بدنظَر بدنظَر پھیل گئی ہے چار سُو جس نظر کے سامنے ہے…
تم جتنے میسر ہو جاناں میں اُسی میں راضی ہوں! کبھی خاموش…
اضطراب کیا کیفیت تھی اُس طرف اب یہاں یہ کیا خُمار ہے…
مل جل کر رہیں ہم ہے جشن آزادی گیت خوشی کے گائیں…
تنہائی کا گیت صدیوں کا آزار پہن کر کتنے سائے گھوم رہے…
انتظار کی دہلیز پر تم آؤ گی تو موسم بدل جائےگا کتنی…
بارشِ معتبر فرماء پرندے پیڑ پودے بولتے ہیں جانور فرما خدایا ابرِ…
بالکونی سے جھانکتی اداس نظم تمہیں معلوم ہے لیکن پھر بھی یاد…
ہوں قریب مرگ میں نِباہ کیجئے تیرا داعی ہوں اَزلناً سُنا کیجئے ہون قریبِ مرگ میں نِباہ…
گردشِ محشر کی یاد ہم جنونِ جوش میں ایسے کمال کرتے رہے…
Copy Not Allowed
Sign in to your account
Remember me