریم کورٹ کو دیگر پٹیشن کو خاطر میں لانا ہی نہیں چاہئے تھا۔ لیکن ایسا ہوا اورپھر ایک بڑا طبقہ وہی محسوس کر رہا ہے جن خدشات کا اظہار پہلے کیا جا رہا تھا۔
اس سے ایک دن قبل حیدر آباد کے مکہ مسجد بم بلاسٹ کا فیصلہ بھی آگیا اور تمام کے تمام ملزمین بری کر دئیے گئے۔این آئی اے اور ایس آئی ٹی نے کیس کو کس قدر کمزور بنایا تھاکہ شواہد نہ ہونے کی وجہ سے سارے ملزمین آزاد کر دئیے گئے جب کہ اسیما نند نے خود ہی اقبالِ جرم کیا تھا۔اب اسیما نند کو مغربی بنگال کی بے جے پی بُلا رہی ہے تاکہ وہ وہاں انتخابی مہم میں اس کے ساتھ رہیں تاکہ بی جے پی وہاں قدم جما سکے۔اس کے علاوہ جسٹس لویا کے مقدمے کو خارج کرنے کے دوسرے دن گجرات ہائی کورٹ سے ایک خبر آتی ہے کہ مایا کوڈنانی جو’نروڈاپاٹیا قتل عام‘ میں تا حیات عمر قید کی سزا بھگت رہی تھی اورخرابی صحت کی بنیاد پر فی الحال ضمانت پرتھی،کو ہائی کورٹ نے ’با عزت‘ بری کر دیا کیونکہ اس کے خلاف بھی گجرات کی ایس آئی ٹی کوئی’ ثبوت ‘فراہم نہ کر سکی۔یہ وہی نروڈا پاٹیا ہے جہاں پر ۲۰۰۲ء کے گجرات مسلم کش فسادات میں ۹۷؍ مسلمان مارے گئے تھے اورجس کے تعلق سے یہ بات بہت سارے شواہد کے ساتھ پیش کی جا چکی ہے کہ اُس بھیڑ کی قیادت اُس وقت کی مودی کابینہ کی وزیر مایا کوڈنانی کر رہی تھی ۔نچلی عدالت نے اسے قصور وار گردانا تھا اور تا عمر سزا سنائی تھی۔اب ایساکیا ہو گیا کہ مرکز میں مودی کی حکومت آتے ہی وہ بری کر دی گئی ۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے افراد یا تو ضمانت پر رہا ہیں یا با عزت بری کر دئیے گئے ہیں ۔ کیا اِس سے شبہ نہیں ہوتا کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے؟
آنے والا دن ہندوستان کس طرح کا ہوگا؟ اور یہاں کی جمہوریت کتنی پائیدار رہ پائیگی ؟ اس تعلق سے جسٹس چیلا میشور کے خدشات ہمارے سامنے ہیں۔جمہوریت کا دوسرا اہم ستون پارلیمنٹ ہے اور پارلیمنٹ کا ’کوئی وقار ‘مودی کے آگے نہیں ہے۔پارلیمنٹ کے اندر مودی جی ۳؍ منٹ بھی بات نہیں کرتے لیکن پارلیمنٹ کے باہرتین تین گھنٹے بات کر سکتے ہیں ۔ابھی حال ہی میں لندن میں جو اُنہوں نے میگا شو کیا ہے اور اُس کے اینکر پرسون جوشی تھے ۔جوشی نے پتہ نہیں یہ کیونکر قبول کیا جب کہ وہ فلم سرٹیفکیشن کے سربراہ ہیں اور یہ ایک خود مختار ادارہ ہے۔ہر وقت کچھ نیا کرنے کے چکر میں مودی جی غچہ کھا جاتے ہیں ۔خیر پرسون جوشی نے اسی طرح کے سوال کئے جو ہمارے پردھان سیوک کے لئے موزوں تھے اور پہلے سے تیار بھی کئے گئے تھے۔پرسون نے ایک شاعرکی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا۔اُنہیں اس پروگرام کی نظامت کے لئے تیار ہی نہیں ہونا چاہئے تھا اور اگر تیا ر ہو بھی گئے تھے تو ایک شاعر کو اس طرح زندہ درگور کرنا نہیں چاہئے تھا۔ تین گھنٹے کے اِس میگا شو سے صرف ایک سوال کا تذکرہ یہاں ضروری معلوم پڑتا ہے جب پرسون نے کسی کے سوال پر پوچھا کہ’’ مودی جی آپ اتنا فِٹ کیسے رہتے ہیں ؟‘‘۔اِس پر ہمارے وزیر اعظم نے جو جواب دیا وہ ملاحظہ کریں : ’’میرے فِٹ رہنے کے کئی وجوہات ہیں جن میں پہلی وجہ یہ ہے کہ میں روزانہ لوگوں کی ۱یک سے ۲؍کلو گالیاں کھاتا ہوں‘‘ ۔یہ جواب ہے ہمارے وزیر اعظم کا۔یعنی اُنہیں احساس ہے کہ لوگ اُنہیں گالیاں دیتے ہیں یعنی کہ وہ کام ہی ایسا بُرا کرتے ہیں جس سے لوگ اُنہیں گلیاں دینے پر مجبور ہیں۔کسی ملک کے وزیر اعظم کا اگر یہ کردار و اعمال ہوں تو اِس ملک کا خدا ہی حافظ ہے!
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ، نئی ممبئی کے مدیر ہیں؛رابطہ9833999883