عظمیٰ ویب ڈیسک
نئی دہلی// مرکزی کابینہ نے جمعرات کو پارلیمنٹ میں ‘ون نیشن، ون الیکشن’ بل کی منظوری دے دی، جو انتخابی عمل میں ایک بڑا قدم مانا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق، اس فیصلے کے بعد ایک جامع بل پیش کیا جائے گا، جو ملک بھر میں ایک ہی انتخابات کے لیے راستہ ہموار کرے گا۔
بدھ کے روز، بھارت کے سابق صدر رام ناتھ کووند نے کہا تھا کہ مرکزی حکومت کو ‘ون نیشن، ون الیکشن’ اقدام پر اتفاق رائے قائم کرنا ہوگا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ مسئلہ کسی سیاسی جماعت کا مفاد نہیں بلکہ ملک کے مجموعی مفاد میں ہے۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے، کووند، جو اس معاملے پر قائم کمیٹی کے سربراہ ہیں، نے کہا، “مرکزی حکومت کو اتفاق رائے قائم کرنا ہوگا۔ یہ مسئلہ کسی پارٹی کے فائدے میں نہیں بلکہ ملک کے لیے ہے۔ یہ (ون نیشن، ون الیکشن) ایک گیم چینجر ہوگا—یہ میری رائے نہیں بلکہ ماہرینِ معیشت کا ماننا ہے کہ اس کے نفاذ کے بعد ملک کی جی ڈی پی میں 1 سے 1.5 فیصد کا اضافہ ہوگا”۔
واضح رہے کہ رواں سال ستمبر میں مرکزی کابینہ نے ‘ون نیشن، ون الیکشن’ تجویز کی منظوری دی تھی، جس کا مقصد لوک سبھا، اسمبلی، شہری اداروں، اور پنچایت انتخابات کو 100 دنوں کے اندر منعقد کرنا ہے۔
اس حوالے سے سفارشات سابق صدر رام ناتھ کووند کی سربراہی میں قائم اعلیٰ سطحی کمیٹی کی رپورٹ میں پیش کی گئی تھیں۔
کابینہ کی منظوری کے بعد، وزیر اعظم نریندر مودی نے اس فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے اسے بھارت کی جمہوریت کو مضبوط کرنے کی سمت میں ایک اہم قدم قرار دیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر پوسٹ کیا، “کابینہ نے بیک وقت انتخابات پر اعلیٰ سطحی کمیٹی کی سفارشات کو قبول کر لیا ہے۔ میں ہمارے سابق صدر رام ناتھ کووند جی کو اس کوشش کی قیادت کرنے اور مختلف اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ لینے کے لیے مبارکباد دیتا ہوں۔ یہ ہماری جمہوریت کو مزید مضبوط اور شراکتی بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے”۔
دوسری جانب، مرکزی وزیر زراعت شیو راج سنگھ چوہان نے بدھ کو ریاستی اسمبلیوں اور لوک سبھا کے بیک وقت انتخابات کے انعقاد کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ بار بار انتخابات سے وقت اور عوامی وسائل کا بڑا ضیاع ہوتا ہے۔
چوہان نے نشاندہی کی کہ بار بار انتخابات عوامی فلاحی پروگراموں میں خلل ڈالنے کے ساتھ ساتھ عوامی پیسے کے بڑے اخراجات کا باعث بنتے ہیں۔
انہوں نے کہا، “میں زراعت کا وزیر ہوں، لیکن انتخابات کے دوران تین ماہ مہم میں گزارنے پڑتے ہیں۔ اس سے وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ، وزراء، ایم پیز، ایم ایل ایز، افسران اور ملازمین کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ تمام ترقیاتی کام رک جاتے ہیں، اور پھر نئی اعلانات کرنے پڑتے ہیں”۔